ہوا تو کچھ نہیں تھا ، بس ایلیٹ پولیس کی گاڑی آئی اور ہم جو وی وی آئی پی کلچر کے شکار اپنے جیسے معصوم و بے بس بے زبان شہریوں کی ویڈ یو بنا رہے تھے کہ ہم بے چارے صحافی سوائے خبر لکھنے اور ویڈ یو ڈاکو منٹری بنانے کے اور کر بھی کیا سکتے ہیں ;238; ۔ اسی اثنا میں ایلیٹ پو لیس کا ڈالا آیا اور ڈسکو منٹری بناتے مجھے اور میرے ڈرائیور کو حراست میں لے لیا اور تھانہ سٹی منتقل کر دیا ۔ جہاں سے پا نچ گھنٹے بعد رہائی نصیب ہو ئی ۔ ۔ بس یہی کچھ ہوا تھا اور یہ کچھ نیا نہیں ہوا تھا ہمارے ہاں یہ روٹین کے واقعات ہیں ایسے بلکہ اس سے بھی شدید تر واقعات ہمارے ملک میں آ ئے روز ہو تے رہتے ہیں اور شا ئد پو لیس گردی کی اصطلاح پو لیس کے ایسے ہی ماروائے قانون غیر اخلاقی اور غیرضروری اقدامات اور اختیارات کے بے جا استعمال کا مظہر ہے
یہ واقعہ ہے گذرے سنیچر کا ہم سبھی میڈیابرادری کے دوست چوک اعظم اپنے پیارے نوجوان صحافی رضوان بیگ کے دعوت ولیمہ میں اکٹھے تھے ۔ وہاں سے ہم فارغ ہو کر تقریبا سواچا بجے ہم بیل چوک لیہ پہنچے جہاں ڈیوٹی پر موجود پو لیس افسران و نو جوان اپنے رواءتی رویہ سے ٹریفک کو روکے ہو ئے تھے جو نہی ہم نے اپنے دفتر صبح پا کستان کی طرف جانے کے لئے گاڑی موڑی تو ٹریفک سارجنٹ نے ہ میں بھی قدرے سختی سے گاڑی روکنے کے لئے کہا ہم نے گاڑی ایک طرف لگالی پو چھنے پر پتہ چلا کہ کو ئی وی وی آئی پی مو و منٹ ہے جس کی وجہ سے پو لیس نے ٹریفک کو بند کیا ہوا ہے ۔ اللہ بھلا کرے سو شل میڈیا کا جب سے یہ سہو لت ملی ہے ہر بندہ جس کی جیب میں ٹچ مو با ئل ہے سٹیٹس لگانے اور ویڈ یو بنا نے میں مصروف ہے سو وہاں چوک میں بھی بیسیوں نوجوان شو قیہ ویڈیو بنا رہے تھے ، ایک صحافی ہو نے کے نا طے ہمارا تو کام ہی خبر کی تلاش ہے سو ہم نے بھی اس نیوز سٹوری کی ویڈ یو ڈاکو منٹری بنا نا شروع کر دی
پو لیس والوں نے ٹریفک طرف سے روکی ہو ئی تھی اس لئے ایک سا ئیڈ سے میں ڈاکو منٹری بنا رہا تھا اور دوسری سا ئیڈ سے صبح پا کستان کے لئے غضنفر عباس وڈیو بنا رہا تھا جب وی وی آ ئی پی قافلہ گزر گیا تب ٹریفک سارجنٹ مخدوم نے اپنے ایک ساتھی اہلکار کے ساتھ آکر غضنفر کے ہاتھ سے مو بائل چھیننے کی کو شش کرتے ہو ئے اسے دھکا دیا اور پو چھا کہ وہ کون ہے اور وڈ یو کیوں بنا رہا ہے ۔ غضنفر نے اسے بتایا کہ اس کا تعلق صبح پا کستان سے ہے اور وہ میرے کہنے پر وڈ یو بنا رہا ہے ، یہ تو تکار سن کر میں آ گے بڑھا اور مخدوم سے گزارش کی کہ جناب میں بھی وڈ یو بنا رہا تھا اور غضنفر بھی میرے کہنے پر وڈ یو بنا رہا تھا اور ہمارا تعلق میڈ یا سے ہے اور وڈ یو بنا نا کوئی جرم نہیں ہے آپ اسے چھوڑ دیں ۔ ۔ جس پر ٹریفک اہلکار نے جواب دیا کہ سر میں آپ کو تو کچھ نہیں کہہ رہا لیکن یہ وڈ یو کیوں بنا رہا تھا میں نے عرض کی کہ جناب اگر وڈ یو بنانا جرم ہے تو میں بھی یہی جرم کر رہا تھا جو اس نے کیا ہم دو نوں کا جرم ایک جیسا ہے آپ مجھے کچھ نہیں کہہ رہے اسے پکڑ رہے ہیں یہ تو انصاف نہیں ۔ آ پ یہ غلط کر رہے ہیں ، ہ میں جانے دیں ہم نے کو ئی جرم نہیں کیا لیکن وہ ایک جیسا جرم ہو نے کے با وجود مجھے چھوڑنے اور غضنفر کوپکڑنے پر بضد تھا اور یہ نا انصافی میرے لئے قطعا نا قابل قبول تھی ، ہماری تو تکار سن کر مجمع بڑھتا جا رہا تھا مجھے اندیشہ ہوا کہ بڑھتے ہو ئے مجمع سے کہیں حالات زیادہ نہ خراب ہو جا ئیں ۔ لوگ آ ئے روز کی مہنگائی سے تنگ آ ئے ہو ئے ہیں اگر کسی نے
نعرہ لگا دیا تو حالات زیادہ کشیدہ ہو سکتے ہیں یہ سو چتے ہو ئے میں نے مخدوم سے کہا کہ بیٹا آپ جتنی دیر کریں گے مسائل بڑھیں گے آپ ہ میں جانے دیں ہم نے کو ئی جرم نہیں کیا اگر نہیں تو پھر ہ میں تھا نے لے چلیں یہاں رش زیادہ بڑھتا جا رہا ہے جو اچھی بات نہیں ۔ ۔ زیادہ دیر یہاں رکنا مناسب نہیں عوام کاہجوم بڑھتا جا رہا ہے اور یہ سب تمہارے لئے فائیدہ مند نہیں ۔ ۔ میری بات سن کر مخدوم بو لا ۔ ۔ میں نے دفتر اطلاع دے دی ہے ابھی وہ ایلیٹ گا ڑی بھیج رہے ہیں ۔ ۔ میں نے یہ سن کر کہ ایلیٹ پو لیس کی گاڑی آ رہی ہے منا سب سمجھا کہ اپنے ہیڈ کوارٹر کال کروں اور پریس ایلیٹ کو طلب کر لوں ۔ سو میں نے پہلے عبد الرحمن فریدی صدر ڈسٹرکٹ پریس کلب اور بعد میں محسن عدیل صدر لیہ الیکٹرانک میڈیا ایسوسی ایشن اور سینئر جرنلسٹ وائس ٹوڈے پر پروگرام آواز میں میرے میزبان فرید اللہ چو ہدری کو کال کی ۔ محسن عدیل اور فرید اللہ چو ہدری ابھی چو ک اعظم میں تھے انہوں نے کہا کہ استاد جی ابھی نکل رہے ہیں پریشان نہ ہوں ۔ ۔ پہنچتے ہیں ۔ عبد الرحمن فریدی ڈسٹرکٹ پریس کلب میں مو جود تھے وہ میری کال سنتے ہی نو جوان صحافی زاہد واندر کے ساتھ تھل چوک پہنچ گئے ، فریدی اور زاہد واندر نے ٹریفک سارجنٹ مخدوم سے کہا کہ یہ ہمارے سینئر صحافی ہیں استاد ہیں مگر ز میں جنبد نہ جنبد گل محمد کے مصداق سپا ہی خان کچھ سننے کے لئے تیار ہی نہیں تھے ۔ اسی اثنا میں ایلیٹ فورس کی گاڑی پہنچ گئی جب انہیں پتہ چلا کہ گرفت میں آ ئے لوگ صحافی ہیں تو ان کے سینئر کہنے لگے کہ پریس کارڈ دکھا ئیں ۔ یہ سنتے ہی فریدی بو لے کہ تم کس کیپسٹی میں کارڈ دیکھنا چاہ رہے ہو ۔
ان کے پریس کارڈ دکھانے کے مطا لبے پر مجھے برسوں پہلے رفیق بٹ ایس پی لیہ کی ایک پریس کا نفرنس یاد آ گئی ، اقبال قیصرانی ڈی ایس پی تھے دوران پریس کانفرنس ہ میں پتہ چلا کہ چوک اعظم کے تھا نیدار صاحب نے تھانہ میں گئے صحافیوں سے پریس کارڈ دکھانے کا مطا لبہ کیا جب صحافیوں نے نکے تھا نیدار کو اپنے پریس کارڈ دکھا ئے تو اس نے جو تبصرہ کیا ۔ ۔ وہ اتنا جاندار تھا کہ نہ صرف ضلع بھر کے صحافیوں بلکہ پو لیس کے حاکم ضلع سے بھی ہضم نہ ہو سکا ، پریس کا نفرنس میں مو جود صحافیوں کے شدید احتجاج پر تھا نیدار کو اسی وقت پولیس لائن حاضر کر دیا گیا
خیر پریس کارڈدکھانے سے انکار کے بعد ہ میں سٹی تھا نے جایا گیا اس انداز میں کہ میری گاڑی میں ایک بندوق بردارایلیٹ نو جوان کوبٹھایا گیا کہ مبادا مجرم کہیں فرار نہ ہو جا ئیں ۔ ہمارا قافلہ کچھ ایسی ترتیب سے تھانہ سٹی کی طرف چلا کہ آگے ایلیٹ کی گاڑی ، درمیاں میں میری گاڑی اور میری گاڑی میں ایلیٹ کا بندوق بردار نو جوان ، اس سے پیچھے ٹریفک پو لیس دائیں با ئیں میڈیا ورکرز ۔ ہا تھوں میں تچ مو بائل اور مو بائل پر استاد گرفتار ، بابے کو پولیس نے جھنب لیا ،صحرائی صاحب کو ایلیٹ والے تھانہ سٹی لے جا رہے ہیں ،ایسی ھالت میں جب ہم تھانہ صدر پہنچے پچاس ساٹھ سے زیادہ دوست تھانہ سٹی کے گیٹ پر ہمارے منتظر تھے ۔ جو نہی ہمار گاڑی تھانہ میں پہنچی اسی وقت ایس ایچ او تھانہ سے باہر آ ئے صدر ڈسٹرکٹ پریس کلب فریدی صاحب نے انہیں روکتے ہو ئے اپنا تعارف کرانے کی کو شش کی لیکن وہ رکے نہیں پو لیس ڈالے پر بیٹھتے ہو ئے ایس ایچ او بہادر نے فرمایا کہ میری میٹنگ ہے ڈی پی او صاحبہ میری منتظر ہیں میں پہلے ہی لیٹ ہو گیا ہوں ۔ آ پ اندر جا ئیں ایڈ یشنل ایس ایچ او مو جود ہیں وہ آپ کا معاملہ دیکھیں گے ایس ایچ او بات سننے کے بعد میں نے لقمہ دیا کہ جناب مجھے پولیس گرفتار کر کے لائی ہے میرے لئے کیا حکم ہے جواب ملا ۔ ۔ اندر جا ئیں ۔ ۔
حسب ہدایت آفیسر مجاز ہم سب پچاس ساٹھ دوست تھانہ سٹی کے دفتر میں جا کر بیٹھ گئے کمرہ خالی تھا ۔ اس وقت سو شل میڈ یا کمپین ہو نے کے سبب اظہار یکجہتی کر نے والے دوستوں کا رش بڑح چکا تھا ، ضلع بھر سے پریس کے دوستوں کے علاوہ مسلم لیگی رہنما چو ہدری محمد اسلم منا ایڈوو کیٹ ، سینئر قانون دان شیخ جاوید ایڈوو کیٹ ، انجمن تاجران کے جزل سیکرٹری خلیل احمد انصاری سمیت بلا شبہ سول سو ساءٹی کے سینکڑوں افراد تھانے میں مو جود تھے اب یہ معاملہ میرا رہا ہی نہیں تھا ، تقریبا ایک گھنٹے سے زائد وقت سے پورا شہر تھانے میں مو جود تھا لیکن کسی نے نو ٹس نہیں لیا فیس بک پر میری گرفتاری ٹاپ ٹرینڈ بن چکا تھا لیکن لگتا پو لیس ذمہ داران بے خبر تھے ،تقریبا پونے گھنٹے کے بعد ایڈیشنل ایس ایچ او جب ایس ایچ او کے دفتر میں تشریف لا ئے دفتر کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد انہوں نے کمرے میں براجماں اور کھڑے لو گوں پر ایک طا ئرانہ نظر ڈالی ، پھر ایک شان بے نیازی سے اپنی جیب سے دو تین مو با ئل نکال کر میز پر رکھے گولڈ لیف سگرٹ کا پیکٹ نکا لا پھر ایک سگرٹ سلگائی اور دھواں چھوڑتے ہو ئے اور بو لے جی ۔ ۔ آفیسر بہادر کے مخاطب محسن عدیل تھے جواب ملا کچھ نہیں ہم ایک پونے گھنٹہ سے پو لیس سٹیشن میں مو جود ہیں ہ میں بتایا گیا تھا کہ آپ ہمارا معاملہ دیکھیں گے مگر آپ تو مو جود ہی نہیں ۔ ۔ ہ میں آپ سے کچھ نہیں کہنا ۔ ۔ ایڈیشنل ایس او بھی یہی چا ہتے تھے سو وہ یہ جواب سن کر دفتر کیا شا ید تھانے سے ہی چلے گئے یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ وہ اگلے چار پانچ گھنٹے جب تک ہم تھانے میں رہے وہ ہ میں نظر نہیں آ ئے ، پو لیس کی طرف سے ہماری غیر قانو نی حراست کی خبر سو شل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن چکی تھی نہ صرف پا کستان بلکہ بر طا نیہ ، یو کے ، آذر با ئیجان ، یو اے ای سمیت بیرون ملک رہنے والے پا کستا نیوں کی طرف سے مذمتی پو سٹ آ رہی تھیں ، کراچی ،، اسلام آباد ، ملتان ، لا ہور ، بہاولپور سمیت سبھی چھوٹے بڑے شہروں سے دوست رابطہ میں تھے اور سبھی پریشان و مضطرب تھے ۔ تقریبا ڈحائی تین گھنٹے بعد ایس ایچ او تشریف لائے ، اپنے دفتر اور تھانے میں رش دیکھتے ہو ئے فرمایا کہ آ ئیں میٹنگ روم میں آ جا ئیں دوستوں نے جواب دیا نہیں یہیں ٹھیک ہیں کہنے لگے ٹھیک میں آ تا ہوں ، ان کے جانے کے بعد ایک شخص نے دفتر میں آڑی ترچھی کر سیاں سیدھی کرا ئیں صاحب کی کر سی میز صاف کی ۔ چند لمحوں کے بعد ایس ایچ او صاحب آ گئے اور کرسی پر بیٹھتے ہو ئے پو چھا کہ جی فر ما ئیں ۔ مھسن عدیل کہنے لگے ہم آپ سے احتجاجا بات نہیں کریں گے وہ اس لئے کہ چار گھنٹے قبل ہمارے صدر آپ سے بات کر نے کے لئے دس منٹ ما نگ رہے تھے آپ کے پاس پریس کی بات سننے کے لئے دس منٹ بھی نہیں تھے اب آپ چار گھنٹے کے بعد آ ئے ہیں ۔ ۔ ہم آپ سے کو ئی بات نہیں کریں گے ۔ ۔ ایس ایچ او صاحب نے عبد الرحمن فریدی کی طرف دیکھا تو ان کا مو قف بھی یہی تھا یہ سن کر ایس ایچ او کہنے لگے کہ کس سے بات کریں گے ، جواب ملا ڈی ایس پی سے ۔ ۔
تقریبا آدھے گھنٹے بعد ڈی ایس پی تھانے میں پہنچے ۔ پو چھا فرمائیں ;238; دوستوں نے ساری کہانی سنائی اور استدعا کی کہ ہمارے استاد سینئر ساتھی کو پو لیس کسٹڈی میں تھانے سٹی لایا گیا گذشتہ پانچ چھ گھنٹوں سے تھانے میں حبس بے جا کی حالت میں مو جود ہیں ، اگر ان کا کو ئی جرم ہے کو ئی ایف آ ئی آر ہے ، ہ میں بتا ئیں ، ہمارے وکلاء مو جود ہیں ، ضمانت کرانے کے لئے قانونی راستہ اختیار کرتے ہیں ، ڈی ایس پی صاحب مسکرائے اور کہنے لگے ہ میں ( پو لیس ) کو تو یہ مطلوب ہی نہیں یہ سن کر محسن عدیل اور عبد الرحمان فریدی ایک ساتھ بو لے کہ اگر یہ آپ کو مطلوب نہیں تو پھر ہ میں آپ مطلوب ہیں ، ڈی ایس پی نے یہ سن کر کہا بتا ئیں آپ کی ڈیمانڈ کیا ہے ۔
جواب ملا کہ ہانچ گھنٹے حبس بے جا رکھنے پر ذمہ دار پو لیس اہلکاران و ذمہ داران کے خلاف ایف آئی آر اور انضباطی کاروائی ، وہیں ڈی ایس پی کے سامنے میڈ یا قیادت نے نے دو دن میں مطا لبات پورا کرنے کا مطا لبہ کیا اور مطا لبات پورے ہو نے تک پو لیس خبروں کے با ئیکاٹ کا اعلان کیا ۔
اور پھر یہ ہوا کہ دو دنوں میں مطالبات پورے ہوئے انضباطی کاروائی بھی ہو ئی اور پو لیس مجاز افسران نےڈسٹرکٹ پریس کلب میں آکر اپنی غلطی تسلیم کرتے ہو ئے معذرت بھی کی
سچ ہے کہ اتفاق میں طاقت ہے ۔ اس واقعہ نے سارے پریس کو متحدو متفق کر دیا پریس کے سبھی دوست ، پریس کی سبھی تنظی میں ، وکلاء اور سول سو ءٹی انسانی حقوق کی علمبرداری اور تحفظ کے لئے ایک ساتھ کھڑے ہو گئے اور یوں غیر قانو نی ریاستی رویوں کے مقابلہ میں سماج جیت گیا سول سو ساءٹی جیت گئی انصاف جیت گیا آزاد صحا فت جیت گئی ۔ ۔
انجم صحرائی
صحافی ہوں یا عام آدمی ۔
پاکستان میں ان تک انصاف میرٹ پر نہیں ملا ۔
آپ ہمارے باپ کا مقام رکھتے ہیں ۔
آپ نے ہمیں زبان دی ۔ ہمیں عزت دی شان دی ہمیں سماج کی خدمت کرنے کا موقع دیا ۔
انجم صحرائی صاحب جب میں نے آپ کے خلاف پولیس حراسمنٹ کی پوسٹ پڑھیں تو مجھے بہت دکھ ہوا ۔
اور جب آپ سے ملاقات کیلئے آیا تو دل سے آنسو آ رہے تھے لیکن کیا کرتا اس بددماغ پولیس والوں کا کر ہی کیا سکتا تھا ۔
ڈھیر ساری دعائیں ہیں آپ کیلئے آپ پاک آپ کو دنیا و آخرت میں کامیابی عطاء فرمائے سر ۔
اللہ پاک آپ کو لمبی زندگی صحت و سلامتی عطاء فرمائے آمین ثمہ آمین یا رب العالمین بحق معصومین علیہم السلام ۔
میری 27 سالہ زندگی میں ضلع لیہ کی سرزمین پر صحافت میں سچا حق کی بات کرنے والا پہلا ایسا شخص انجم صحرائی صاحب ہے جس کیلئے میں ا یقین کے ساتھ کہ سکتا ہوں یہ انسان کبھی غلط نہیں کر سکتا کیونکہ اس انسان نے دنیا میں آنے والی نئی نسل میں حق سچ اور نصرت کا بیج بویا ہے ۔
انجم صحرائی صاحب نے ہمیشہ ایک حقیقی والد جیسی تربیت کی ۔
ہمیشہ نئے صحافیوں کو نئی جنریشن کو حق سچ اور ایمانداری کا درس دیا۔
ہمیشہ سچ کا ساتھ دیا ۔
صحافی ہوں یا عام آدمی ۔
پاکستان میں اج تک انصاف میرٹ پر نہیں ملا ۔
آپ ہمارے باپ کا مقام رکھتے ہیں ۔
آپ نے ہمیں زبان دی ۔ ہمیں عزت دی شان دی ہمیں سماج کی خدمت کرنے کا موقع دیا ۔
انجم صحرائی صاحب جب میں نے آپ کے خلاف پولیس حراسمنٹ کی پوسٹ پڑھیں تو مجھے بہت دکھ ہوا ۔
اور جب آپ سے ملاقات کیلئے آیا تو دل سے آنسو آ رہے تھے لیکن کیا کرتا اس بددماغ پولیس والوں کا کر ہی کیا سکتا تھا ۔
ڈھیر ساری دعائیں ہیں آپ کیلئے اللہ پاک آپ کو دنیا و آخرت میں کامیابی عطاء فرمائے سر ۔
اللہ پاک آپ کو لمبی زندگی صحت و سلامتی عطاء فرمائے آمین ثمہ آمین یا رب العالمین بحق معصومین علیہم السلام ۔