مجھے فخر ہے کہ میری پیدائش اور ابتدائی پرورش جنوبی پنجاب کے رزخیر علاقے ضلع لیہ میں ہوئی۔یہ خطہ جہاں صحر اہونے کے باوجود کاشت کاری کیلئے معروف ہے وہاں نامناسب سہولیات کے باوجود ادبی زرخیری کیلئے بھی اپنی شناخت رکھتا ہے۔لیہ سے تعلق رکھنے والی ایک ایسی ہی ایک آواز انجم صحرائی ہیں جنہوں نے صحافت میں اپنی منفرد پہچان اور مقام بنایا ہے۔
گزشتہ ہفتے میں کراچی سے اپنے آبائی گاؤں،لوریتو،چک نمبر270 لیہ گیا تو جناب انجم صحرائی سے پہلی ملاقات ہوئی۔ انجم صحرائی سے پہلا تعارف جناب اکمل شہزاد گھمن کی فیس بک پوسٹ سے ہوا،جہاں میں نے ان کی ٹائم لین دیکھی تو فرینڈ ریکویسٹ بھیجی،اور مسیج بھی کیا۔بہت جلد اُنہوں نے میری فرینڈریکوسٹ قبول کی اور اپنا نمبر بھی سینڈ کر دیا،فون پر ہماری بات چیت ہوئی تو میں نے اپنے گاؤں کے بارے میں بتایا تو اُنہوں نے مجھے اپنی کتاب ”پاکستانی اقلیتیں“ کا بتایا اور کچھ ہی دنوں بعد اپنی داستان حیات پر مبنی کتاب ”شب وروزِ زندگی“بطور تحفہ کراچی ارسال کی۔
ہماری پہلی ملاقات بہت خوش گوار رہی،ان سے مل کر یہ ہر گز احساس نہ ہوا کہ ہم پہلی دفعہ مل رہے ہیں۔وہ لیہ کی روایتی مٹھاس اور خلوص کے ساتھ ملے۔اُن سے مل کر مجھے اپنے مذہب،عمر، سینئر اور جونیئر کا فرق بالکل نہ محسوس ہوا۔ ویسے بھی میرا تجربہ اور مشاہدہ کہ لیہ میں آپکو مذہبی اور علاقائی تعصب بہت کم ملے گا۔خیر انجم صحرائی صاحب سے بہت سے موضوعات پر گفتگو ہوئی اور مجھے اُن کے خیالات نے بے حد متاثر کیا۔میں کافی دنوں سے اُن کی کتاب پر کچھ لکھنا چاہا رہا پھر سوچا کہ اُن نے ملاقات کر لی جائے تو تجربات اور احساسات میں مزید گہرائی ہو جائے گی۔ہماری یہ ملاقات انتہائی مختصر رہی کیونکہ مجھے اُسی دن واپس کراچی آنا تھا لیکن مجھے خوشی ہے کہ میری اُن سے واقفیت سے ملاقات اور ملاقات سے دوستی ہوگئی ہے۔
انجم صحرائی کی شخصیت کے مختلف پہلوہیں اُنہوں نے جن حالات اور وقتوں میں صحافت کی ہے وہ ایک قابل تحسین کام ہے، جس کے لئے وہ داد کے مستحق ہیں۔لیکن آج میں بقول انجم صحرائی سب سے اہم اور تاریخی کتاب ”پاکستانی اقلیتیں“ کے حوالے سے گفتگو کروں گا۔
مجھے حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی کہ 1984 میں شائع ہونے والی اس نایاب کتاب کے بارے میں نہ اقلیتی حلقو ں سے کبھی سنا اور نہ ہی مین اسٹریم حلقوں سے اس کتاب کے بارے میں کوئی معلومات ملی۔خیر اس کتاب کی اہمیت اس لحاظ سے زیادہ ہے اس میں پاکستانی اقلیتوں کے مثبت کردار کے بارے میں اُن کے سرکردہ رہنماؤں کے انٹرویوز ہیں جو کسی ایک خاص شہر تک محدود نہیں بلکہ ان انٹرویوز کی کہانی بڑی شاندار ہے۔اُسے اپنے یوٹیوب چینل کیلئے ریکارڈ کروں گا۔
مسلم لکھاریوں کی جانب سے پاکستانی اقلیتوں کے بارے میں لکھی جانے والی کتابوں میں مصنف کی ذاتی رائے زیادہ اور اقلیتوں کا نقطہ نظر کم ملتا ہے۔یہ کتاب اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں براہ راست انٹرویوز شامل ہیں۔اور سوالات کا مقصد اور احاط بہت وسیع ہے۔مجھے کئی انٹرویوز دیکھ انتہائی خوشی ہوئی جو بہت قابل ذکر سرمایہ ہیں۔”پاکستانی اقلیتیں“ ملک عزیز پاکستان کی تحریک سے قیام تک، تعمیر سے استحکام تک،1945ء سے 1984ء تک اقلیتی کنٹری بیوشن کی مکمل تاریخ ہے۔جس میں کراچی سے پارا چنار تک کے اقلیتی مذہبی،سماجی اور سیاسی رہنما اور دانشوروں کی زبانی، اسلامائزیشن کے بارے اقلیتی احساسات سمیت اسلام میں اقلیت کے بارے مقتدر مسلم رہنماؤں کے فکر انگیز مضامین پر مشتمل ایک مکمل اور جامع سروے رپورٹ شامل ہے۔انجم صحرائی کا کہنا ہے کہ ان کی 1984 میں شائع ہونے والی کتاب”پاکستانی اقلیتیں“ ایک منفرد کام ہے جو ایک علاقائی مسلم جرنلسٹ نے اقلیتوں کے موضوع پر کیا۔ جس میں ایم پی بھندہرا،بشپ جان جوزف، جسٹس کارنیلس،ڈاکٹر انور اجاگر سمیت بہت سے دوست اس دُنیا سے چلے گئے ہیں جن کے انٹرویو اس کتاب میں شامل ہیں۔اس کتاب میں کئی تاریخی اور معلوماتی انٹرویوز شامل ہیں جن میں دو میرے لئے انتہائی یادگار ہیں۔ایک ڈاکٹر ڈریگو اور دوسرا ہمارے گاؤں کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والے فادر فیلکس اللہ دتہ میرے لئے توجہ کا باعث رہے۔
میرے خیال میں یہ کتاب ایک تاریخی کتاب ہے جو دوبارہ جدید طرز پر شائع ہونی چاہئے اور اس وقت ہمارے معاشرے کی اہم ضرورت بھی ہے۔یہ کتاب مذہبی آہنگی،بھائی چارے اور ڈائیلاگ کو فروغ دینے والوں کیلئے ایک موثر ٹول ہے۔مجھے خوشی ہے کہ یہ کام ایک مسلم اور میرے علاقے کے صحافی نے بڑی خلوص،جانفشانی اور انتہائی نیک نیتی کے جذبے سے ادا کیا ہے۔
کتاب میں جسٹس اے آر کار نیلیس چوہدری چندو لال سا بق ڈپٹی سپیکر پنجاب ایم پی بھنڈارا وفا قی مشیر اقلیتی امور پاکستان بشپ ڈاکٹر جان جوزف بشپ الگزینڈر جان ملک بشپ ڈاکٹر ما ئیکل نذیر علی بشپ جان وکٹر سیمو ئل ڈاکٹر انورایم اجاگر مشن ہسپتال پشاور، فرانسس ایکس لو بو چیئرمین ہلال احمر سندھ، کشن چندکے پاروانی، ایم این اے ہو ند راج آوت رائے راجپال جے جے وشنو ایڈ وو کیٹ سمیت پاکستان کے چاروں صو بوں سے دیگر اقلیتی زعماء کے انٹرویو شامل ہیں۔یہ اپنے مو ضوع کے اعتبار سے اپنی نو عیت کی منفرد کتاب ہے جو تقریباً صفحات پر 160 مشتمل ہے۔
انجم صحرائی کا کہنا ہے۔ یہ کتاب اُنہوں نے مذہبی ہم آہنگی،پاکستانیت کی سوچ کو اجاگر کرنے کیلئے لکھی تھی کیونکہ ہمارے درمیان رشتہ دھرتی ماں کا رشتہ ہے اور پاکستان سب کا ملک ہے۔یہاں کا ہر بشر دھرتی سے جڑا ہوا ہے۔یہ کتاب اُس وقت مذہبی انتشار اور انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے ایک کاوش تھی۔
کتاب کا پیش لفظ معروف مسیحی ادیب اور مصنف ڈاکٹر کنول فیروز نے لکھا ہے۔وہ لکھتے ہیں۔”جناب انجم صحرائی اس اعتبار سے ہم سب کے خصوصی شکریہ اور داد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اکثریتی فرد اور قلمکار ہونے کے باوجود قریہ قریہ،کوچہ کوچہ، بستی بستی،شہر شہر گھوم کر ملک عزیز پاکستان کے حوالے سے پاکستانی اقلیتی زعما کے حساسات حاصل کئے۔انہیں یہ سب کچھ حاصل کرنے کیلئے ملک کے دور دوراز مقامات پر طویل سفری صعوبتوں سے دوچار ہونا پڑا۔کہاں عمر کوٹ،کراچی،کوئٹہ اور پشاور تک پھیلے ہوئے سلسلے،کہاں ملتان اور لیہ کی فضائیں۔انجم صحرائی اُس موضوع کی تکمیل اور تربیت وتدوین کیلئے کہاں کہاں نہیں گئے۔انہیں اس سلسلے میں جن تجربات اور حالات سے گذرنا پڑا ہوگا۔اس کا کچھ احساس وہ احباب کر سکتے ہیں جنہوں نے کبھی تصنیف و تالف کیلئے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا ہو۔جو نہ صرف متنازعہ بلکہ نازک بھی ہوں۔بہرحال انجم صحرائی اس کھٹکھٹے سے بطریق احسن اور کامرانی سے عہدہ براہوئے ہیں۔
مجھے تو یہاں انجم صحرائی کی محبتوں،محنتوں اور کاوشوں کیلئے انہیں مبارک باد ینا ہے۔اور دعویٰ سے یہ کہنا ہے کہ آج تک اقلیتوں کے موضوع پر وطن عزیز میں جتنی بھی مثبت اندازِ فکر سے کتابیں اور نگارشات اشاعت پذئر ہوئی ہیں۔ان میں اس کتاب کی حیثیت اس اعتبار سے منفرد اور قابل لائق تحسین ہے کہ یہ ایک اکثریت کے قلمکار کی تصفیت و تالیف ہے۔“
انجم صحرائی صاحب نے بتایا کہ اس کتاب کی تکمیل کے وقت اُن کی عمر25 برس کے قریب تھی۔اور اُس وقت کے جید مذہبی اور مسیحی علما سے ملاقات کرنا کوئی آسان کا م نہیں تھا۔مجھے یاد ہے کہ میرے دادا بتاتے کہ 70اور 80 کی دہائی میں لیہ سے ملتان اور لاہور جانا کتنا دشوار کام ہو تا ہے۔یہ سفر ایک کٹھن امتحان ہوتا تھا۔ایسی صورتحال کے بارے میں 2023 ء میں کراچی کے پوش ایر یا میں بیٹھ کر لیپ ٹوپ پر ٹائپ کرتے ہوئے سوچ رہا ہوں کہ انجم صحرائی کیلئے یہ سفر کتنا مشکل ہو گا اور وہ کونسا جذبہ تھا جس کے تحت اُنہوں نے یہ تاریخ ساز کام کیا تو ذہن اور دل میں ایک خیال آتا ہے،یہ جنون دھرتی سے عشق تھا جس نے اپنے ہم وطن کے درمیان محبت کے جذبے کو پروان چڑھنے کیلئے نہ دھوپ دیکھی نہ طویل سفر کی اذیت۔ یہ جنون دھرتی سے جڑے دھرتی بیٹے اور بٹیاں ہی سمجھ سکتے ہیں۔میں لیہ میں انجم صحرائی کے ”صبح پاکستان“کے آفس سے اُن سے اجازت لی، اُن کی عظمت کو سلام کیا اور واپس سرسبز کھیتوں سے ہوتا ہوا نہر کنارے اپنے گاؤں آتا سوچ رہا تھاکہ انجم صحرائی کی یہ کاوشیں ہمارے خطے اور ملک میں اُمید نو کا محرک ثابت ہوں گی۔
ایاز مورس کا کالم پڑھا انتہائی خوشی ہوئی۔ میرا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے اور مجھے فخر ہے کہ انجم صحرائی صاحب نے یہ کتاب ان دنوں لکھی جب ایسے موضوع پر لکھنا مواد کے لحاظ سے انتہائی دشوار تھا