سحری کے بعد نماز ادا کی اور کچھ لمحے دل کی گہرائیوں میں اُتر گیا۔ یکایک، ماضی کی یادوں کا دریچہ کھلا اور کئی چہرے ذہن میں ابھرنے لگے۔ ان ہی چہروں میں ایک چہرہ تھا والدہ نوکر عباس کا، جنہوں نے جوانی کی دہلیز پر ہی زندگی کی تلخ حقیقتوں کا سامنا کیا اور حسرتوں کی چادر میں لپٹی زندگی بسر کی۔ ان کا گزر بسر شاہ سلطان کے قریب ایک چھوٹے سے گھر میں تھا، جہاں غربت سایہ فگن تھی، مگر ماں کی مامتا اور قربانیوں کی روشنی گھر کے آنگن کو روشن رکھتی تھی۔
دو ننھے بیٹے، جو اس وقت 10 اور 8 برس کے تھے، اور ایک بھانجی، جو ہر وقت ان کے ساتھ ہوتی، ان کی دنیا کا محور تھے۔ شوہر حیات تھے، مگر غربت کے شکنجے نے زندگی کی راہوں کو دشوار بنا دیا تھا
2015 میں، صرف 30 سال کی عمر میں، انہیں دل کا دورہ پڑا۔ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کے ماہر امراضِ قلب ڈاکٹر سجاد احمد کھرل کے زیر علاج رہیں۔ 2018 میں، غربت کے باعث، لیہ جانا ترک کر چکی تھیں۔ میں نے اور ڈاکٹر سجاد نے انہیں کئی بار ملتان ریفر کیا اور اینجیوگرافی کروانے کا مشورہ دیا، کیونکہ ان کے دل کی دو نالیاں تنگ تھیں۔ مگر ماں تھی، ماں کا دل اپنی تکلیف سے زیادہ اپنی اولاد کی فکر میں ڈوبا رہتا ہے۔
وہ ہمیشہ کہتیں ڈاکٹر عرفان آپ کی ماں خوش نصیب ہیں کہ آپ ان کا سہارا ہیں۔ میرے بیٹے ابھی چھوٹے ہیں، میں ان کے بغیر کیسے جا سکتی ہوں؟ میں ملتان چلی گئی تو میرے بچوں کا کیا ہوگا؟ ملتان جا کر کون واپس آیا ہے جو دن ہیں کہیں نہیں جاتی یہیں گزارتی ہوں
ماں کی محبت، ماں کی قربانی، ماں کی بے بسی… سب کچھ آنکھوں کے سامنے تھا، مگر زندگی نے انہیں مہلت نہ دی۔
وہ ہمیشہ اپنے بیٹوں کے مستقبل کے لیے فکرمند رہتیں۔ وہ چاہتی تھیں کہ ان کے بیٹے آفیسر بنیں اور غربت کے اندھیروں سے نکل کر روشنی کی طرف بڑھیں۔ بیماری نے ان کے جسم کو کمزور کر دیا، مگر ان کے ارادے ہمیشہ مضبوط رہے۔
25 محرم 2022 کو، تہجد کی نماز کے بعد، وہ اپنے رب کے سپرد ہو گئیں۔ نوری حضوری قبرستان، کوٹ سلطان میں انہیں سپردِ خاک کیا گیا۔
"ماں چلی گئی، مگر اس کی محبت کی مہک ہمیشہ باقی رہے گی۔”
آج صبح، جب میں کلینک جا رہا تھا، راستے میں نوکر عباس سے ملاقات ہوئی۔ وہ فوج سے چھٹی پر آیا ہوا تھا۔ میں نے اس سے اس کی والدہ کی بیماری کا ذکر کیا، تو وہ خاموش ہو گیا۔ اس کی آنکھوں میں سوال تھے، مگر زبان کچھ کہہ نہ سکی۔ پھر ہلکی آواز میں بولا
"ہمیں ماں نے کبھی اپنی تکلیف کے بارے میں نہیں بتایا۔ شاید وہ نہیں چاہتی تھی کہ ہم پریشان ہوں۔”
یہ ماں ہوتی ہے! اپنی تکلیف کے پہاڑ سہہ کر بھی اولاد کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھنا چاہتی ہے۔
انہی یادوں کا دروازہ کھلا، تو چاچا عطا محمد کا چہرہ بھی آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ وہ میرے کلینک پر مریضوں کو اندر بھیجنے کا کام کرتے، مگر کینسر کے آخری مراحل میں تھے۔ میں نے انہیں کئی بار کہا کہ "چاچا! آپ بس آرام کریں۔” مگر وہ ہمیشہ کہتے، "ڈاکٹر صاحب! یہاں بیٹھنا اچھا لگتا ہے، میرے دل کو سکون ملتا ہے۔”
ایک دن میرے کزن کی شادی تھی میں گھر جانے لگا تو چاچا عطاء محمد کہنے لگے، ” ڈاکٹر عرفان، اگر ناراض نہ ہوں، تو آج مجھے شادی میں ساتھ لے چلیں۔ ڈر لگتا ہے کہ اگر مجھے کچھ ہو گیا، اور آپ مصروف رہے، تو میرا کیا ہوگا؟”
وہ دن، وہ لمحہ، اور وہ محبت بھری نظر آج بھی دل میں ایک خنجر کی طرح گڑی ہوئی ہے۔