فی الحال تو میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتاکہ تھل کے ارکان اسمبلی سیاسی طورپر گونگے ہیں، اور ان کو اس بات کا احسا س اور فکر نہیں ہے کہ تھل، ڈیرہ غازی خان ،ملتان اور بہاول پور کی ترقی کے مقابلے میں کہیں پیچھے کھڑا ہے۔اور اسی طرح لاہورر،فیصل آباد اور راولپنڈی جیسے ترقی یافتہ شہروں کی فہرست میں تو تھل کا نام تک بھی نہیں آتاہے ۔یقیناًتھل کے ارکان اسمبلی سوچتے ہونگے اور ان کو اس بات کا احسا س ہوگاکہ تھل کیساتھ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد اور صوبائی دالحکومت لاہور کے حکمرانوں کی طرف سے( 71) سال میں کو ئی منصفانہ پالیسی روا نہیں رکھی گئی ہے۔ادھرتھل کے ارکان اسمبلی کیخلاف اس الزام کو بھی فوری طورپر تسلیم نہیں کیجاسکتاہے کہ دراصل تھل کی پسماندگی کے ذمہ دار یہاں کے ارکان اسمبلی (ملک احسان اللہ ٹوانہ۔عمراسلم خان۔عمران خان ۔امجد علی خان ۔ثنااللہ خان مستی خیل۔ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ۔قیصر احمد شیخ۔مہر غلام محمد لالی۔صاحبزاہ محمد محبوب سلطان۔غلام بی بی بھروانہ۔محمد امیر سلطان۔محمد شبیر علی۔مہر ارشاد احمد سیال۔رضا ربانی کھر۔نوابزادہ افتخار احمد خان بابر۔مخدوم زادہ سید باسط علی سلطان۔ عامر طلال خان۔عبدالمجید خان۔نیاز جکھڑ)ہیں جوکہ اسمبلی کے فلور پر عوام کے حقوق کیلئے بات کرنا تو درکنار کھڑا ہونا بھی گواراہ نہیں کرتے ہیں ۔سمجھداروں میں ایک رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ جب قومی اسمبلی میں تھل کے 7) (اضلاع کے (19) ارکان اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں (37) ارکان اسمبلی موجود ہیں اور اسی طرح کابینہ میں بھی ان کو نمائندگی ملتی ہے ، توپھر یہ کس طرح ہوسکتاہے کہ ان کی بات کو حکمران اہمیت نہ دیں ؟ اور تھل کیلئے وہ منصوبے جاری نہ کریں جوکہ ملتان ،بہاول پور ،ڈیرہ غازی خان اورپھر فیصل آباد ،لاہور ،راولپنڈی کیلئے جاری کیے جاتے ہیں ۔ ادھر جب تھل کی پسماندگی کا سوال اٹھتاہے تو اس طرف بھی ضرور دھیان جاتاہے کہ مان لیا یہاں کے ارکان اسمبلی تھل کی ترقی میں مخلص نہیں ہیں اور سازش کرتے ہیں کہ اقتدار کی رسی انہی کے گرد گھومتی رہے اور عوام ٹرک کی بتی کے پیچھے چلتی رہے ۔لیکن اس طرف بھی توجہ جاتی ہے کہ کیا ریاست اور حکومت وقت کا بھی کوئی میرٹ ہوتاہے ؟ یاپھر ریاست اور حکومت بھی اندھوں کی طرح ان ارکان اسمبلی کے پیچھے چلتی ہے جوکہ اپنے اضلاع میں ترقی کی بجائے پسماندگی کی دلدل دیکھنا چاہتے ہیں ۔ا دھر تھل جس کو دیکھتے ہی اس با ت کا احساس ہوتاہے کہ اس دوآبہ کو قیام پاکستان سے لیکر آج تک ترقی کے عمل میں سرے سے شامل ہی نہیں کیاگیاہے ،تھل جس کے اضلاع میں خوشاب، میانوالی ،بھکر ،لیہ ،مظفرگڑھ ،جھنگ اورچینوٹ ضلع شامل ہیں ۔تھل کی پسماندگی کی بربادی کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ تھل کے 7) ( اضلاع میں کوئی ایک بھی ائرپورٹ نہیں ہے ،کوئی ایک میڈیکل کالج نہیں ہے ،کوئی ایک یونیورسٹی نہیں ہے ،کوئی ایک ٹیکنالوجی کالج نہیں ہے ،کوئی ایک ہائی کورٹ کا بنچ نہیں ہے،کوئی ایک کیڈٹ کالج نہیں ہے ،کوئی ایک ڈویثرنل ہیڈ کوارٹر نہیں ہے، ، کوئی ایک ٹیچنگ ہسپتال نہیں ہے،کوئی ایک انجئیر نگ یونیورسٹی نہیں ہے ،کوئی ایک زرعی یونیورسٹی نہیں ہے،کوئی ایک موٹروے نہیں ہے،کوئی ایک وویمن یونیورسٹی نہیں ہے مطلب کوئی ایک بھی ایسا کام نہیں ہے جوکہ تھل کی پسماندگی کی دلدل میں کھڑے عوام کی دلجوئی کرنے کاسبب بن سکتا ۔دوسری طرف جونہی تھل کے اضلاع کی حدود ختم ہوگی ہے ،حکومت کاکام شروع ہوجاتاہے مطلب ملتان میں نشتر میڈیکل کالج ہے تو بہاولپور میں قائداعظم میڈیکل کالج ہے ،اسی طرح ڈیرہ غازی خان میں غازی خان میڈیکل کالج ہے تو رحیم یارخان میں شیخ زید میڈیکل کالج ہے۔ ملتان ،ڈیرہ غازی خان ،رحیم یارخان اور بہاولپو سے لاہور کی طرف پلٹ کر دیکھیں تو آپ دنگ یوں رہ جاتے ہیں کہ یونیورسٹی آف ہیلتھ یونیورسٹی سائنسز لاہور کے مطابق صرف لاہور میں (6) میڈیکل کالج ہیں جن میں امیر الدین میڈیکل کالج، لاہور۔سروسز انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز ،لاہور ۔شیخ خلیفہ بن زید النہیان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ،لاہور ۔علامہ اقبال میڈیکل کالج ،لاہور ۔فاطمہ میڈیکل کالج یونیورسٹی (برائے خواتین )،لاہور ۔گنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی ،لاہور شامل ہیں۔اسی طرح یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور کاریکارڈ بتاتاہے کہ صرف لاہور میں پرائیوٹ میڈیکل کالجوں کی تعداد (12 )ہے جن میں اختر سعید میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ۔لاہور،العلیم میڈیکل کالج ،لاہور ۔ایف ایم ایچ کالج فار میڈیسن اینڈڈینٹسڑی ،لاہور۔ابو سینا میڈیکل کالج ،لاہور۔راشد لطیف میڈیکل کالج لاہو۔رہبر میڈیکل کالج ،لاہو۔،راشد لطیف میڈیکل کا لج لاہور،سینٹرل پارک میڈیکل کالج لاہور۔شالامار میڈیکل کالج اینڈ دینٹل کالج لاہور ۔شریف میڈیکل کالج اینڈ ڈینٹل کالج لاہور۔ عذرا ناہید میڈیکل کالج اینڈ ڈینٹل کالج لاہور ۔ یونیورسٹی کالج آف میڈیسن اینڈ ڈیئنسڑی لاہور شامل ہے ۔اسی طرح صرف لاہور میں ہی پرائیوٹ ڈینٹل کالجوں کی تعداد (5) ہے جن میں ڈنیٹل سیکشن اختر سعید میڈیکل اینڈ ڈنیٹل کالج لاہور ۔ڈنیٹنل سیکشن شریف میڈیکل اینڈ ڈنیٹل کالج لاہور۔ڈنیٹل سیکشن ایف ایم ایچ کالج آف میڈیسن اینڈ ڈینسٹری لاہور۔ڈنیٹل سیکشن لاہور میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج لاہور ۔ڈنیٹل سیکشن ،یونیورسٹی آف میڈیسن اینڈ ڈیئنسٹری لاہور شامل ہے ۔یہاں اس بات کا دھیان رہے کہ جتنے میڈیکل کالج لاہور میں ہیں ان کیساتھ اتنے ٹیچنگ ہسپتال موجود ہیں ۔مطلب لاہور میں ہی سرکاری او ر پرائیوٹ میڈیکل اور ڈنیٹل کالجوں کی تعداد 23 بنتی ہے تو (23) ٹیچنگ ہسپتال ہیں ۔ اس ساری صورتحال میں ریاست اور وفاقی دارلحکومت اسلام آباد اور صوبائی دارلحکومت لاہور کے حکمرانو ں سے سمجھنا یہ تھاکہ آخر تھل کے (7 ) اضلاع میں ایک میڈیکل اور ڈنیٹل کالج کے علاوہ ٹیچنگ ہسپتال نہ بنانے میں کیا راز پوشید ہ ہے ؟ اور صرف لاہور میں (23) پرائیوٹ اور سرکاری میڈیکل اور ڈنیٹل کالجوں کے علاوہ (23 ) ٹیچنگ ہسپتال بنانے کیوں ضروری ہیں ؟ اس صورتحال میں وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کے انداز حکمرانی پر بات کرنایوں ضروری ہے کیوں کہ موصوف کے بارے میں تسلسل کیساتھ یہ بتایاجارہاہے کہ ان کاتعلق جنوبی پنجاب سے ہے ۔ادھر پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور وزیراعظم عمران خان کا بھی کہناتھاکہ وہ یہاں کے مسائل کو بخوبی سمجھتے ہیں، وغیرہ وغیرہ لیکن بصد احترام راقم الحروف وزیراعظم عمران خان کی بات سے اتفاق نہیں کرسکتاہے ۔اگروزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کو محرومیوں کا احساس ہوتاتو وہ تھل جیسے پسماندہ علاقہ کے بارے میں پہلی فرصت میں معلومات حاصل کرتے اور "تھل "کو ملتان ،ڈیرہ غازی خان ،بہاول پور بالخصوص لاہور کے برابر لانے کیلئے ترقیاتی پیکج کا اعلان کرتے اوروزیراعظم عمران خان کی اس بات کو سچ ثابت کرتے کہ عثمان بزدار محروم علاقوں کی محرومیوں کو بخوبی جانتے ہیں ۔