سیاست کا چولہا بھر پور تپا ہوا ہے، حالات کی چوانتیاں ہر طرف سے بڑھ چڑھ کر اسے بھڑکارہی ہیں. پر سانوں کیہہ! ایک یہی ادھورا جملہ زندگی میں قدرے راحت کا سامان ہے ورنہ تو ہر طرف آگ لگی ہوئی ہے. ویسے دیکھا جائے تو آگ، حرارت اور حرکت زندگی کے بنیادی اجزا ہیں جن کے بغیر جینا مشکل ہے اور توہم پرست ہندو کی تو زندگی کا آغاز و انجام نار اور ناری کے ساتھ جڑا ہوا ہے.
جنوبی پنجاب میں سردی کم اور دیر سے آتی ہے جبکہ گرمی کا ڈیرہ زیادہ دیر آباد رہتا ہے. ہمیں بھی ڈیرہ یعنی ڈیرہ غازیخان پھلاں دا سہرا میں رہتے ہوئے دو سال سے زیادہ گزرگئے ہیں. یہاں گرمی کے ساتھ دھول، مٹی اور گندگی کے کئی سلسلہ جات ہیں. آج ان پر بات نہیں کریں گے کہ یہ زندگی بن چکا ہے. زندگی کو بار بار شرمندگی کے ہار پہنانا اچھا نہیں ہوتا. بس صبر و شکر کے ساتھ وقت گزارو بھلے یہ عالم بے بسی کا "بھوگا”نہ جائے.
شرارت بھی زندگی کا حسن ہے. صرف اصلاحی و فلاحی تحریر و گفتگو سے زندگی کا حسن پھیکا پڑجاتا ہے. کبھی کبھی اس میں ایسی فکاہیہ رنگ
بازی بھی ہونا چاہیئے اور رنگ بھی ایسے کہ
رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے
ہرارنگ تو سبھی کو بھلا لگتا ہے آج ہرے رنگ کا ہرا، ہرا ساگ اور اس کی رال ٹپکاتی خوشبو نے خوب مزہ کیا ہے اس لیے آپ کو بھی شریک لذت کرتے ہیں. بہت سال پہلے ملکہ ترنم نورجہاں نے کیا کمال کا گیت گایا تھا کہ
گندلاں داساگ تے مکھن مکئی ردھ کے لے آئی آں میں سجناں دے لئی
لسی اتے مکھن دا پیڑا پیا تردا ہتھیں میں کھواواں تینوں جی میرا کردا
اس منظر اور لذت سے آج کے بچے کم ہی واقف ہیں خاص طو رپر بڑے شہروں میں رہنے والے برگر بچے جن کے ہاں فاسٹ فوڈ نے ڈیرے بلکہ پنجے جما دیئے ہیں انہیں کیا خبر کہ گندلاں دا ساگ، مکھی اور مکئی دی روٹی کی کیا لذت و طاقت ہے او ربھی اگر چاہنے والو ں کے ہاتھوں سے لقمہ بہ لقمہ مل رہی ہو تو…..
۲
مکئی کی روٹی وسطی او ربالائی پنجاب کا کلچر ہے ہم جنوبی پنجاب کے وسنیکی باجرے دی روٹی جسے ہمارے ہاں ڈوھڈا کہتے ہیں نہایت لذت آمیز او رطاقت خیز ڈش ہے، سے جان بناتے رہے ہیں. جوار بھی ایک اناج ہے. لیہ، بھکر، سرگودھا اور میانوالی کے علاقوں میں اب بھی جوار اور باجرہ کے مکس آٹے کی روٹی ڈوھڈا جو توانائی عطا کرتا ہے اس کے بعد عقد ثانی تقریبا لازمی ہو جاتا ہے. خیر! دل نہ جلائیے جو حسب حال دستیاب ہے اسی پر اکتفا کریں. لذتوں کے چکر میں خواری کے اچار سے دور رہیں توبہتر ہے.
ہم گئے دنو ں کے لوگ حیرت زدہ ہیں کہ بدیسی مرغی یعنی برائلر چکن پر پوری دنیا خاص طو رپر ہماری نئی نسل دن میں کئی دفعہ ہاتھ صاف کرتی ہے. ایسی ناتواں مخلوق پر انحصار……..؟ جو اپنے پیرو ں پر کھڑی نہیں ہو سکتی آپ کو زمانے میں سر اٹھا کر جینے کی طاقت کیسے دے سکتی ہے محض پینتیس دن کی پیداوار جوجہاں بھر کے فضول و نکمے اجزاء پر پل بڑھ کر خاموشی سے جاں دے دیتی ہے آپ کی اور ہماری جان میں کس طرح جان ڈال سکتی ہے. اس غیر فطری خوراک پر پوری قوم کا تکیہ ہے بلکہ اب تو اوڑھنا، بچھونا بھی ہے، اللہ معاف فرمائے.
اے کاش! آزادی مارچ او رلانگ مارچ کی طرح ان بن باپ کی مرغیوں کے خلاف بھی مارچ ہو جو زندگی کو عملی طو رپر مفلوج کیے جا رہی ہیں. اس جھوٹ کے خلاف بھی مارچ ہو جس نے ہمیں ہر مقام پر رسوا کر رکھا ہے. اس ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف بھی مارچ ہونا چاہیئے جس نے ذخ یرہ ء مال و زر کے سبب رشتے، ناطے، احساس، ہمدردی، خدمت و محبت کو زیر زمین کر دیاہے. رشوت ستانی، اقرباء پروری اور ناانصافی کے خلاف بھی ملین، بلین اور ٹریلین مارچ ہو جو بائیس کروڑ عوام کو معاشرہ اور قوم نہیں بننے دے رہا.
ہمارے خیال میں وہی ماضی جس میں احترام و محبت کی پینگیں ڈالی جاتی رہی ہیں پھر سے ٹاہلی اور پیپل کی چھاؤں تلے آباد کرنا ہوں گی. درخت و جنگل کاٹ کر شہر آباد کرنے والوں کو سوچنا چاہیئے کہ محلے کی تنگ گلیوں اور دیہا ت کی مٹی بھری پکڈنڈیوں پر زندگی کتنی پرسکون تھی. آبادیوں کا نیا کلچر اس کی خاک کو بھی نہیں پہنچ سکتا جہاں سب مکین مکانوں سے باہر نہیں جھانکتے ہیں جہاں نہ ساگ اور دال کو تڑکا لگانے کی خوشبو آتی ہے، نہ ہی لسی مکھن بانٹا جاتا ہے. دنیا کے ترقی یافتہ معاشرے نام نہاد ترقی سے تنگ آ کر ایک بار پھر ماضی کی طرف لوٹ رہے ہیں، تو ہم بھی لوٹ آئیں اس خوبصورت ماضی کی طرف جس میں "گندلاں داساگ تے مکھن، مکئی "کی بھینی، بھینی خوشبو سب کو ایک چولہے کے گرد جمع کردیتی تھی. ایک ہونا اصل میں نیک ہونا ہے. اس سردی یعنی سیالے کے موسم میں قربتیں بڑھائیں، زندگی اسی کا نام ہے.
bhatticolumnist99@gmail.com