اپنی خواہشات کو قابو میں رکھنے والے بہت جلد مقام خودی پا لیتے ہیں ، جو دراصل خود اپنی پہچان اور رب کی پہچان کا ذریعہ ہے، کبھی یہ مقام بلندی کا اور کبھی معراج کا ذریعہ بنتا ہے ۔ دنیا میں آج تک کبھی کسی ’’کتے‘‘ نے غیر مالک کے سامنے سر نہیں جھکایا‘ پھر وہ انسان کیا ہوا جو ہر کس و ناکس کے سامنے جھکتا پھرے ۔ یقینا ایسا انسان اپنے مقام سے بے خبر ہے تو پھر اپنے خالق و رب کو پہچاننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ یہ ایک محب اقبال کا سادہ ترین فلسفہ ’’خودی‘‘ ہے جو عصر حاضر میں دانشوری کے اونچے مقام پر فائز ہیں ،انہیں پروفیسر وحید الزماں طارق کہتے ہیں جو دور نزدیک تک اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ بنیادی تعلیم اور پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر لیکن علم و فراز کے حوالے سے ماہر اقبالیات ہیں ۔ تمغہ صدارت پانے کے علاوہ بھی عالمی سطح پر بے شمار اعزازات کے حامل ہیں ۔ یعنی بہت بڑے رئیس ہیں ۔
اسی لئے رئیسِ جامعہ اسلامیہ ڈاکٹر اطہر محبوب (تمغہ امتیاز) ایسی ہی قد آور امتیازی خصوصیات سے سجی شخصیات کی تلاش میں رہتے ہیں گزشتہ ہفتہ انہوں نے بیاد اقبال کے سلسلہ میں جامعہ میں شاندار سمینار کا اہتمام کیا جس میں موصوف پروفیسر وحید الزماں نے شاعر مشرق کے آفاقی پیغام کو سنہرے لفظوں میں بیان کیا ۔ سامعین کو نصیحت کی کہ اگر ’’اللہ ‘‘کو پہچان لیں تو دونوں جہانوں میں بلند مقام پا سکتے ہیں ۔ اپنی مختصر اور عارضی زندگی کو طول و دام دے سکتے ہیں اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو خود کو ہی پہچان لیں ، جان لیں تو بے شمار رازِ قدرت سمجھ میں آنے لگتے ہیں اور قدم قدم کے فرمان یزداں بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ ہم نے انسان کو ایک بڑے مقصد کے لئے تخلیق کیا ۔ یہ ہمارا نائب اور اشرف المخلوقات ہے ۔ خالق بار بار یہی فرماتا ہے کہ اے نادان اپنی تخلیق پر غور کر تجھ پر کئی راز خود بخود افشاء ہو نے لگیں گے ۔
بیاد اقبال کے ضمن میں منعقدہ تقریب سے ڈاکٹر اطہر محبوب کا خطاب بھی اسی پیغام کی تصدیق تھی کہ انسان عام طور پر اور مسلمان خاص طور پر اور اس سے بھی بڑھ کر مومن ۔ ۔ ۔ ۔
یہ راز کسی کو نہیں معلوم مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
وارثِ خدا اور وارثِ دین حق ہے جو امن ، سلامتی، خیر و فلاح اور بقاء کا دین ہے ۔ اس موقع پر ڈاکٹر اطہر محبوب نے مقرر مکرم پروفیسر وحید الزمان کو جامعہ اسلامیہ بہاول پور کی نشاط ثانیہ کو موجودہ نسل تک پہنچانے کے لئے ایسے مزید لیکچر یہاں آکر دینے کی دعوت دی جو بعد افتخار انہوں نے قبول کر لی اس کامیاب علمی ، ادبی اور اصلاحی تقریب کا اہتمام شعبہ فارسی کی صدر ڈاکٹر عصمت دُرانی اور ان کے رفیق‘ رفیق السلام نے خو ب کیا تھا ۔ تبریک و تحسین کے گلاب رئیس جامعہ و ان کے معاونین اور معمارانِ وطن کے لئے جو ہمارے حال و مستقبل کے درخشنداں ستارے ہیں ۔
ہمارے اقبال نے کہا تھا کہ
فطرت کے مناظر کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحراء ، یا مرد کوہستانی
آج کا دن خوشیوں بھرا دن کہ ہمارے آشیانے پر تھل، صحراء یعنی بندہ صحرائی محترم انجم صحرائی لیہ سے یہاں تشریف لائے ۔ ان کی آمد سے ہمارے گھر کے درودیوار سمیت قلب و جگر بھی جھوم اُٹھے ۔ برادرِ محترم انجم تھل کے معروف ادیب، صحافی، دانشور اور انسان دوست شخصیت ہیں ۔ ان کی تشریف آوری سے اعزازو افتخار کے کئی چمن کھِل اُٹھے ۔ ہم ان کے احسان مند ہیں کہ اتنی دور کی مسافت طے کر کے ہمارے بچوں زوہیب ، شان اور صدف کی شادی اور نئے آشیانے کی تعمیر پر مبارک باد اور دعائیں دینے آئے تھے ۔ کمال محبت اُن کی، اللہ تعالیٰ انہیں آباد و شاد رکھے ۔ اس بندہ صحرائی نے جو تحفہ دیا وہ خانہ خدا کا سنہری دروازہ (تزئینی فریم) ہے جو اپنے ساتھ پیغام لایا کہ یہی وہ دَر ہے جس سے کوئی مانگنے والا خالی نہیں جاتا ۔ یہ وہی دَر ہے جس کے بارے میں شیخ سعدی اپنے معتقدین سے فرماتے تھے کہ اسے کھٹ کھٹاتے رہو، کھٹ کھٹاتے رہو ۔ یہ ضرور کُھلے گا ۔ اسی اصرارو تکرار کا منظر تھا کہ ایک سادہ سی غریب دیہاتی بزرگ اماں نے سعدی کی یہ بات سن لی اور سعدی کوروک کر کہا کہ سعدی ’’یہ بتا رب کا دروازہ کبھی بند بھی ہوتا ہے‘‘
سعدی نے جب یہ سنا تو روتے ہوئے سجدے میں جا گرے اور رب سے کہنے لگے ، اے میرے رب! یہ بڑھیا تجھے مجھ سے کہیں بہتر جانتی ہے ۔
اسی جان ، اسی پہچان کی بات اقبال نے اپنے فلسفہ خودی میں بار بار کی ہے کہ تو میرا نہیں بنتا نہ بن ۔ اپنا تو بن ۔ اقبال کے شاہینوں کے لئے ایک تازہ خبر ہے کہ بنگلہ دیش کے سابق چیف جسٹس سریندر کمار کو منی لانڈرنگ کرنے اور قوم کا بھروسہ توڑنے کے جرم میں گیارہ سال قید کی سزا سنا دی گئی ہے ۔ اچھا ہوا بنگالی ہم سے الگ ہو گئے ، ورنہ یہاں کے چھ جج مل بیٹھتے اور قوم کا بھروسہ قوم کے منہ پر مار کر اپنے ساتھی کو باعزت بری کر دیتے ۔ اقبال کے شاہین یہ بھی جان لیں کہ اکثر دیواروں پر لکھا ہوتا ہے کہ ’’محبوب آپ کے قدموں میں ‘‘ مگر یہ کہیں نہیں لکھا جاتا کہ’’ بیگم آپ کے قدموں میں ‘‘ ۔ نہیں ناں ۔ ۔ ۔ ۔ کیونکہ دنیا ساری جانتی ہے کہ یہ کام کسی کا باپ بھی نہیں کر سکتا ۔ بس ذرا جی چاہ رہا تھا کہ اقبال کے فلسفہ خودی اور شاہین کی بے خودی اور بے بسی پر بھی بات ہو جائے ۔ مسکرائیے بلکہ ’’کھلئیے‘‘ کہ اقبال گرچہ فرنگی، فارسی، عربی اور اردو کے ماہر تھے لیکن محبانِ اقبال سرائیکی بھی ہیں ۔
bhatticolumnst99@gmail;46;com