لاہور۔ سینئر صحافی انصار عباسی نے تہلکہ خیز دعویٰ کیا ہے کہ گندم کے بحران کی جڑیں پنجاب کے وزیراعلیٰ ہاوس میں موجود ہیں۔ ان کے بقول وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے محکمہ خوراک کے اختیارات میں مداخلت کی اور گزشتہ سال گندم کی خریداری کے بعد کئی اضلاع میں سیاسی بنیادوں پرگریڈ 16 اور 17سے تعلق رکھنے والے ”ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولرز“ کے تبادلے کئے۔اور اسی بات کو گندم بحران کے حوالے سے ہونے والی بدانتظامی کی ایک اہم وجہ قراردیا جاررہاہے۔
انگریزی اخباردی نیوز میں شائع ہونے والیرپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انہیں 2019میں پنجاب کے سیکرٹری خوراک کی جانب سے پیش کردہ دوسرکاری سمریوں تک رسائی حاصل ہوئی ہے جن میں فود ڈیپارٹمنٹ کے انیس افسروں کے صوبے کے مختلف ضلعوں میں تبادلے کا مطالبہ کیاگیاتھا۔رپورٹ کے مطابق ضلعی فوڈ افسر کے تبادلے کا اختیار سیکرٹری خوراک کے پاس ہوتا ہے لیکن تقرریاں وزیراعلیٰ پنجاب نے کیں۔
ضلعی خوراک افسر محکمہ گندم سے متعلق کا رکردگی کا اہم ترین شخص سمجھا جاتا ہے کیونکہ پورے ضلع میں خوراک کا محکمہ اس کے ماتحت ہوتا ہے۔دی نیوز کے مطابق ان سمریوں کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ نے گندم کی خریداری مکمل ہونے کے فوراً بعد ٹرانسفر اور پوسٹنگ کے معاملات میں زبردست مداخلت کی۔
رپورٹ کے مطابق سمریوں سے پتہ چلتا ہے کہ سیکرٹری فوڈ نے ان تبادلوں کے لئے تصدیقی سمری بھیجی جس پر اختیارات نہ ہونے کے باوجود وزیراعلیٰ پنجاب نے دستخط کئے۔تبادلے کروانے والے ان افسروں میں سے بیشتر نے بے روک ٹوک اور بے تحاشا گندم کے ذخائر جاری کئے جو اس بحران کی وجہ بن گئے۔
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ یہ تبدیلیاں اس لیے کی گئیں کیونکہ انتہائی پیشہ ور اور ایماندار سیکریٹری نسیم صادق نے یہ کام کرنے سے انکار کر دیا اس لیے انہیں سیکریٹری فوڈ لگائے جانے کے دو ماہ بعد ہی تبدیل کر دیا گیا۔ ایک ذریعے نے کہا کہ گندم کے بحران کی جڑیں بزدار کے دفتر میں موجود ہیں، فوڈ ڈپارٹمنٹ کے خالصتاً انتظامی معاملات میں وزیراعلیٰ کی غیر قانونی مداخلت کی وجہ سے اس قدر بڑے پیمانے پر بد انتظامی ہوئی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر کا عہدہ پرتعیش سمجھا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ طرز حکمرانی اور سیاسی مداخلت کا عالم یہ ہے کہ راولپنڈی جیسے اہم ترین شہر میں فوڈ ڈپارٹمنٹ کا سربراہ ایک ٹیچر ہے یعنی محکمہ تعلیم کا ملازم۔ڈی ایف سی کسی بھی شہر میں گندم کے سرکاری ذخائر کے انتظامات دیکھنے والا اہم عہدیدار ہوتا ہے اور اسلئے اسے فلور ملوں کو جاری کردہ گندم کے ذخائر کے انتظامات سنبھالنا ہوتے ہیں اور ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ مارکیٹ میں گندم کے ذخائر دستیاب رہیں، اس کے علاوہ وہ گندم اور آٹے کی اسمگلنگ روکنے کیلئے اقدامات کا ذمہ دار بھی ہوتا ہے۔ایسی اہم ذمہ داریوں کے ساتھ، ڈی ایف سی کا عہدہ خوراک کے تحفظ کے اقدامات میں انتہائی اہمیت کا حامل بن جاتا ہے۔
رپورٹ 11 جولائی 2019ءکو ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر (گریڈ 17) اور اسٹوریج افسر(گریڈ 16) کے ٹرانسفر / پوسٹنگ کے احکامات کی تصدیق کیلئے وزیراعلیٰ سے منظوری کی سمری آگے بڑھائی گئی جس میں بہاول نگر، ملتان، راولپنڈی، میانوالی، شیخوپورہ، منڈی بہا الدین، گجرانوالہ، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور ساہیوال وغیرہ کے مذکورہ افسران کیلئے سی ایم کی منظوری حاصل کی گئی۔ یہ وہ وقت تھا جب صوبے میں گندم کے ذخائر کی خریداری کے بعد اسٹاک جاری کرنے کا وقت ہوتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ان تمام اضلاع میں ڈی ایف سیز اور کی ٹرانسفر اور پوسٹنگ کو انتہائی پر تعیش سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک اور سمری 6 اگست 2019ءکو فوڈ سیکرٹری ظفر نصر اللہ نے وزیراعلیٰ سے تصدیق کیلئے بھیجی جس میں جہلم، بہاولپور، بھکر، لیہ، خانیوال اور فیصل آباد میں ڈی ایف سیز کے ٹرانسفر / پوسٹنگز کی بات کی گئی۔
ذرائع کے مطابق، جو طریقہ ان ٹرانسفر / پوسٹنگ کیلئے اختیار کیا گیا وہ یہ تھا کہ یہ تبادلے متعلقہ سیکرٹری نے وزیراعلیٰ کے زبانی / ٹیلیفونک رابطوں کے تحت ہوئے جو ان تک ان کے پرنسپل سیکرٹری نے پہنچائے اور بعد میں سمریوں پر وزیراعلیٰ آفس کی جانب سے تصدیق بھی کی گئی۔ دونوں سمریوں پر وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری، جو سمریوں پر وزیراعلیٰ کے احکامات ریکارڈ کرتے ہیں، نے عثمان بزدار کے یہ احکامات درج کیے۔
”وزیراعلیٰ نے سمریاں دیکھ لی ہیں اور انتہائی مسرت کے ساتھ انہیں منظور کرتے ہیں۔“ یہ وزیراعلیٰ پنجاب کی فوڈ ڈپارٹمنٹ کے انتظامی امور میں مداخلت کی باضابطہ تصدیق ہے۔ قواعد کے مطابق ڈی ایف سیز (گریڈ 17 کا عہدہ) کی پوسٹنگ / ٹرانسفر کا اختیار سیکرٹری فوڈ کے اختیار میں ہے اور یہ ان ہی کی ذمہ داری ہے۔
لیکن اس کیس میں وزیراعلیٰ نے یہ اختیار چھین کر من پسند افراد کو 12 سے زائد اضلاع میں قواعد و ضوابط کا خیال رکھے بغیر مقرر کر دیا۔ ایک سرکاری ذریعے کے مطابق، کچھ وقت کیلئے وزیراعلیٰ نے ٹرانسفر اور پوسٹنگ پر پابندی عائد کر رکھی تھی اور یہ اپائمنٹ اسی صورتحال کا نتیجہ ہو سکتے ہیں۔ تاہم، سمری میں کسی طرح کی پابندی کا ذکر ہے اور نہ ہی پابندی ہٹانے کی بات کی گئی ہے، بس اس میں صرف تصدیق کی بات لکھی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ کی جانب سے کی گئیں ان متنازع تقرریوں اور تبادلوں کے بعد اس وقت کے سیکریٹری فوڈ نسیم صادق، جو فی الوقت ڈی جی خان میں کمشنر ہیں، کو تقرری کے دو ماہ بعد ہی تبدیل کر دیا گیا۔ صادق اچھی ساکھ کے حامل افسر ہیں اور ان کے ساتھی انہیں نتائج فراہم کرنے والا شخص سمجھتے ہیں اور وہ کوئی نان سینس ٹائپ کے افسر نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ فوڈ ڈپارٹمنٹ کے انتظامی امور میں زیراعلیٰ کی مداخلت قبول نہ کرتے۔ صادق نے تمام ڈی ایف سیز کو میرٹ پر مقرر کیا تھا۔
انہوں نے ایسی فلور ملز کو مشکوک انداز سے فراہم کی گئی گندم کے حوالے سے بھی انکوائری کرائی تھی جن کے متعلق شک تھا کہ وہ گندم پسائی کی بجائے اسمگلروں کو بیچی جا رہی ہے۔ پنجاب حکومت اور فوڈ ڈپارٹمنٹ میں خدمات انجام دینے والے ایک سرکاری عہدیدار کا کہنا تھا کہ مذکورہ افسران کی سیاسی بنیادوں پر تقرری اور بزدار کی جانب سے کیے جانے والے دیگر اقدامات پنجاب اور ملک میں گندم کے بحران کی وجہ ہیں۔ ذریعے نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اسی بات نے فوڈ ڈپارمنٹ میں کرپٹ اقدامات اور بد انتظامی کی بنیاد رکھی۔
رابطہ کرنے پر پنجاب حکومت کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ پنجاب حکومت میں تمام اقدامات قانونی پہلوﺅں کا جائزہ لینے کے بعد کیے جاتے ہیں اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار وزیراعظم میرٹ کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تمام اداروں میں شفافیت کے اصولوں کو برقرار رکھا جا رہا ہے اور اداروں میں اصلاحات کیلئے بہترین اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار تمام اقدامات اور فیصلے اداروں کی بہتری اور عوامی مفادات کو مد نظر رکھ کر کرتے ہیں۔