;استاد;جو کند ذہنوں کو شعور فراہم کرتا ہے اور زندگی کو نئے رنگ اور نئی امید کے ساتھ جینے بارے ایسے اصولوں کا تعین کرتا ہے جس سے ہماری نئی نسل مستفید ہو کر سائنس دان، ڈاکٹر، انجینئر، صحافی، تاجر اور ایسے کئی نامور لوگ پیدا ہوتے ہیں جو ہمارے سماج کو درست سمت میں لانے میں معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔
مگر ہمارا بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے سماج میں استاد کو وہ قدر ومنزلت نھیں دی جاتی جس کا ایک استاد مستحق ہوتا ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم چھوٹے چھوٹے مفادات کے چکر میں اساتذہ کی کردار کشی سمیت ہر وہ ہتھکنڈہ استعمال کرتے ہیں جس سے ایک استاد کی بنیادی ساکھ متاثر ہوتی یے ۔
چوہدری مظفر حسین جو کہ نہایت ملنسار شفیق استاد اور اچھے انسان ہیں ان کی مسلسل کردار کشی کی جارہی ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔ ان کے بارے ایک تو یہ غلط تاثر ہے کہ راءٹ وے اکیڈمی ان کی ذاتی اکیڈمی ہے حالاں کہ حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں راءٹ وے کاچوہدری مظفر حسین سے کوئی تعلق نھیں اور نہ ہی ان کے نام سے کوئی ایسی اکیڈمی کاغذات میں رجسٹرڈ ہے جبکہ ان کے حوالے سے ایک اور خبر بھی آج کل گردش کر رہی ہے کہ انھوں نے کسی ملازم سے پیسے لیے اور اس کو نوکری دی حالانکہ 17 اے کے تحت کوئی بھی ملازم اگر مر جائے یا بیماری کی صورت میں ریٹائر منٹ لے لے تو اس کے بچوں کو اس کی جگہ فرجہ چہارم میں ملازمت مل جاتی ہے چوہدری مظفر حسین نے بھی کسی سے بھی نوکری کی مد میں پیسے نھیں لیے بلکہ میرٹ پر ملازمت دی اس بارے ان کے خلاف منفی پراپیگنڈہ پھیلایا گیا جو کہ قابل مذمت ہے ۔
کچھ لوگ بلاشبہ ایک ادارہ ہوتے ہیں چوہدری مظفر حسین بھی انھی میں سے ایک ہیں ان کی ضلع لیہ میں تعلیم کے حوالے سے خدمات نہایت قابل قدر ہیں ایسی شخصیات کی کردار کشی کرنا کسی طور بھی درست نھیں ۔ پروپیگنڈا کرنے والے یہ بھول گئے کی شعورو آگہی کبھی بھی کسی رکاوٹ کو برادشت نھیں کرتی بلکہ وہ اپنا سفر جاری رکھتا ہے ۔
پاکستان میں دم توڑتی تہذیبی روایات کو پیش نظر رکھا جائے تو پھر پوری سوساءٹی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ چراغ جو بڑھتی ہوئے تاریکی میں اپنے حصے کی روشنی پھیلا رہے ہیں بے حد قابل قدر ہیں ۔ ہمارا معاشرتی بگاڑ انتہاؤں کا چھو رہا ہے ۔ ہرروز ایک نئی خبر ہمارے یقین و اعتماد کو متزلزل کر رہی ہے ۔ ہر آنے والا دن کئی نئے اندوہناک واقعہ کی خبر لے کر آرہا ہے ۔ ہر فرد لمحہ بہ لمحہ امید کا دامن ہاتھ سے چھوڑ رہا ہے اور مایوسیوں اور داسیوں اور تاریکیوں کی دلدل میں اترتا جا رہا ہے ۔ ایسے عالم میں بقول احسان دانش
یہ غنیمت ہے سسکتے ہیں یہاں چند چراغ
بند ہوتے ہوئے بازار سے کیا چاہتے ہو
کیا ہم اپنے حصے کی شمع روشن نہ کریں ۔ کیا ہم معاشرے کو امید کی کرنوں سے منور نہ کریں ،کیا ہماری یہ ذمہ داری نہیں کہ ہم اقدار و روایات کو دم توڑنے سے بچائیں ۔ آج جہاں عوام کو ہر طرف سے،ہر ادارے کی طرف سے،امید افزا خبریں کم ہی ملتی ہیں وہاں ہم ایسے افراد اور اداروں کے خلاف بھی صف آرا ہو جائیں جو علم و یقین،اعلیٰ روایات،فکرودانش اور اعتدال پسندی کی شمع روشن کر رہے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کی بجائے ہم پھونکوں سے ان چراغوں کو بجھانے پر تل جائیں ۔ خدارا اپنے گریبانوں میں جھانکئے اور سوچئے کہ ہم کیا کردار ادا کرنے جا رہے ہیں ۔ محبت کا یا نفرت کا،روشنی کا یا تاریکی کا;238;ہم کس کے ساتھ ہیں ;238;اگر آج بڑھتی ہوئی تاریکی کے بالمقابل سسکتے چراغوں کا ساتھ نہ دیا گیا اور انھیں اپنی کم عقلی،کم فہمی اور بدنیتی سے بجھانے کی کوشش کی گئی تو یہ پورے معاشرے کا المیہ ہو گا ۔ یہ کسی ایک فرد یا ادارے کا نہیں ۔ میں اس ظلمت شب میں ایک چراغ روشن کررہا ہوں ۔ اس معاشرے کی عظیم روایات کی بحالی کے لیے میدان میں آیا ہوں ۔
مسئلہ کسی فرد کا نہیں کسی ادارے کا نہیں ۔ مسئلہ اس معاشرے کے شاندار ماضی کا ہے ۔ ہمارا مطمع نظر وقتی مفاد نہیں اس سوساءٹی کا دائمی مفاد ہے وگرنہ آنے والی نسلیں ہ میں معاف نہیں کریں گی ۔