اچا نک سو تے ہو ئے خلو میاں بے چین ہو گئے اور انہوں نے سو تے میں پہلے اپنی ناک سکیڑی اور پھر دائیں با ئیں سر ہلاتے ہو ئے ایک ہاتھ سے اپنی ناک کو زورزور سے رگڑنا شروع کر دیا دیکھتے دیکھتے ہی ان کا سرانکار کے زاویہ پر ہلنے لگا اور ان کی درمیانی انگلی ناک کے دونوں سوراخوں میں باری باری تیزتیز خارش کر نے لگی ۔۔ لمحہ لمحہ ان کا ناک پھیلتا ، سکڑتا اور چہرہ بگڑ تا جا رہا تھا ۔مجھے لگا کہ جیسے خلو کی ناک میں کھجلی ہو رہی ہے اور وہ آ نے والی چھینک کو روکنے کی کو شش میں لگا ہو ۔۔۔ اور پھر میرا وہ اندازہ درست ثا بت ہوا اچا نک خلو میاں نے ایک زور دار چھینک ماری اور ہڑ بڑا کے او ٹھ بیٹھے ۔۔
کیا مذاق ہے ؟ یہ تو کوئی طریقہ نہیں بندے کو جگانے کا ۔۔خشمگیں نظروں سے دیکھتے قمیض کے دامن سے چھینک صاف کرتے ہو ئے خلو میاں نے مجھے جھاڑ پلائی
میں نے توتمہیں نہیں جگا یا ۔۔ میں نے ان کی حالت سے محظوظ ہو تے ہو ئے جواب دیا
تو پھر میری ناک میں تنکا تمہارا باپ ڈال رہا تھا ۔۔ خلو آ پے سے با ہر ہو تے تقریبا چنگھارتے ہو ئے بولا
باپ کی تکرار سے میرا دھیان نیلا بابا کی طرف چلا گیا ۔۔ ہاں یار ہو سکتا ہے ابا جی کی روح نے تمہارے ساتھ مذاق کیا ہو ۔۔میں نے چڑانے کے سے انداز میں خلو کو جواب دیا ۔۔
اباجی مرحوم کی روح کے ذکر پر خلو نے مجھے عجیب سی نظروں سے دیکھا ۔۔ ہو سکتا ہے ۔۔ وہ زیر لب بڑبڑایا
کیا ہو سکتا ہے ۔۔ میں نے پو چھا
کچھ نہیں ۔۔۔کہتے ہو ئے خلو میاں اٹھے اور خدا حافظ کہے بغیرکمرے سے با ہرنکل گئے
خلو کے جا نے کے بعد میں نے سو چا کہ کیوں نہ کمپیوٹر ٹیبل کو ہی صاف کر لیا جائے اور میں نے کمپیوٹر ٹیبل کی جھاڑ پو نچھ شروع کردی گذ شتہ کئی دنوں سے زندگی بڑی ابنارمل سی ہو گئی تھی بظا ہر مجھے کچھ بھی نہیں تھا لیکن ذہنی تھکاوٹ نے مجھے خا صا ڈسٹرب کیا ہوا تھا ۔ میز پر رکھے کمپیوٹر اخبار ،کتا بوں اور رسالوں پر خاصی مٹی جمع ہو چکی تھی یہاں یہ بات واضع کرتا چلوں کہ گھر میں کسی کو اجازت نہیں کہ وہ میری اس میزکی صفا ئی کریں چو نکہ میں اس میز پر لکھنے پڑھنے کا کام کر تا ہوں اسی لئے اس میز اور اس کے ساتھ پڑی ایک کرسی پر اخبارات ، میگزین اور کا غذوں کا ایک بے تر تیب انبار ہر وقت مو جود رہتا ہے ماضی میں کئی بار ایسا ہوا کہ بیگم صا حبہ نے کمرے کی صفائی کرتے بڑی محبت اور نفاست سے کا غذوں کے ان بے تر تیب انبار کو تر تیب دینے کی کو شش کرتیں اور بار ہا ایسا ہوا کہ انہوں نے بہت سے مڑے تڑے ایسے کا غذوں کو ردی کی ٹو کری کی ڈال دیا جو ان کے نزدیک تو فضول اور ردی تھے لیکن ۔۔ ظا ہر ہے کہ بیگم صاحبہ کے اس انداز محبت سے مجھے خا صی پر یشا نی ہوتی سو کئی بار میرے بلند آواز بھر پور احتجاج کے بعد گھر والوں نے یہ فیصلہ کیا کہ گھر کے سبھی کو نے کھد روں کی صفائی ہو گی مگر کوئی اس میز کے قریب بھی نہیں جائے گا ۔۔ سو اب راوی چین ہی چین لکھتا ہے اور میں بقلم خود اپنی کر سی میز کی صفائی خود کرتا ہوں ۔۔۔
صفائی کرتے ہو ئے بھی نیلا بابا میرے ذہن پر سوار رہا ، کہہ سکتے ہیں کہ میں نے کئی بار سوچوں میں اسے پکارا مگر خواہش کے باوجود اس کی کوئی جوابی سر گوشی سنائی نہیں دی ۔
میز کی صفائی ستھرائی کر نے کے بعدمیں نے سو چا کیوں نہ کمیپیوٹر آن کر کے دیکھوں ہو سکتا ہے نیلا بابا کا آئی کان وہاں مو جود ہو ۔۔ لیکن شو مئی قسمت آن کمپیوٹر کی سکرین بھی صاف اور پر امن تھی نیلا با با وہاں بھی مو جود نہیں تھا ۔
کیا مسئلہ ہے یار ۔۔کہاں مر گیا ہے یہ نیلا بابا ۔۔ میں نے سو چتے ہو ئے ما یوس ہو کر کمپیوٹر آف کیا سائیڈ رکھی کرسی پر پڑے ایک پرانے اخبار کو اٹھا یا اور اس کے ادارتی صفحہ میں شا ئع ہو نے والے کالم اور مضامین دیکھنے لگا ، سچی بات جب سے الیکٹرانک اور خاص طور پر تیز رفتار سو شل میڈ یا نے زور پکڑا ہے تب سے خبر کے میدان میں تو پرنٹ میڈیا بہت پیچھے رہ گیا ہے اب چو بیس گھنٹوں کے بعد جب ایک خبر اخبار کی زینت بنتی ہے اس وقت تک الیکٹرانک میڈ یا اور سو شل میڈیا اس خبر کے بیسیوں فا لو اپ اپنے قارئین اور نا ظرین تک پہنچاچکا ہو تا ہے سو خبر میں تو قارئین کی دلچسپی نہ ہو نے کے برابر ہو تی ہے لیکن اخبارات میں شا ئع ہو نے والی علاقائی خبریں ، سیر حاصل کالم ، مضا مین اور تحقیقاتی رپورٹیں بہر حال قارئین کا تعلق اخبار سے جوڑے ہو ئے ہیں مجھے بھی جب مو قع ملتا ہے میں بھی اخبار کے ادارتی صفحہ سے استفادہ حا صل کر نے کی کو شش کرتا ہوں ۔
اخبار کی ورق گردانی کرتے ہو ئے میری نظر آ خری صفحہ پر چھپے بیک پینل اشتہارات پر پڑی ان اشتہارات میں کسی بنگالی باباکا اشتہار بھی تھا ۔ اس اشتہار میں بنگالی با با نے تسخیر ہم زاد کا دعوی کرتے ہو ئے نا ممکن کو ممکن بنانے اور آ سمان سے تارے توڑ کر لا نے کے سبز باغ دکھائے تھے ۔ تسخیر ہم زادکے اس اشتہار سے میرا ذہن ایک بار پھر با با نیلا پہ جا اٹکا ۔۔ کمپیوٹر سکرین پر ملنے والے انیمیٹیڈ کا رٹون نما نیلا با با بھی میرا ہم زاد ہو نے کا دعوے دار تھا ۔ لیکن سچی بات اس کا یہ دعوے مجھے ابھی ہضم نہیں ہو رہا تھا اسی لئے میں اس سے ملنے اور اس سے کچھ سوالات کرنا چا ہتا تھا ۔بعض روایات کے مطا بق انسان جب جنم لیتا ہے اس کی پیدا ئش کے ساتھ ہی ایک جن بھی پیدا ہو تا ہے کہتے ہیں کہ یہ جن کا فر ہو تا ہے بعض روایات میں اسے شیطان بھی کہا گیا ہے اور بعض روایات میں اسے روح بھی بتایا گیا ہے اس لئے میں جاننا چا ہتا تھا کہ نیلا بابا کیا ہے ؟ میرے لئے یہ ایک اہم سوال تھا کہ اگر ہم زاد جن ہو تا ہے اور وہ کا فر ہوتا ہے تو نیلا با با توکا فر نہیں لگتا،مجھے یاد ہے کہ جب میں ہسپتال میں ایڈ مٹ تھا تو نیلا بابا یہ کہہ کر غائب ہو گیا تھا کہ نماز کا وقت ہو رہا ہے تم بھی نماز پڑھو میں بھی نماز پڑھ آ ؤں ۔ اگر نیلا بابا کا فر ہو تا تو وہ یہ سب کچھ کیوں کہتا ، نماز کی بات کیوں کرتا ؟ میں یہ بھی جا ننا چا ہتا تھا کہ نیلا با با کی کتنی عمر ہے اور سب سے زیادہ مجھے یہ جاننے میں دلچسپی تھی کہ نیلا با با کس حد تک میرا تا بعدار اور فرما نبردار ہے ؟ کیا میں بھی اس کے ذریعے دشمنوں کو بلیک میل کر سکتا ہوں ، جادو ٹونے کا توڑ کر سکتا ہوں ، منٹوں میں محبوب کو قد موں میں گرا سکتا ہوں ، پرا ئز بانڈ کی قر عہ اندازی میں انعامی بانڈ لکی نمبر بتاسکتا ہوں،کروڑ پتی بن سکتا ہوں کروڑ پتی بنا سکتا ہوں ۔ اگر یہ سب ممکن ہے تو مجھے ایسا تیس مار خان بننے کے لئے کیا کرنا ہو گا ؟ کتنے چلے کا ٹنے ہوں گے ، کونسے وظا ئف پڑھنے ہوں گے اور ان عملیات کا کتنا دورانیہ ہو گا ؟ عمل کرنے کی زکواۃ کیا ہو گی اور پرہیز کیا کرنا ہو گا ؟ اور اگر عمل جلالی ہو گا تو بچنے کی تدا بیر کیا ہوں گی ؟
اپنی مرضی سے آ مدورفت کے شیڈول سے یہ تو میں بھی جان گیا تھا کہ نیلا با با اپنی مرضی کا مالک ہے میرا کو ئی پا بند نہیں اور نہ ہی میں نے عامل کی حیثیت سے کو ئی چلہ وغیرہ کاٹ کے نیلے با بے کو تسخیر کیا ہے ۔۔ نیلا با با اپنی مرضی کا ہے جب چا ہے گا آ ئے گا جب نہیں چا ہے گا نہیں آ ئے گا ۔ جوچا ہے گا کرے گا جو نہیں چا ہے گا کرے گا نہیں کرے گا ۔۔ اسی لئے میں چا ہتا تھا کہ ممکن ہو تو اس سے اپنی لمٹ پو چھ لوں ۔ یہ سب سو چتے سوچتے یاد آ یا کہ نیلے با با نے کہا تھا کہ میں بچپن میں دیکھے گئے اس ریت کے ٹیلوں والے خواب کو یاد کروں جس کا ذکر میں اماں مرحومہ سمیت بہت سے لو گوں سے کر چکا ہوں ۔ بقول اس کے اگر وہ خواب یاد آ گیا تو کئی سوالوں کے جواب مجھے مل جا ئیں گے ۔۔
یارو ، بچپن میں دیکھا گیا وہ خواب بھی بڑا عجیب تھا زندگی کی پون صدی بیت گئی عمر کے پہلے عشرے میں دیکھا گیا وہ خواب مجھے آج بھی بڑی صراحت کے ساتھ مجھے یاد ہے یہ اس زما نے کی بات ہے جب اماں زندہ تھیں اور میں سکول کی ابتدائی کلا سوں کا طا لب علم تھا ۔جاڑے کی راتوں میں اماں اپنے لحاف میں مجھے اپنے سا تھ بٹھا کے پہلے سبق اور پھر تیسویں پارے کی آ خری سورتیں سنا کرتی تھیں عمو ما ایسے ہو تا کہ میں اماں کو سورتیں سنا سناتے سو جا تا اس رات بھی ایسا ہی ہوا غضب کی سردی تھی اورمیں اماں کے لحاف میں دبکے سبق سناتے سناتے سو گیا ۔یہ خواب اسی رات کا خواب ہے جو میں آپ کو سنانے چلا ہوں ۔ ۔۔ خواب میں میں نے دیکھا کہ شا ید رات کا پچھلا پہر ہے اور میں سٹیشن کے قریب بڑے سے ریت کے تین ٹیلوں میں سے شمالی سا ئیڈ والے ایک ٹیلے کے اوپر تنہا کھڑا ہوں ۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ میرا چہرہ جنوب کی جا نب تھا، اچا نک میری نظر نیچے پڑی توکیا دیکھتا ہوں کہ ٹیلوں کے درمیان چھوٹی چھوٹی کنکریوں والا یہ پتھریلا میدان گند گی کے سفید سفید کیڑوں سے اٹا پڑا ہے سارے میدان میں سفید رنگ کے بے شمارحشرات الارض کلبلا رہے ہیں اور ان کلبلاتے سفید حشرات الارض کے درمیان بہت سے بونے قد کے انسان نمالڑکھ رہے ہیں تصویر واضع ہو ئی تھی تو دیکھا کہ یہ لڑھکتے ہو ئے قلا بازی کھا تے یہ بونے کپڑوں سے بے نیاز در اصل دو جسم ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ بغلگیر ہو کر شمال سے جنوب کی جانب جا رہے ہیں اچا نک مجھے بہت ڈر لگنے لگا میری ریڑھ کی ہڈی میں سرد سی لہر دوڑ گئی انجانے خوف سے میرا دل ڈوب رہا تھا تبھی ایسا لگا جیسے میرے بہت ہی قریب بائیں جانب کو ئی ہیو لہ سا آ کھڑا ہوا اور چند لمحوں کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک احساس سا میرے جسم سے نکلا اور ساتھ کھڑے ہیولے سے بغلگیر ہو گیا اور پھر ان دو نوں نے اکٹھے گندگی کے حشرات الارض سے اٹے اس پتھریلے میدان میں چھلانگ لگا دی ۔۔باقی اگلی قسط میں
ضرور پڑھیں ۔ بات بتنگڑ قسط 9
ضروری وضاحت ۔۔
قارئین کرام ! بات بتنگڑ ایک کہانی ہے ، بیان کئے گئے واقعات کا حقیقت سے کو ئی تعلق نہیں ،اس کے تمام کردار ، نام اور مقام فرضی ہیں ، مما ثلت اتفاقی ہو گی ۔ ادارہ