جنر ل الیکشن ہوگئے ، یہ جو ڈھنڈورا پیٹا جارہاتھاکہ الیکشن نہیں ہونگے ،وہ دعوی بھی ریت کی دیوار ثابت ہواہے۔ تحریک انصاف اکثریت لیکر حکومت بنانے کی طرف بڑھ گئی ہے ۔عمران خان نے اکثریتی پارٹی کے سربراہ کی حیثیت قوم سے خطاب کرلیاہے ،تقریر کو حوصلہ افزاء قراردیاجارہاہے اور ساتھ امیدکیجارہی ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ان وعدوں کا وزیراعظم ہاوس آکر پاس بھی رکھیں گے۔وفاق میں تو طے ہوچکاہے کہ تحریک انصاف ہی حکومت بنائیگی لیکن پنجاب میں نوازلیگ جوکہ دوچار سیٹوں کیساتھ آگے تھی ۔اس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے تحریک انصاف کی قیادت نے پنجاب میں بھی حکومت بنانے کا اعلان کردیاہے۔ یوں پنجاب میں اکثرت کویقینی بنانے کیلئے جہانگیر ترین اور علیم خان کو ٹاسک دیاگیاہے ۔جس کے بعد دونوں نے منتخب آزاد امیدواروں کی تلاش کیلئے ایک پھیرا بھی پنجاب کا لگالیاہے ،جس کے نتیجہ میں جہانگیر ترین اور علیم خان کو سرائیکی دھرتی خاص طور تھل کے علاقہ میں چار آزاد منتخب امیدوار مل گئے ہیں لیکن جلدی میں جہانگیر ترین لیہ کے ایک منتخب آزاد امیدوار کی بجائے اس کے بھائی بشارت رندھاوا کو جہاز میں ڈال کر لے آئے ہیں ،مناسب ہوتاکہ حقیقی منتخب آزاد امیدوار رندھاوا کو جہازکی سیر کرواتے ہوئے لے آتے اور اس کو تحریک انصاف جوائن کروائی جاتی۔اس صورتحال کے باوجود توقع کی جاسکتی ہے کہ مستقبل قریب میں منتخب رندھاوا بھی بنی گالہ کی زیارت کریگا اور عمران خان کیساتھ کھڑے ہوکر پارٹی پرچم گلے میں پہنے گا ۔ادھر جتنا شدت کیساتھ تحریک انصاف کے کیمپ میں کامیابی کا جشن چل رہاہے ،وہاں پر اتنا ہی نوازلیگی قیادت جنرل الیکشن میں دھاندلی کا واویلاکررہی ہے لیکن دلچسپ صورتحال یوں ہے کہ دھاندلی ماتم کے باوجود حمزہ شہبازشریف کو حکومت سازی کا ٹاسک بھی دے چکی ہے لیکن سمجھداروں کا خیال ہے کہ اس بار کا الیکشن نتیجہ اور زمینی حقائق اس بات کی چغلی کررہے ہیں کہ نواز لیگی ارکان اسمبلی کو مکمل پروٹوکول کیساتھ اپوزیشن کرنے پڑے گی ،پنجاب میں آزاد امیدواروں کی موجودگی کے باوجود بھی نوازلیگی حکومت کا کوئی چانس نہیں ہے کہ نوازلیگی لیڈرشپ حکومت بناپائے گی مطلب وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایاکرتاتھا۔پنجاب میں تحریک انصاف اور نوازلیگی قیادت کے ٹکراؤ میں اس بات کی شنید بھی ہے کہ نوازلیگی منتخب امیدواروں میں ایک فاروڈ بلاک بھی تشکیل پارہاہے۔ان میں اکثریت انکی ہے جن کا اپوزیشن میں دم گھٹتاہے۔پنجاب میں ایسا ہوتا بھی رہاہے ،یوں اس بات کو خارج از امکان نہیں قراردیاجاسکتاہے کہ اس بار یہ کاروائی نہیں ہوگی ۔لیگی اور تحریکی جماعتوں میں ٹکراؤ کی صورتحال میں پنجاب کی سیاست میں چوہدری پرویز الہی متحرک ہوگئے ہیں ،ان کے پاس سیٹیں تو اتنی نہیں ہیں جتنی کہ تحریک انصاف اور نوازلیگ کے پاس ہیں لیکن پنجاب میں دوبڑی جماعتوں کے ٹاکرے میں آزاد امیدواروں اورمسلم لیگ (ق )،پیپلزپارٹی اور دیگر چھوٹی جماعتوں کی اہمیت حکومت بنانے میں بڑھ گئی ہے۔ اس نازک صورتحال میں چوہدری برادران اس بات کی گنجائش پیداکرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ تحریک انصاف کی اکثریت کے باجود پنجاب کی پگ حاصل کرلیں جوکہ فی الحال تو ایک دیوانے کا خواب یوں لگ رہاہے کہ دواکثریتی پارٹیوں کے امیدوار ڈیسک بجاتے رہیں اور چوہدری دوچار سیٹوں کیساتھ پنجاب پر قبضہ جمائے اقتدار انجوائے کریں ۔ تحریک انصاف کی اکثریت کیساتھ چوہدری پرویز الہی کے وزیراعلی ہونے کے معاملے پر میڈیا میں بھی بڑی لے دے ہوچکی ہے لیکن تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں آیاہے مطلب انکی اس وقت کی خاموشی کو نیم رضامندی بھی نہیں لیاجاسکتاہے ۔ہمارے دوست انتخاب احمد بشر کے خیال میں چوہدری پرویز الہی پنجاب جیسے صوبہ کی اس سیاسی صورتحال میں وزرات اعلی تو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہونگے لیکن اتنا وہ کرجائینگے کہ نوازلیگی امیدوار وں کا فارورڈ بلاک بنواکر” نوازلیگی جمہوریت "پسندوں اور اپنے ق لیگی ارکان اسمبلی کیلئے تحریک انصاف کی حکومت میں کوئی بہتر ڈیل حاصل کرلینگے۔پنجاب کے دیگر حلقوں کی طرح سرائیکی دھرتی اورتھل انتخابی حلقوں میں بھی بڑے معرکے دیکھنے کو یوں ملے ہیں کہ ملتان میں یوسف رضاگیلانی اپنے بیٹوں علی موسی گیلانی اور عبدلقادر گیلانی ہارگئے ہیں ،اسی طرح نواب صلاح الدین عباسی کے فرزند پرنس بہاول عباس عباسی ہارگئے ہیں اور انکی ہار پر عوام کی طرف سے خاصا ردعمل آرہاہے ۔اور سوال اٹھ رہاہے کہ بہاولپور کی نواب خاندان کو دیوار کیساتھ کیوں لگایاجارہاہے۔ دوسری طرف تھل کے ضلع لیہ میں بہادر خان سہیڑ، مجید خان نیازی سے ہارگئے ہیں ۔بھکر میں رشید اکبر نوانی اپنے حریف ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ سے ہارگئے ہیں۔ملتان میں شاہ محمود صوبائی حلقہ سلیمان نعیم سے ہارگئے ہیں ۔جھنگ میں فیصل صالح حیات ہارگئے ہیں۔ادھر سابق گورنر پنجاب ملک غلام مصطفے کھر نوجوان شیبر قریشی سے ہارگئے ہیں ۔اسی طرح جمشید دستی بھی کامیابی اپنے نام نہیں کرسکاہے ۔ تحریک انصاف کوعام انتخابات میں اکثریت ملنے کیساتھ وزرارتوں کیلئے جوڑ توڑ شروع ہوچکاہے۔ملتان میں تو وزرارتیں ھر دور میں گرتی ہیں اور اسی طرح بہاولپور کو بھی حکومتوں میں حصہ ملتا ہے لیکن تھل کی طرف اس بارے میں سیاسی جماعتوں کا ہاتھ تنگ ہی رہتاہے ۔اور اس بار مجید نیازی جوکہ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر حلقہ این اے187 سے منتخب ہواہے، کمال پولیٹکل ورکر ہے ۔ اس نے جس طرح الیکشن میں جس طرح جان لڑائی ہے اور جیت کو اپنے نام کیاہے ،اس کوکافی سراہاجارہاہے۔یوں مجید خان نیازی کی کابینہ میں شمولیت پاکستان تحریک انصاف او رتھل عوام کیلئے مثبت اقدام ہوگا ۔