صبح سے ہی اس کی طبیعت بوجھل تھی ۔ناشتے کے ٹیبل پر سلائس پر جیم لگا کر بابا نے اسے تھمایا ۔”کھا لو بیٹا جلدی سے اور سکول سے واپسی پہ آنی کے گھر چلے جانا ۔میں وہاں سے آپ کو لےلوں گا ۔شام کو مما کو دیکھنے ہاسپٹل چلیں گے“۔بابا ماما کب أٸیں گی اور بھیا بھی آئے گا ناں ؟ چھ سالہ مانیہ نے اشتیاق سے پوچھا ۔بالکل جانی اللہ میاں نے آپ کے لیے تو بھیا بھیجنا ۔بابا نے مسکرا کر اس کا گال چوما ۔بابا فیری لے کے آئے۔گی ناں ؟ ہمم اچھا چلو جلدی سے بیگ اٹھاؤ آپ کو سکول چھوڑوں ۔اور یاد سے واپسی پر آنی گھر جانا ہے۔ بابا نے اس کا ہاتھ تھاما ۔بابا آج لاسٹ ڈے ہے کل سے سمر وکیشن ہیں ۔ اس کی آنکھوں کے جگنو چمکے ۔
اسمبلی ختم ہوئی اور وہ کلاس میں آگئی ۔وع شدت سے ننھے سے بھیا کی منتظر تھی آج اس کا دل پڑھائی میں نہیں لگ رہا تھا کچھ بے چینی اس درد کی بھی تھی جو وقفے وقفے سے پیٹ میں اٹھ رہا تھا رات اس نے برگر کھایا تھا ۔شاید وہ باسی تھا ۔چھٹی سے کچھ دیر پہلے اسے متلی محسوس ہو رہی تھی ۔میم نے بیگ کلوز کروائے اور بچوں کو کلاس سے باہر کوریڈور میں لائن میں جانے کو کہا ۔مانیہ تھوڑی دیر تو چپکی بیٹھی برداشت کرتی رہی پھر واش روم کی طرف بڑھ گئی ۔ابکائیوں نے اس کی حالت بری کردی دو دفعہ اسے الٹی آئی اور وہ نڈھال ہو گئی ۔وہ واش روم کے دروازے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی پشت پر ٹنگے بیگ سے رومال نکالا اسے بے انتہا چکر آرہے تھے ۔اس کی آنکھیں غنودگی سے بند ہو رہی تھیں ۔
اسے ہوش آیا تو ہر طرف گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔وہ ہڑبڑا گئی ہمت کر کے اٹھی اور دروازے تک پہنچی بڑا دروازہ لاک تھا ۔اس نے زور سے دروازہ بجایا ۔کھولو دروازہ کھولو وہ چلائی ۔خاموشی نے اسے خوفزدہ کر دیا ۔وہ رونے لگی ماما بابا ۔ ۔ سسکیاں ۔ ۔ جواب خاموشی ۔ ۔روتے روتے اس کا حلق خشک ہو چکا تھا ۔آنسوؤں کے نشان گالوں کے مرجھائے گلابوں پر گہرے ہو گئے ۔اب تو اندھیرا ہو رہا تھا ۔اسکا ننھا سا دل ڈولنے لگا ۔ماما بابا مجھے نکالو ۔ وہ پھر سسکیاں بھرنے لگی ۔جسم کی توانائی گویا قطرہ قطرہ نچڑ رہی تھی .اس نے بستے سے پینسل نکالی اور دیوار پر لکھنے لگی بابا ماما آجاؤ ۔بھائی میرا بھائی ۔مانیہ رو رہی ۔بابا آجاؤ مانی کو لے جاؤ ۔اسکی ہچکیاں بندھ گئیں پھر دروازہ دھڑ دھڑانے لگی کھولو ما ما ۔ٹیچر مجھے ڈر لگ رہا ۔بابا پلیز آجاؤ میں نے بھیا دیکھنا ۔ مجھے بھوک لگی ہے ماما ۔وہ پھر نڈھال ہو چکی تھی۔ گھپ اندھیرا اور ننھی سی جان خوف رگ وپے میں سرائیت کر رہا تھا اور لمحہ بہ لمحہ وہ موت کی آغوش میں جا رہی تھی ۔آٹھ پہر کی بھوکی بیمار معصوم جان اپنی ماما اور بابا کو پکارتی ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی ۔
دیکھیے میری بچی گھر نہیں پہنچی آپ سکول چیک تو کریں ۔احمد رضا حواس باختہ ہو کر پرنسپل کے گھر بیٹھے تھے۔دیکھیں سر چوکیدار نے چیک کر کے لاک لگایا تھا ۔بحر حال میں پھر آپ کی تسلی کے۔لیے اسے کہتا ہوں ۔انہوں نے ماجد خان کو کال کی ۔ہیلو ہاں ون کلاس کی بچی مانیہ احمد والا معاملہ ہے ایک دفعہ پھر کلاس روم چیک کریں اور مجھے ابھی بتائیں۔اوکے ۔دس منٹ بعد کال بیل بچی ہیلو اچھی طرح دیکھا ہے ناں؟ اوکے ۔دیکھیں سر چوکیدار نے دوبارہ چیک کیا ہے ۔آپ رشتہ داروں سے پتہ کریں بچی کسی کے گھر چلی گئی ہو گی۔
آہ میری مانی آج دو ماہ بیت گئے کہاں گئی میری بچی ۔کاش میں خود اسے اسکول لینے چلا جاتا ۔احمد پشیمان اور افسردہ راحیلہ غم سے نڈھال کوئی پتہ نہیں کہیں پتہ نہیں ۔
چھٹیاں ختم ہو گئیں اماں سبھاگی کل سے اسکول کھا جانا جاؤ آج ساری صفائی کر دو اسکول کی ۔پرنسپل نے ملازمہ کو چابیاں پکڑاتے ہوئے کہا۔
اماں سبھاگی کلاس روم صاف کرکے واش روم دھونے لگی لاک کھولا افف بدبو کا بھپکا آیا اس نے بے ساختہ منھ پر دوپٹہ رکھ لیا ۔سامنے ایک ننھا سا ڈھانچہ حس کے پاس ہی اس کا بستہ اور پینسل پڑی تھی ۔ ۔ اور دیوار پر تحریر تھا ۔ماما بابا آجاؤ ۔ ۔