بابا صاحب نے سلام پھیرا اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ۔اس دوران عامون مؤدب ہو کر بیٹھا ان کے فارغ ہونے کا انتظار کر تا رہا ۔عامون دودھ کا انتظام کرو ہمارے گھر اللہ کا مہمان آرہا ہے ۔انہوں نے جائے نماز کا کونا موڑتے ہوئے پرمسرت لہجے میں کہا ۔عامون اٹھ کھڑا ہوا ۔جو حکم بابا صاحب ۔ہم ابھی اسے لیکر آتے ہیں انتظار کرو ۔بابا صاحب اٹھے اور کٹیا سے باہر چل دیے ۔ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی وہ ایک سمت بڑھتے چلے گئے آگے ڈھلوانی راستہ تھا دائیں طرف برگد کا گھنا درخت جس کی ریش زمین کو چھو رہی تھی دور سے دیکھنے پر وہ ایک بوڑھے کی مانند دکھائی دیتا تھا۔ نچلی ٹہنیوں نے آپس میں مل کر ایک جال سا بن دیا تھا اس جال میں ایک ننھا وجود کپڑے میں لپٹا ہاتھ پاؤں چلا رہا تھا ۔بابا صاحب نے بسم اللہ کہتے ہوئے اسے اپنی گود میں لے لیا اور کٹیا کی طرف چل دیے۔ عامون یہ دیکھو اللہ کا مہمان اسے لے جاؤ اور غسل کرا کر ہمارے پاس لے آؤ ۔عامون نے عقیدت سے بچی کو گود میں لیا اور غائب ہوگیا ۔کچھ دیر بعد ظاہر ہوا تو بچی خوبصورت لباس میں ملبوس تھی ۔بابا صاحب ۔یہ لیں بابا صاحب نے بچی کو گود میں لیا اس کی پیشانی پر بوسہ دیا ۔اور اس کے کان میں اذان دی ۔عامون اس دوران خاموشی سے ہاتھ باندھے سر جھکائے کھڑا رہا ۔اذان کے بعد بابا صاحب نے شفقت سے بچی کے سر پر ہاتھ رکھا اور کچھ پڑھ کر پھونک ماری ۔ماشااللہ آج سے اس کا نام زینب ہے ۔لو عامون بچی بھوکی ہے اس کی خوراک کا بندو بست کرو ۔اب یہ ہماری مہمان ہے آگے جو میرے مالک کا حکم ہوا ۔تب تک اس کا خیال رکھنا تمہاری ذمہ داری ہے ۔
مائی بھاگی لڑھکتی ہوئی ایک پتھر سے ٹکرائی اور بے ہوش ہوگئی ۔کافی دیر بعد اسے ہوش آیا بڑی ہمت کر کے وہ اٹھی ۔ گرنے سے اس کی کہنیاں اور گھٹنے زخمی ہو گئے تھے ۔ہاتھوں پر خراشیں تھیں ۔خود کو سنبھالنے کے بعد اسے سب یاد آیا تو وہ چونکی ۔ہائے بچی کہاں گئی اب تو شام ہو رہی تھی ۔اور یہ صبح کا واقعہ تھا ۔کہیں کوئی جانور تو بچی کو ۔ ۔ ۔ اس سے آگے سوچ کر وہ کانپ اٹھی ۔حوصلہ مجتمع کر کے اٹھی آہستہ آہستہ قدم بڑھاتی ادھر ادھر نظر ڈالتی جارہی تھی شاید کہیں سے بچی کی رونے کی آواز سنائی دے مگر جنگل میں خاموشی تھی ۔سورج کا سفر ختم ہو رہا تھا اب وہ تھکا ماندہ مغرب کی طرف جارہا تھا اس کے زرد چہرے سے تھکن عیاں تھی ۔ مائی بھاگی راستہ بھٹک چکی تھی جنگل کی گنجانی میں کمی آگئی تھی اور اب ایک دوسرے سے قدرے دور دور کھڑے درخت ہوا سے سرگوشیاں کر رہے تھے ۔ پرندے اڑان بھر کے گھروں کو لوٹ رہے تھے ۔مائی بھاگی لرزتے قدموں سے خود کو گھسیٹتی جا رہی تھی وہ بہت تھک چکی تھی ۔بچی کی جدائی نے اسے نڈھال کر دیا تھا ۔اب وہ کیا کرے کہاں جائے ۔شام سر پر تھی ۔کہیں دور کسی گیدڑ کی چیخ سنائی دی ۔وہ سہم گئی اور تیزی سے قدم اٹھانے لگی ۔ دور سے اسے ایک جھونپڑی دکھائی دیی۔ اس نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اس طرف بڑھ گئی ۔۔ ۔ ۔
( باقی آئندہ)