سیاسی لحاظ سے سر زمین سندھ کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ اس نے ملک کو بڑے بڑے سیاستداں دیے جنہوں نے اپنی جرات مندی اور بہادری سے نا صرف سندھ،بلکہ ملک کی خوشحالی کے لیے نمایاں کام کیے؛ اور اسی وجہ سے وہ عوام میں آج بھی زندہ ہیں۔ غالباً یہ 70 کی دہائی کی بات ہے،جب ملک کے اندر ایسے سیاستدانوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جن کے دانشمندانہ فیصلوں سے نا صرف بے آئین ملک کو ایک متفقہ آئین ملا،بلکہ ملک کے اندر خوشحالی کا ایک ایسا سورج طلوع ہوا کہ جس کی کرنیں براہ راست غریب عوام کی زندگیوں پر پڑیں اور ان کی بدحالی خوشحالی میں تبدیل ہوگئی۔
یہ وہی دور تھا جب ملک کے اندر سنجیدہ،معتبر سیاستدانوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی،جس میں نواب زادہ نصر اللہ خان،پروفیسر غفور احمد،قاضی حسین احمد،ایئر مارشل اصغر خان،خان عبدالولی خان سمیت لا تعداد سیاستداں موجود تھے۔ مگر اس وقت انتقام کی سیاست قدر ے کم تھی،اور تمام سیاستداں خواہ ان کا تعلق کسی بھی جماعت،کسی بھی لابی سے ہوتا،مل جل کر ملک اور عوام کے مفاد میں اجتماعی فیصلے کرتے تھے۔ اور اگر صاحب اقتدار کہیں پر کوئی غلطی کر بیٹھتا تو یہی سیاستداں اس کی مخالفت میں تحریکیں چلا کر اسے اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر مجبور کر دیتے تھے۔
اس وقت کے انہی سیاسی خاندانوں میں ایک خاندان ایسا ہے جس کے سر پر تاج قیام پاکستان سے قبل سے لے کر اب تک سجا ہوا ہے۔ یہ خاندان سندھ کا بھٹو خاندان ہے جس کے سب سے پہلے وزیراعظم کا اعزاز ذوالفقار علی بھٹو کے والد اور بینظیر بھٹو کے دادا سر شاہنواز بھٹو کو حاصل ہے۔ وہ قیام پاکستان سے قبل گجرات کے دیوان اور وزیر اعظم رہے،اور ان کے گھرانے میں 5 جنوری 1928 کو ذوالفقار علی بھٹو کی پیدائش ہوئی۔
بھٹو نے لنکن یونیورسٹی سے بیرسٹر کی ڈگری لی،اور پیشے کے لحاظ سے وکیل اور پروفیسر بھی رہے۔ ملک کے اندر جب ایوب خان کی حکومت قائم ہوئی تو ان کی ذہانت کو دیکھتے ہوئے انہیں وزیر خارجہ مقرر کیا گیا۔ غالباً یہ 1963 کا سال تھا۔ پھر تاشقند کے معاہدے کے دوران ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے در میان تنازعہ پیدا ہوا جس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان سے جدا ہو کر اپنی سیاست شروع کر دی۔ جلد ہی عوام میں بے پناہ مقبولیت حاصل اور 1967 میں اپنی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔
1970 میں ہو نے والے عام انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے وزیر اعظم کا منصب سنبھالا اور غریب عوام کے حقوق کی جنگ شروع کی۔ جس سے مزدوروں،کسانوں اور طلبہ کو نا صرف طاقت ملی،بلکہ ملک کے اندر خوشحالی کے نئے سفر کا آغاز بھی کیا۔ 1971 میں بھارت سے ہونے والی جنگ،جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش میں تبدیل ہوگیا اور ہمارے 93 ہزار فوجی بھارت کی قید میں چلے گئے،ان کو واپس لانا اور بھارت کے قبضے میں چلی جانے والی 5 ہزار اسکوائر میل زمین کو واگزار کرانا ان کا قابل قدر کارنامہ تھا؛ جسے رہتی دنیا تک فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
اس کے علاوہ پہلی اسلامی سر براہی کانفرنس،اسلامی بینک کا قیام،پاکستان اسٹیل مل،معاشی پالیسی،مزدور کسان پالیسی ان کے بہترین کارناموں میں شامل ہیں جس کے سبب انہیں عوام میں مزید مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان کی یہ مقبولیت عالمی طاقتوں کو برداشت نہ ہوئی اور انہوں نے سازش کر کے نا صرف راتوں رات فوج کے ذریعے جمہوریت پر شب خون مار کر بھٹو کی حکومت ختم کر دی،بلکہ منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پابند سلاسل کر دیا۔ جیل اور عدالتوں میں اس کی طرح طرح سے تذلیل کی گئی مگر اس مرد مجاہد نے ہمت نہیں ہاری اور جرات مندی،بہادری کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹا رہا۔ جس پر بوکھلاہٹ کا شکار امریکی گماشتوں نے اپنے اشاروں پر اسے پھانسی کی سزا دلوادی۔ اور بالآخر اس عظیم سیاستداں کو 4 اپریل 1979 کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا۔
پھانسی کی خبر پھیلتے ہی ملک بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑے اور لوگ شہید بھٹو کے عشق میں خود سوزیاں کرنے لگے۔ حالات فوج کے کنٹرول سے باہر ہو گئی جس کے باعث فوج نے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں شروع کردیں اور صرف ایک ہی روز میں ملک کے مختلف حصوں سے 5000 سے زائد پیپلزپارٹی،،سپاف،پیپلز اسٹو ڈنٹس فیڈریشن کے کارکنوں کو گرفتار کرکے ان پر جبر و تشدد کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع کر دیا۔ مگر چونکہ بھٹو شہید نے اپنے کارکنان کو سر جھکانے کے بجائے سر کٹانے کا درس دیا تھا۔ لہٰذا کارکنان ننگی پیٹھوں پر کوڑے کھا کر جئے بھٹو کے نعرے بلند کرتے رہے۔ جبکہ وہ کارکنان جنہیں مارشل لاء کورٹ نے پھانسی کی سزائیں سنائی تھیں،جئے بھٹو کے نعرے لگا لگا کر تختہ دار پر جھولنے لگے۔ اس طرح ’’شہیدوں کا یہ کارواں چلتا رہا،قافلہ بنتا رہا‘‘ کے مصداق ملک میں صرف پیپلز پارٹی کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ جمہوریت کی راہ میں سب سے زیادہ اس کے کارکنا ن نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد جب قیادت بیگم نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو نے سنبھالی،تب بھی پارٹی کے قائدین اور کارکنان کی جانب سے ملک کے غریب عوام اور جمہوریت کےلیے شہادت کے نذرانے پیش کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ اور اب تک ذوالفقار علی بھٹو شہید،شاہنواز بھٹو شہید، میر مرتضیٰ بھٹو شہید، محترمہ بینظیر بھٹو شہید، ناصر بلو چ، ایاز سموں، فقیر اقبال ہسبانی، محمد سلیم بلوچ، ،قادر پٹھان، محمد علی جاکھرا نی، منظور جسکانی، غلام حیدر کھوسو، اقبال مدد، سلیم مدد، ارشاد احمد کلوڑ، لالہ اسد، علی محمد ہنگورو، عبدلغفور منگریو، اسلم شیخ، غلام قادر جاکھرو، الیاس صدیقی، رحمت اللہ انجم، پیر غلام علی قریشی، غلام رسول ہنگورو، اکبر شاہ عاشق حسین جتوئی، رضوان احمد، نجیب احمد، یار محمد بلوچ، غلام مرتضیٰ میرانی، عبدالرحیم بروہی، وجاہت جوکھیو عبدالستار بلوچ، احمد علی سومرو، عبدالقادر راجپر، نیک محمد کھوسو، مظہر بھٹی، نواز لاکھو، ادریس طوطی، سکندر چا نڈیو، عثمان غنی، نیاز جوکھیو، ادریس بیگ ثناء اللہ شاہ، منور حسین سہر وردی، عبداللہ بلوچ، قمر کاظمی، اقبا ل ماما، عابد ایڈدوکیٹ، دھنی بخش امروٹی، عزیزاللہ اجن، زبیر جمالی، ایم جا وید، اعجاز حیدر، ولی ترک محمد، اعجاز احمد اجی، غازی صلا ح الدین، اقبال پٹیل، طفیل بلوچ امیر خان برو فت، محمد یوسف چاکی، باسط بلوچ، انور بلوچ، زاہد سعید، عبدالشکور، عبدالخالق بلوچ، علی محمد، ابراہیم شوکت عرف حاجی، ساجد بلوچ، حنیف جٹھ، عبدالقیوم، نذیر عالم، اللہ بخش بلوچ، اکرم بلوچ محمد شاہ، نور حسن جوکھیو، زوہیب جمالی، راؤ کلیم، انور ایم خان، ناصر گڈو، سہیل رشید، محمد نوشاد، محمد ندیم، محمد جا وید، محمد فضل، اشفاق باپو، صلاح الدین، معراج احمد، مسز آصف خان، رخسانہ فیصل، چوہدری شاہد، علی ایم ملاح، پیار علی کاکا، غلام قادر، احمد حسن، شاہد رضا، احسن، اللہ ڈنو، ندیم، مظہر، نعیم عباسی، بھولو خالد ڈالمیا، کاشف بلوچ، محمد علی، محمد حسن، ہا رون رشید، محمد سیف الدین، محمد محبوب، عامر بلوچ، لیا قت علی، محمد شکیل، ابرا ہیم باسط، انور بلوچ، عبدالخالق بلوچ، علی محمد، اسحاق شیخ عبدالشکور سمیت 20 گمنام شہداء اور ہزاروں معلوم اور نامعلوم شہداء نے شہید بھٹو کے مشن پر چلتے ہوئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے اور ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے۔ آج ان اور ان جیسے سیکڑوں شہداء کی بدولت پیپلز پارٹی کو شہداء کی سب سے بڑی جماعت کا درجہ دیا جائے تو قطعی طو ر پر بے جا نہ ہو گا۔