جی وہ خود کئی روز تک نہ آئیں ۔ ۔ تو ان کی فون کال ضرور آجاتی ہے کیونکہ ایک دوست کے ساتھ رابطے میں رہنا اور ہمیشہ سب کے دکھ سکھ میں شریک ہونا مظہر حسین یاسر کی گھٹی میں شامل ہے در اصل اس طرح کے خوربصورت رویے دل میں احساس کی علامت ہوتے ہیں ۔ احساس زندہ ہو تو انسان کو کبھی موت نہیں آتی کیونکہ انسان کا یہ احسان کردار بن کر ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور مظہر یاسر نے اپنے اس احسان کو اپنی کتاب ’’ پکھیاں کوں ناں مارو ‘‘ میں یکجا کرکے نہ صرف ہمیشہ کیلئے امر کردیا ۔ بلکہ معاشرے میں ایک منفرد اور لازوال سوچ کو پروان چڑھانے کی کوشش کی ہے
کیونکہ ٹیکنالوجی کے اس دور میں انسان کچھ اس طرح مصروف ہورہے ہیں کہ اس کے پاس اپنے لئے بھی وقت نہیں تو ایسے میں وہ دوسرے لوگوں کو کیا وقت دے سکتا ہے اور پھر جہاں ایسی نفسانفسی ہو وہاں معصوم پرندوں کی طرف کس کا دھیان جاکستا ہے ہماری اسی عدم توجہی ، موسمی تبدیلیوں اور ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہماری فضائیں پرندوں سے خالی اور مظاہر فطرت سے محروم ہیں ہوچکی ہیں مظہر حسین یاسر اس کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں
اے کوکو ، چوں چراں ، کاں کاں علامت زندگی دے اے
ناں کرو ساری دھرتی بے صدا پکھیاں کوں نہ مارو
مظہر حسین یاسر نے سرائیکی زبان کی اپنی اس خوبصورت کتاب میں پرندوں کا ذکر محض علامتی طور پر نہیں کیا بلکہ مزاحمتی طور پر بھی پرندوں کی بات کی ۔ جہاں وہ پرندوں کو بچانے کی بات کرتے ہیں وہاں دھرتی کے دکھوں کو بھی ساتھ لے کر چلتے ہیں ۔
کتھاہوں پکھیاں دے پلکار ہنٹر سنیڑیندے نئیں
اے یارو کیجھیاں سماں ہے کوئی ڈسا سگدے
اور پھر جب کہیں پرندوں کی اڑان دیکھتے ہیں تو خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور حوصلہ دیتے ہوئے پکاراٹھتے ہیں ۔
ہن پکھیاں دے پلکار توں لگدا اے جوتھیسی
آباد ایہو پیار دا تھل شام تو پہلے
وسیب کے دل تھل کے پسماندہ ضلع لیہ سے تعلق رکھنے والے مظہر حسین یاسر بھلا تھل کو کیسے نظر انداز کرسکتے تھے کیونکہ ملک کے پسماندہ ترین علاقوں کی بات کی جاتی ہے تو سرائیکی وسیب ذہن میں آتا ہے مگر جب سرائیکی وسیب کے پسماندہ ترین خطے کی بات ہو تو دھیان فوراً تھل کی طرف چلا جاتا ہے کیونکہ تھل ایک ایسا خطہ ہے جو ہمیشہ سے اپنوں اور غیروں کی بے اعتنائی کا شکار چلا آرہا ہے آج بھی تھل سے جنم لینے والے ادب میں بھوک ، افلاس ، غریب ، محرومیوں اور بے بسی نمایاں نظر آتی ہے مظہر یاسر نے تھل کے اس دکھ کو ایک نئے کرب کے ساتھ پیش کیا ہے ۔
خبر نی کیوں ہوا دی ہیل دردیلی نظردی ہے
مزاج دلبربا دے وچ وی تبدیلی نظر دی ہے
ونجوں کول یاسر دے تریہہ دے وین آندے ہن
پرے کولوں تا ں تھل دی ریت برفیلی نظر دی ہے
تھل کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں اور دھوکوں کو سامنے رکھا جائے تو اس کی ذمہ دار مقامی قیادت ہے جس نے آج تک تھل کی آواز اٹھانے کی زحمت ہی نہیں کی اور ہمیشہ تھلوچڑوں کے ساتھ جھوٹے وعدے کئے اس پر مظہر یاسر تھل کی آواز بن کر کہتے ہیں کہ
ہزار قسماں ہزار وعدے کرے اوساکوں یقین کوئی نئیں
اساڈی دھرتی دا ہر نمانٹراں نہال تھیسی تاں گالھ تھیسی
مظہر حسین یاسر نے اپنی کتاب ’’ پکھیاں کوں ناں مارو‘‘ کا انتساب شہدائے آرمی پبلک اسکول کے معصوم بچوں کے نام کیا ہے اور ان معصوم بچوں کو ان معصوم پرندوں سے تشبیہ دی ہے جنہیں بے رحم شکاری اپنی ہوس اور درندگی کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں آرمی پبلک اسکول کے معصوم شہیدوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں
انہاں دیاں باکمال ماواں دے کھیر دا اے اثر تاں ڈیکھو
جو نندر پئی ہوئی اے قوم ساری جگا گئے ہن شہید بچے
اس کتاب میں معاشی عدم مساوات ،سماجی تفریق ، حقوق کی پامالی ، غیر ذمہ داران ریوں اور ظلم ، جبر ، نا انصافی اور استحصال کے خلاف مظہر حسین یاسر نے اپنے قلم کا حق ادا کیا ہے
ناں ملی اجرت دیہاڑے عید دے مزدور کوں
پیو دے کھیسے دو نمانٹراں بال ڈیہدہ رہ گیا
اور جب نظام انصاف کی نا انصافی دیکھتے ہیں تو پکار اٹھتے ہیں ۔
اجنٹر مقتول دے وارث مکانٹراں پئے جھلیندے ہن
ڈیکھو انصاف دی حد ہے اوندا قاتل رہا تھی گئے
محرومیوں ، مسائل ، تفریق ، نا انصافی اور سماجی رویوں پر جگہ جگہ کڑھنے اور اس دھرتی اور پرندوں کو بچانے والا مظہر یاسر انسانیت کو کیسے فراموش کرسکتا ہے کیونکہ انسان اور انسانیت اس کا ہمیشہ پسندیدہ موضوع رہا
ہے وہ انسان کو انسان سے بچانے اور انسان کی بات کرنے کی بات کرتا ہے ۔ وہ دنیا بھر کی بات کرنے سے پہلے اپنے اردگرد کی دنیا کو سامنے رکھتا ہے جہاں بہت سوں کی دنیا انسانوں کے غیر انسانی رویوں کی بھینٹ جڑھ جاتی ہے
سوچو یارو پیار ونڈانٹرا لازم ہے
آدمی کوں انسان بناونٹر لازم ہے
ساڈے سکھ تے ڈکھ سارے سانجھے ہن
ہر کوں ایہا گالھ ڈساونٹر لازم ہے
بدامنی تے نفرت دے ہر زہر کنوں
نسلاں کوں ہر حال بچاونٹر لازم ہے
اپنے آپ توں باہر نکل کے سوچا کر
دکھیاں دے دکھ درد ونڈاونٹر لازم ہے
پکھیاں کوں ناں مارو کی صدا لگانے والے مظہر حسین یاسر کی یہ کاوش سرائیکی ادب میں ایک خوبصورت اضافہ ہے یہ کتاب قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک ایک شعر اس دھرتی کے طبقات کی ترجمانی کررہا ہے ہر شخص کو اپنا آپ دکھائی دیتا ہے ۔ اس خوبصورت کتاب پر مظہر حسین یاسر کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے امید کرتے ہیں کہ آئندہ بھی اسی دھرتی کی آواز بن کر اپنا قلمی کردار اداکرتے رہیں گے ۔
لوگ بس محترم اوہا ہوندن
سوچ اپنٹری جو بد نہیں رکھدے