ایک بادشاہ راستہ بھٹک کر کسی ویرانے میں پہنچ گیا،وہاں جھونپڑی تھی اس جھونپڑی میں رہنے والے شخص نے بادشاہ کی بڑی خدمت کی،وہ غریب جانتا بھی نہیں تھا کہ یہ بادشاہ ہے،مسافر سمجھ کر خدمت کی،بادشاہ بہت خوش ہوا،جب جانے لگا تو اس نے اپنی انگلی سے مہر والی انگوٹھی اتاری اور کہا:
تم مجھے نہیں جانتے ہوکہ میں بادشاہ ہوں۔یہ انگوٹھی اپنے پاس رکھو،جب کبھی کوئی ضروت ہوگی ہمارے محل میں آجانا،دروازے پر جو دربان ہوگا اسے یہ انگوٹھی دکھا دینا،ہم کسی بھی حالت میں ہوں گے وہ ہم سے ملاقات کرادے گا۔بادشاہ چلا گیا، کچھ عرصے کے بعد اس غریب کو کوئی ضرورت پیش آئی،تو وہ محل کے دروازے پر پہنچ گیا،کہا بادشاہ سے ملنا ہے، دربان نے اوپر سے نیچے تک دیکھا کہ اس کی کیا اوقات ہے بادشاہ سے ملنے کی،کہنے لگا نہیں مل سکتے،مفلس وقلاش آدمی۔ اس شخص نے پھر وہ انگوٹھی دکھائی،اب جودربان نے دیکھا تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، یہ بادشاہ کی مہر لگانے والی انگوٹھی آپ کے پاس؟
بادشاہ کا حکم تھا کہ یہ انگوٹھی جولے کر آئے گا ہم جس حالت میں ہو اسے ہمارے پاس پہنچادیا جائے،چنانچہ دربان اسے ساتھ لے کر بادشاہ کے خاص کمرے تک گیا،دروازہ کھلا ہوا تھا، اندر داخل ہوئے، اب یہ جو شخص وہاں چل کر آیا تھا،اس کی نظر پڑی کہ بادشاہ نماز میں مشغول ہے،پھر اس نے دعا کے لئے اپنے ہاتھ اٹھائے،اس غریب کی نظر پڑی تو وہ وہیں سے واپس ہوگیا اور محل کے باہر جانے لگا،
دربان نے کہا مل تو لو،کہا اب نہیں ملنا ہے،کام ہوگیا۔ اب واپس جاناہے،تھوڑی دور ہی چلا تھا کہ بادشاہ نماز و دعا سے فارغ ہوگیا
دربان نے کہاایسا ایسا آدمی آیا تھا یہاں تک آیا پھر واپس جانے لگا
بادشاہ نے کہا فوراًلے کر آو وہ ہمارا محسن ہے،
اس غریب کو واپس لایا گیا، بادشاہ نے کہا آئے ہو تو ملے ہوتے،ایسے کیسے چلے گئے؟
اس غریب نے کہا کہ بادشاہ سلامت!اصل بات یہ ہے کہ آپ نے کہا تھا کہ کوئی ضرورت پیش آئے تو آجانا ہم ضرورت پوری کردیں گے۔مجھے ضرورت پیش آئی تھی میں آیا اور آکر دیکھا کہ آپ بھی کسی سے مانگ رہے ہیں،تو میرے دل میں خیال آیا کہ بادشاہ جس سے مانگ رہا ہے کیوں نہ میں بھی اسی سے مانگ لوں۔
آج بھی کہانی یہی ہے کہ امت مسلمہ کے تین ارب عوام کے چند حکمران دنیا کے چالیس فیصد قدرتی وسائل کے باوجود اغیار سے بھیک مانگتے پھر رہے ہیں. وہ جن کی اپنی زندگی شراب سے شروع ہو کر عذاب پر ختم ہو رہی ہے جنہیں دنیا میں آخرت سے بھی بدتر عذاب کا سامنا ہے ہمارے حکمران بار بار ان سے جھولی اور کشکول بڑھا کر اقتدار کے چند کھوٹے سکے لے کر تکریم و اطمینان محسوس کرتے ہیں جبکہ یہسچ بارہا ثابت ہو چکا ہے کہ یہود و ہنود ہمارے دوست نہیں ہوسکتے پھر بھی ہم عارضی اور جھوٹے اقتدار کی خاطر ہمیشہ ان کے دروں پر سرنگوں رہتے ہیں جبکہ پوری کائنات میں ایک ہی در ہے جو ہمیشہ کھلا رہتاہے کہ آؤ مانگنے والومجھ سے لے لو جو تمھیں دنیا وا ٓخرت میں مقصود ہے. کاش ہم اس سادہ سی کہانی کا عنوان اور متن خود ہی بن جائیں.
bhatticolumnist99@gmail.com