جلیل نے ایک نظر ان پر ڈالی اور کندھے اچکا کر آگے بڑھ گیا۔رفیق اسے پان کے کھو کھے پر مل گیا ۔ابے چلنا ہے ناں اس نے رفیق کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ہاں چل رفیق نے پان کی گلوری منھ میں رکھی۔ویسے تو جس گیانی کا ذکر کر رہا تھا واقعی میری لاٹری لگ جائے گی؟ جلیل نے رفیق سے پوچھا ۔ لو اور کیا اب تو دیکھتا جا ابے تیری قسمت کھلنے والی ہے ۔رفیق نے پان کی پیک کی پچکاری سے دیوار کو رنگین کیا جہاں پہلے ہی اشتہاروں کی بھرمار تھی جابجا پیک کے نشان بتاتے تھے کہ شاید یہ پسندیدہ دیوار تھی جسے ہر کوئی گل رنگ کرتا جاتا تھا ۔
ہاں بالک بول لاٹری کا نمبر لگوانا چاہتا ہے بنگالی ساحری بابا نے مسکراتے ہوئے اسے گھورا ۔ہاں بابا بس ایک بار لاٹری کا نمبر لگ جائے میری بھی قسمت بن جائے گی ۔جلیل نے ہاتھ ملتے ہوئے لجاجت سے کہا ۔بنگالی بابا نے آنکھیں بند کیں اور منھ ہی منھ میں کچھ بڑ بڑایا ۔ جب آنکھیں کھلیں تو ان میں عجیب سی چمک تھی جا سمجھ تیری قسمت چمک گئی مگر پھر تجھے بھی میرا ایک کام کرنا ہوگا ۔اور تو انکار نہیں کرے گا بابا نے اسے گھورا ۔بالکل بابا مم میں آپ کی ہر بات مانوں گا ۔جلیل کا دل خوشی سے ناچ اٹھا ۔ جاؤ پھر جلد میں خود تجھے بلا لوں گا ۔جا اب بابا نے ہاتھ ہلا کر اشارہ کیا ۔دونوں باہر آگئے ۔
زینب خوشی سے ہنکارے بھر رہی تھی اور عامون مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا اماں بھاگی چولھے کے پاس بیٹھی روٹی بناتے ہوئے دونوں کو دیکھ کر مسکرائی ۔زینب نے قلقاری ماری اور کھلکھلائی عامون نے فرط محبت سے اسے گود میں لے لیا اور اس کا ماتھا چوما ۔زینب اب ایک صحت مند اور خوبصورت بچی کا روپ دھار چکی تھی ۔وہ عامون اور بھاگی کی آنکھ کا تارا تھی ۔اب وہ گھٹنوں گھٹنوں چلنے لگی تھی ۔محلے میں عامون اور بھاگی خالہ بھانجا مشہور تھے ۔زینب عامون کی بہن کی بیٹی تھی جس کے ماں باپ اس دنیا میں نہیں تھے سو اسکی ذمہ داری عامون کے سر پہ تھی ۔ بابا صاحب کبھی کبھار چکر لگاتے اور زینب سے مل جاتے اس کے حق میں دعا کرتے ۔جانے مقدر کیا گل کھلانے والا تھا جو وہ تشویش میں رہتے ۔اور عامون کو بار بار اسکی حفاظت کی تلقین کرتے ۔
وہ ایک پرانا مندر تھا لوگ اسے آسیب زدہ قرار دیتے تھے اور اس کے آس پاس بھی نہ پھٹکتے ۔مندر کے دائیں طرف مرگھٹ تھا جہاں تقسیم سے قبل ہندو اپنے مردے جلاتے تھے ۔ بائیں طرف ایک ندی تھی جس کا پاٹ بارش کے دنوں میں خوب چوڑا ہو جاتا اور پانی خوب رواں ہوتا تھا ۔شاید اس میں کسی دور میں استھیاں بہائی جاتی ہونگی ۔۔مندر کے سامنے سیڑھیاں چڑھ کر ایک بڑا سا چبوترہ تھا جس کے وسط میں کالی ماتا کی بدصورت مورتی اپنی سرخ زبان نکالے آلتی پالتی مارے بیٹھی تھی ۔وقت کی گرد نے اس کے نقوش دھندلا دیے تھے۔مگر ہیبت کا تاثر ابھی بھی قائم تھا ۔ ۔اردگرد خاموشی اور وحشت کا پہرا تھا ۔خشک پتوں کی چرمراہٹ اور قدموں کی آواز نے خاموشی کا پردہ چاک کیا ۔قریبی درخت پر بیٹھے پرندے بے چین ہو کر اڑے اور دوسری جگہ جا بیٹھے ۔۔سیاہ لباس ہوا میں پھڑپھڑایا اور وہ مندر کی سیڑھیاں چڑھتا چلا گیا۔
باقی اگلی قسط میں