دوست کی شادی ملتان میں شاہ رکن عالم کالونی میں ہورہی تھی ہم بھی اپنے دوست کی شادی میں شرکت کیلئے روانہ ہوگئے تھے خوشی کے موقع پر خوشی میں شامل ہونے والے سب لوگ خوش تھے میں بھی اپنے دوست کی کار میں بیٹھا خوش گپیوں میں مصروف تھا ایک دوست کو سگریٹ پینے کا شوق تھا تو کہنے لگا یار ٹھہرو سگریٹ لینی ہے میں نے کہا چلو ٹھیک ہے تم سگریٹ لے لو ہم کولڈ ڈرنک پی لیتے ہیں ہم کارسے اُترے اور ہنسی مزاق کرتے ہوئے ساتھ ہی ایک شاپ کی طرف چل دیئے ۔شاپ پر ایک نوجوان بیٹھا ہوا تھا اُسکی شاپ اتنی کوئی لمبی چوڑی نہیں تھی بس نارمل ہی لگ رہی تھی اور اُس کی دکان میں اُسکے علاوہ او ر کوئی کام کرنے والا بھی نہیں تھا ایک دوست نے دکاندار سے سگریٹ مانگی تو کہنے لگا کونسی لینی ہے دوست نے نام بتایا تو کہنے لگا’’لے لو‘‘اُس کی بات سن کر ہم دوست اُسکی طر ف دیکھنے لگے ۔
میرے دوست نے دوبارہ کہا یار سگریٹ دے دو اِس بار بھی اس نے کہا’’لے لو‘‘ہم نے حیرانی سے اُسے دیکھا کہ بار بار کیوں کہہ رہا ہے ’’لے لو‘‘۔۔’’لے لو‘‘۔دکاندار ہونے کے ناطے اُسے خود ہمیں سگریٹ دینی چاہیئے لیکن وہ صرف یہ ہی کہہ رہا تھا کہ ’’لے لو‘‘۔۔۔میرے دوست نے تھوڑے غصے سے جب کہا کہ یار سگریٹ دو عجیب دکاندار ہو کہہ رہے ہو ’’لے لو‘‘’’لے لو‘‘یہ کہنا تھا کہ وہ دکاندار اپنا سرجھکاتے ہوئے بولا بھائی ناراض کیوں ہوتے ہو میں چل نہیں سکتا دونوں ٹانگوں سے معذور ہوں اور نہ ہی میرے بازو کام کرتے ہیں جو اُٹھ کر جاؤں اور آپ کو سگریٹ کی ڈبی اٹھا کرلا دوں ۔اس لئے میں آپ کو بار بار کہہ رہا تھا کہ ’’لے لو‘‘۔۔۔’’لے لو‘‘۔۔۔
ہم دوست ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اور اپنے کئے پر شرمندہ ہوئے اور اُس دکاندار سے اپنے الفاظوں کی معذرت کی ۔وہ دکاندار کہنے لگا کوئی بات نہیں آپ وہ سامنے والے خانے سے سگریٹ اور جو جو کچھ آپ کو لینا ہے لے لو جو پیسے بنتے ہیں میں آپ کو بتا دیتا ہوں آپ وہ پیسے گلے میں ڈال دو اور بقیہ پیسے گلے سے لے لو شکریہ۔۔ہم نے سامان لیکر پیسے اس کو دے دیئے اوراُ س سے پوچھا کہ آپ کا نام کیا ہے تو کہنے لگا میرا نام کاشف ہے اور ادھر شاہ رکن عالم کالونی کے ساتھ میں میرا گھر ہے ہم نے اُ س سے پوچھا کہ بھائی آپ کے تو دونوں ہاتھ پاؤں ہی کام نہیں کرتے یہ سب کیسے ہوا ؟
کہنے لگا بھائی ایک پرائیویٹ فیکٹری میں مزدوری کرتا تھا پڑھائی تو کی نہیں ،آٹھویں کلاس تک پڑھا ہوں آگے نہیں پڑھا کیونکہ پڑھائی چھوڑدی تھی اورمیرا کام میں دھیان زیادہ لگتا تھا ۔ابومیرے فوت ہوگئے ہیں والدہ حیات ہیں جو سلائی کا کام کرتی ہیں 4چھوٹے بہن بھائی ہیں ایک دن میں فیکٹری میں کام کر رہا تھا تو مجھے تیسری منزل پر کام کرنے کا کہا گیا ۔میں تیسری منزل پر کام کر رہا تھا کہ میرا پاؤں سلپ ہوا اور میں تیسری منزل سے نیچے آگرا۔میرے سر میں چوٹ لگی ،ہاتھ پاؤں ٹوٹ گئے،ریڑھ کی ہڈی میں بھی چوٹ لگی ۔8مہینے ہسپتال میں پڑا رہا میری والدہ نے دن رات سلائی کرکے اور قرضہ لیکر میرا علاج کرایا میں بچ تو گیا لیکن ڈاکٹر ز نے کہا کہ میرے دونوں ہاتھ پاؤں کام نہیں کر سکیں گے ۔یہ سننا تھا کہ میری والدہ صدمے میں چلی گئیں اور میں بھی اپنی زندگی سے مایوس ہوگیا کہ میری باقی ماندہ زندگی محتاجی میں گزرے گی ۔لیکن میری والدہ بہت ہمت والی تھی انہوں نے مجھے کہا بیٹا ہمت نہیں ہارنا یہ اللہ کی طرف سے امتحان ہے کبھی بھی اپنی زندگی سے مایوس نہیں ہوا کرتے ہسپتال سے چھٹی ہونے کے بعد مجھے جب گھر لایا گیا تو چھوٹے بہن بھائی کو دیکھ کر میںیہ ہی سوچتا تھا کہ ان کا کیا ہوگا۔
باپ تو پہلے ہی مرچکا تھا اب میں ہی اس گھر کا سہارا تھا میرے ساتھ یہ حادثہ ہو گیا میری ماں کب تک سلائی کرے گی اور قرضہ کیسے اُترے گا میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ میں ایک دکان بنا لیتا ہوں اور اُس پر بیٹھا رہونگا زیادہ نہیں تو گھر کے کچھ اخراجات ہی کم ہوجائیں گے اور قرضہ بھی اُتارنے میں مدد ملیگی ۔پہلے تو میری ماں نے کہا کہ بیٹا ایسا مت سوچو تم آرام کرو میں دن رات سلائی کر کے تم سب کا پیٹ پال سکتی ہوں اور قرضہ کا کیا ہے اُتر جائے گا۔لیکن میرے بار بار اسرار کرنے پر میری والدہ نے دکان بنا کر دینے کی حامی بھر لی اور اپنا سارا زیور بیچ کر یہ چھوٹی سی دکان بنا دی۔اب میری والدہ مجھے روزانہ صبح وہیل چیئر پر لاکر یہاں بٹھا جاتی ہیں اور شام کو آکر مجھے لے جاتی ہیں اللہ کا شکر ہے دکان اچھی چل رہی ہے اور ہمارا گزر بسر ہورہا ہے۔ہم سب دوستوں نے جب اس کی داستان سنی تو ہماری آنکھیں اشکبا رہوگئیں اور کاشف کی عظمت اور ہمت کی داد دی کہ اُس نے معذوری کو مجبور ی بنا کر اس سے فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ محنت پریقین رکھتے ہوئے معذوری کی حالت میں دکان بنائی بھی اور اسکو چلا یا بھی ۔۔۔۔
کاشف کی دکان سے سلام اور نیک تمناؤں کے ساتھ روانہ ہو کر شادی میں شرکت کیلئے چل پڑے ،ایک دوست کہنے لگا کہ یار اگر کوئی چور اس کی دکان سے سامان اٹھا کر لے جائے تو یہ بیچارہ تو اُس کو پکڑ بھی نہیں سکتا۔۔؟؟دوسرے دوست نے کہا کہ’’ جب ہو یقین کامل تو کٹ جاتی ہے زندگی ‘‘اور جن لوگوں کا اللہ کی ذات پر بھروسہ ہو کوئی شخص انکا بال بھی بینگا نہیں کر سکتاخواہ وہ معذور ہو یا ٹھیک ٹھاک انسان۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ پر بھروسہ کرنے والے کبھی پریشان نہیں ہوتے ،ہمیں بھی اپنے اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے خواہ ہم کتنی ہی بڑی پریشانی میں مبتلا کیوں نہ ہوجائیں ۔اللہ تعالیٰ ہی ہماری مشکلات کم کرنے والا ہے اللہ ہمیں محنت پر یقین رکھنے اور ایمانداری سے اپنی زندگی کے تمام معاملات سرانجام دینے والا بنائے ۔آمین