یہ تم نے ہوم ورک کیا ہے ؟اتنا گندا افف ۔غصہ ہے کہ سوا نیزے پہ نگاہوں میں غصہ حقارت ۔طیش میں آکر دو تھپڑ پھول سے گالوں پہ جڑے گئے۔
اتنی دیر کر دی آنے میں دوپہر چڑھ آئی ہے سارا گھر الٹا پڑا سنک برتنوں سے بھرا ہوا ہے یہ سب تمھارا باپ دھوئے گا ۔باجی مجھے رات سے بخار تھا اس لیے دیر ہوگئی ۔مم میں ابھی سارے برتن دھو لیتی ہوں ۔ ۔ ۔ آہ ۔ ۔ گلاس ٹوٹنے کی آواز۔ ۔ خون۔ ۔ درد ۔ اری کم بخت گلاس توڑ دیا آج تو میں تجھے ایسی سزا دوں گی کہ یاد کرو گی۔ چلو میرے ساتھ۔ ۔ ۔ ۔ باجی معاف کر دو ۔ آنسو ۔ سسکیاں۔ منتیں ۔ سب بیکار ۔ ۔ آج تجھے ساری رات اس سٹور میں گزارنا ہوگی۔ ۔ نہیں باجی۔ ۔ایسا مت کرو دیکھو میرے ہاتھ سے خون نکل رہا میں مر جاؤں گی۔ ۔ ۔ تو مر جاؤ دروازہ بند ہوگیا ۔ گھٹی چیخیں آہستہ آہستہ معدوم ہوگئیں۔ ۔ ۔
ہمیں کیا پتہ کیسے مر گئی ۔۔ لے جاؤ چپ کر کے ورنہ چوری کا الزام لگا کر اندر کروا دیں گے ہنہ غریب لوگ ۔
بھائی صاحب لائن میں آئیں پلیز ہم صبح سے لائن میں کھڑے ہیں آپ بھی اپنی باری پر چیک کروائیں ۔ ۔ ابے تیری تو تو غالبا جانتا نہیں میں کون ہوں مونچھوں کو بل دیا۔ ارے تمیز سے بھائی صاحب گالی مت دیں ۔ ۔ تیری اسی تیسی تو مجھے تمیز سکھائے گا ہیں ۔ ۔ گھمسان کارن پڑ گیا ۔
مجھے بائیک لے کر دو ماں میرے سب دوستوں کے پاس ہے ۔۔ ۔ بیٹا میں کہاں سے لاؤں اتنے پیسے تو جانتا تیرے باپ کے گزرنے کے بعد گزارا کتنا مشکل سے ہو رہا سلائی میں تو دال روٹی پوری ہوتی۔ ۔ ماں کی بے بسی۔ ۔ آنسو ۔ پندرہ سالہ بچے نے گلے میں پھندہ ڈال کر خودکشی کر لی۔ ۔
قارئین یہ سب ہمارے معاشرتی رویے ہیں نفرت۔تشدد۔غصہ۔جذبات ۔منافقت آخر کیوں یہ متشدانہ رویے ہماری زندگی کی انگلی پکڑے ہمیں خسارے کی طرف لے جارہے ۔کونسی وجوہات ہیں جو ہم اس نفرت انگیز بہاؤ میں بہتے چلے جارہے۔اور ہمیں احساس ہی نہیں ۔شاید اب ہم اشرف المخلوقیت کے درجے سے گر کر حیوانیت کا رخ کر رہے۔جسمانی بیماریوں سے زیادہ ہم ذہنی بیماریوں کا شکار ہیں ۔ڈیپریشن۔بے سکونی ۔بے چینی اضطراب جو معاشرے کو دھیرے دھیرے اندر ہی اندر کھائے جارہا۔یہ سب نصف صدی پہلے تو نہیں تھا۔تب شاید انسان اتنا ترقی یافتہ نہیں تھا ۔نہ دنیا گلوبل ولیج تھی اس نام نہاد ترقی نے اقدار ۔رشتوں اور محبتوں کو لہو رنگ کر کے فاصلے پیدا کر دیے ۔رابطوں میں ہم لمحوں اور خلوص میں ہم صدیوں دور چلے گئے ۔والدین ایک پودے کو نمو دیکر پروان چڑھانے کے بعد بے مصرف سامان کی مانند ہوگئے جو اسٹور روم میں پڑا رہتا ہے ۔ہم مادر پدر آزادی کو حق کہہ کر مانگتے ہیں ۔رشتے بے معانی اور انسانیت سوز ہوتے جا رہے ۔اب گاؤں شہر اور محلے کی بیٹی سب کی بیٹی نہیں عورت کہلاتی ہے جس پر معاشرے کے بھیڑیے دانت نکوستے ہیں اور موقع ملتے ہی اسے چیر پھاڑ دیتے ۔قانون کے ہاتھ لمبے ہونے کے باوجود زر کی رسیوں سے بندھے ہیں ۔استاد طالبعلموں کو شفقت کے بجائے بیوی اور حالات کا غصہ اتارنے کے لیے استعمال کرتے اپنی اندر کی بھڑاس نکالتے۔۔ آئے روز کمسن بچوں سے زیادتی اور قتل کی لرزہ انگیز واقعات اہل دل کو خون کے آنسو رلاتے ہیں ۔والدین اپنے کلیجے کے ٹکڑوں کو باہر بھیج کر آنکھیں دروازے۔پہ وا کیے بیٹھتے۔اور ان کے خیریت سے واپسی پر رب کا شکر ادا کرتے ہیں ۔ جنسی بھیڑیے تاک میں رہتے کہ کب کوئی آسان شکار ملے اور وہ اسے چیر پھاڑ دیں ۔غربت ۔افلاس ہی ہمارے رویوں کی وجہ نہیں خودکشی تو پیٹ بھرے لوگ بھی کر لیتے ۔شاید موت کو ہم نے کھیل سمجھ لیا اور زندگی کو اتنا ارزاں کہ اس انمول کو بے مول کر دیا ۔میں نے جب بھی اس پر بات کی ہر طبقہ فکر کا جواب الگ ہی پایا بیشتر لوگوں کا کہنا کہ اسلام سے دوری کا نتیجہ۔کچھ کے خیال میں ہم ذہنی مریض ہیں ۔کچھ غربت اور بدحال حالات کو اس کا سبب جانتے ۔مگر یہ سب بودے جواز ہیں درحقیقت ہم نے سوچ سمجھ کے دریچے خود پر بند کر لیے ہیں ہم سوچنا اور سمجھنا ہی نہیں چاہتے ۔یہ رویے اگر مسلمانوں تک محدود ہوتے تو ہم اسلام سے دوری وجہ قرار دیتے مگر میں نے مذہب کا پرچار اور جہاد کا سبق دینے والوں کو زیادہ پر تشدد پایا جن میں زرا سی نرمی کی گنجائش نہیں ۔اگر وجہ غربت اور بدحالی ہے تو کم سے کم جدوجہد اور کوشش سے پیٹ تو بھرا جاسکتا۔اور اگر یہ رویہ غریبوں تک ہوتا تو وجہ سمجھی جاتی مگر امراء میں بھی یہ چلن ہے ۔سارا دن کی مصروفیت کے بعد ڈھیروں نیند۔ ڈیپریشن اور انزائٹی کی دوائیاں چہ معنی وارد؟ پھر نشہ آور اشیا کا استعمال ۔ کہ
یاد ماضی عذاب ہے یارب چھین لے مجھ سے حاغظہ میرا
تیسری وجہ قریب ترین قیاس کہ ہم ذہنی مریض ہیں مگر بات وہیں آکر رک جاتی کہ ہم ذہنی مریض کیونکر ہوئے اس سوال کا جواب ہم میں ہر شخص خود بہتر جانتا کہ ایسا کیوں ہوا ۔ کہ شر خیر پر غالب آن ٹھہرا ۔اور ہماری سوچ بدل گئی ہم قنوطی ہوگئے مثبت پہلو کو نظر انداز کر کے منفی پہلو نمایاں کرنے لگے آدھے گلاس خالی کو دیکھ کر آدھا بھرا گلاس فراموش کر دیا ۔خود غرضی میں مذہب انسانیت کو بھلا بیٹھے ۔طمع اور ہوس میں درد مندی سے کنارہ کشی کرلی تو مقدر میں اطمینان کی دولت تو کھونی تھی ناں ۔ان کہانیوں کو جو پوپلے منھ سے محبت بھری بانہوں میں آکر سنتے تھے دور کہیں پھینک دیا اب اصلاح کیسے ہو الیکٹرونک گلوبل ولیج نے ایک گھر کے ہر کمرے میں الگ الگ ولیج بنا دیے جہاں بغیر اجازت اندر آنا منع ہے کہ پرائیویسی متاثر ہوتی ۔باہر کی متلاشی محبتوں نے گھروندے کی دیواروں اور محبتوں میں دراڑیں ڈال دیں تو محبت کی تسبیح ٹوٹ کر بکھرنا ہی تھی ۔جانب زوال کی راہ تو ہم نے خود منتخب کی تو اب رونا کس بات کا ۔ ۔ ۔