برسوں بعد اس کا مجھ سے را بطہ ہوا اور شا ئد زند گی میں پہلی بار اس نے مجھ سے مو بائل پر بات کی ۔حا لا نکہ شناشائی کا عرصہ عشروں پہ محیط ہے لیکن ابتدائی ایک دو ملاقاتوں کے بعد ا س نے نہ کال کی اور نہ کبھی ملاقات کی ۔۔
آپ یقیناًسوچ رہے ہوں گے کہ کون ہو سکتا ؟تو اس سے پہلے کہ میں کال کی تفصیلات آپ سے شیئر کروں میں آپ کو بتاتا چلوں مجھے کال کر نے والا یا والی علی بھائی تھے ۔ علی بھا ئی نام سے تو یقیناًلیہ کے
لوگ واقف ہوں گے خاص طور پر ہمارے صحافتی حلقے کہ علی بھائی کچھ عرصہ قبل چوک اعظم پریس کلب کے عہدیدار بھی رہے آ ج کل علی بھائی بسلسلہ علاج لا ہور میں مقیم ہیں اور بقول ان کے آ نے والے نو مبر کے پہلے ہفتہ میں جناح ہسپتال میں ان کا آ پریشن ہے ۔ گذ شتہ سالوں میں صحافت سے وابستہ دو افراد کے ساتھ ایک جیسے سا نحات ہو ئے ۔ دو نوں کا تعلق چوک اعظم سے ہے اور دونوں مقا نی پریس کلب کے عہدیدار رہے غلام رسول اصغر نا معلوم شخص کی گو لی کا نشا نہ بنے اور علی بھا ئی کو اس کے اپنوں نے گو لی کا مزہ چکھایا ، کس نے کیا اور کیوں کیا ؟ یہ میرا مو ضوع نہیں لیکن جو ہوا برا ہوا دو زندہ انسان انسانی بر بر یت کا نشا نہ بنے اور سسکتی زند گی کی مثال بن گئے ۔
علی بھائی مجھے کہہ رہے تھے کہ سر میرے والد جب ریٹائرڈ ہو ئے تب انہوں نے چوک اعظم کے ایک نوا حی چک میں چندکنال زمین خریدی تھی با ضابطہ رجسٹری ہو ئی رجسٹری پر ہمارے تین لا کھ روپے خرچ ہو ئے کچھ عر صہ کے بعد جب ہم نے انتقال کرانے کے لئے اپٹواری سے رابطہ کیا تو اس نے ہم سے مزید دو لا کھ رو پے کی ڈیمانڈ کی جو ہمارے پا س نہیں تھے نہ ہم دو لا کھ روپے دے سکے اور نہ ہی ہمارا انتقال ہو سکا ،وہاں میرے والدین نے اپنی ساری جمع پو نجی لگا کر سر چھپا نے کے لئے کمرے تعمیر کئے والد فوت ہو گئے میں اپنے والدین کا بیٹا اور بہنوں کا بھائی تھا لیکن سر حالات نے نے مجھے نہ بھا ئی رہنے رہنے دیا اور نہ ہی بیٹا ۔ میری شا دی ہو گی اور پھر وہ ہوا کہ میں گذ شتہ ایک ڈیڑھ سال سے زند گی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہوں جو بچا تھا میری والدہ اور بہن بھا ئی میرے علاج پر لگا چکے ہیں ۔
ابھی کل میری والدہ کا فون آیا وہ رو رہی تھی کہ چک کی مسجد میں اعلان ہوا ہے کہ اس چک میں رہنے والے نا جائز قابض ہیں تین دن کے اندر مکانات خالی کر کے اپنا سامان اٹھا لیں وگرنہ حکو مت نا جائز تجاوزات مہم کے تحت کا روائی کرتے ہو ئے ان کے مکان گرا دے گی نقصان کی ذمہ داری ان کی اپنی ہو گی ۔۔۔۔ یہ کہہ کر وہ خا موش ہو گئی میں نے محسوس کیا کہ زیادہ بو لنے کے سبب شا ئد وہ تھک گئی ہے تبھی تو اس کی آواز مدہم ہو نے لگی تھی میں نے اسے حوصلہ دینے کے لئے لقمہ دیا ۔۔
علی اور ۔۔ سر اور کیا گذ شتہ پرویز مشرف دور میں بھی یہی ہوا تھا اعلانات ہو ئے لوگ بے چین اور پریشان ہو ئے لیکن پھر خامو شی چھا گئی اب پھر حکو مت تبدیل ہو ئی وہی عمل دہرایا جا رہا ہے کہتے ہیں کہ جس بندے نے حق واپسی کرا کے زمینیں فروخت کی تھیں اس کے انتقال ٹوٹ گئے ہیں اب جس بندے نے زمینیں فروخت کیں سر کار کے جن اہل کاروں نے قا نون کے مطا بق رجسٹر یاں کیں ۔ جن محکموں نے رجسٹریوں کی مد میں لا کھوں روپے کی فیسیں سرکار کے نام پر وصول کیں انہیں کو ئی پو چھنے والا نہیں بس لے دے کے ہم جیسے غریب مجرم ٹہرے جنہوں نے اپنا سب کچھ لٹا کے ، بیچ باچ کے سر چھپا نے کے لئے آ شیانہ بنایا اور اب غریب بے گھروں کو 50 لا کھ گھر دینے کی دعویدار حکومت انہی غریبوں کو بے گھر کرنے پر تل گئی ۔۔
سر میں تو کہتا ہوں کہ ایسے غریب لوگ جو سرکار کی زمینوں پر بیٹھے ہیں حکو مت ان کو بے دخل کرنے کی بجائے انہیں بھی پچاس لا کھ گھروں کی سکیم میں شا مل کر لے اور انہیں بے دخل کر نے کی بجائے ان سے زمین کی قیمت و صول کر لے ۔۔بس سر اور ہم کہنے کے سوا کیا کر سکتے ؟
یاد آ یا کہ پر ویز مشرف دور سے بھی بہت پہلے غالبا پی پی پی کا دور تھا مر کز میں بی بی شہید بے نظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں اور پنجاب میں منظور وٹو وزیر اعلی تھے اس وقت بھی نا جائز تجاوزات کے خلاف ایک مہم چلی تھی سر کار کے ٹریکٹر اور بلڈوزروں نے ساری سڑکیں ادھیڑ دی تھیں اور سارے چھپر گرا دئے تھے لیہ ما ئنر کنارے اس وقت کی کچی سر وس روڈ پر محلہ منظور آ باد میں ایک کچہ کمرہ ہوا کرتا تھا یہ ایک گو نگی ماں کا گھر تھا اس ایک کمرے کے کچے مکان میں رہنے والے لوگ شا ئد تین چار سے زیادہ تھے ۔ ایک دو پہر نا جائز تجاوزات مسمار کر نے والا سرکار کا بلڈوزر اس کچے مکان کی صورت میں نظر آ نے والی تجا وزات کے دروازے پر آ کھڑا ا ہوا گو نگی ماں کی آ سمان کی طرف ہا تھ ا ٹھا اٹھا کے چیخیں ، منتیں اور آہ و زاریاں بلڈوزر کی گڑ گڑاہٹ میں دفن ہو گئیں ۔ چند ہفتوں بعد سبھی نا جائز تجاوزات سر کار کے تعاون سے دوبار ہ بحال ہو گئیں لیکن گو نگی مٹی کے ڈھیر کو دوبارہ اپنا گھر نہ بنا سکی ۔
بس کہنا یہ تھا کہ سر کار نا جائز تجاوزات کے خلاف ضرور کاروائی کرے مگر غربت کی سطح سے بھی کم زند گی گذارنے والے اس طبقہ کو نا جائز تجاوز سمجھتے ہو ئے صرف گو نگی عوام کے کچے پکے گھروندے مسمار نہ کرے کڑوا سچ تو یہی ہے کہ اب تک اسلام آ باد سے کراچی کے پا کستان کوارٹرز تک بس غربت کے مارے ہی ڈنڈے کھا تے ، بلکتے اور دہا ئیاں دیتے نظر آ رہے ہیں بھلا اسے انصاف کیسے کہا جا سکتا ؟