بستی پر ڈاکوؤں نے حملہ کردیا ہے بھاگو ۔گوریا چلاتے ہوئے اعلان کر رہا تھا ۔ شور برپا ہو گیا سب کو جان کے لالے پڑ گئے ۔گرتا پڑتا جس سے جو بن پڑ اپنا مال اسباب اور متاع جاں بچانے کی خاطر دوڑ پڑا ۔روز حشر کا سا عالم تھا ۔للکارتے ہوئے ڈھاٹے باندھے ڈاکو سر پر آن پہنچے ۔بستی والوں کے پاس دفاع کے لیے ہتھیار کے نام پر کلہاڑیاں اور ڈنڈے تھے جو ڈاکوؤں کی بندوقوں کے آگے کھلونے تھے سو سب اپنی جان بچا کر بھاگ رہے تھے۔اس افراتفری کے عالم میں اللہ بخش مرحوم کی بیوی درد زہ سے تڑپ رہی تھی۔دائی بھاگی اس کے پاس تھی ۔ مگر اس کی حالت وقت گزرنے کے ساتھ خراب ہوتی جا رہی تھی ِادھر بچی نے جنم لیا تو ُادھر فاطمہ کا دم اکھڑ گیا ۔اماں اس نے ٹوٹتی سانسوں سے مائی بھاگی کو پکارا ۔میرا وقت آگیا اماں مم میر۔ی بیٹی رب سائیں کے بعد تمہارے ذمے ہے ۔ آہ ایک ہچکی کے ساتھ اس کی گردن ایک طرف ڈھلک گئی ۔
ڈاکوؤں نے بستی کو آگ لگا دی تھی ہر طرف چیخ و پکار مچ گئی ۔مائی بھاگی نے اعلان سنا اور شور کی آوازوں سے گھبرا گئی ۔وہ اب کیا کرے ایک طرف فاطمہ کا مردہ وجود اور ایک طرف اس کی آغوش میں پرانی چادر میں لپٹی وہ ننھی سی جان ۔جس کی ماں اسے جنم دیتے گذر گئی اور باپ دو ماہ قبل سانپ کے ڈسنے سے چل بسا تھا ۔مائی بھاگی نے حواس قابو کیے اور بچی گود میں لیکر باہر بھاگی ۔ہر طرف دھویں کے کالے بادل اٹھ رہے تھے ڈاکو قہقہے لگاتے مال کے ساتھ نوجوان لڑکیوں کو بھی اچک رہے تھے ۔مائی بھاگی جنگل کی سمت دوڑی ۔اس وقت گھنے جنگل سے محفوظ پناہ گاہ کوئی نہ تھی ۔اونچے نیچے راستوں پر کانٹوں اور جھاڑیوں سے الجھتی وہ تیز قدموں سے چلتی جارہی تھی ۔اچانک اس کا پاؤں رپٹا اور وہ توازن کھو کر ڈھلوان پر لڑھکتی چلی گئی ۔بچی اس کے ہاتھوں سے چھوٹ کر نہ جانے کہاں گر گئی ۔