لینڈ سکینڈل کے موضوع پر لکھے گئے میرے کالم کی صبح پا کستان فیس بک پیج پر اشاعت کے بعد ڈاکٹر عمران لودھرا نے لودھرا فیملی اور بہار خانم وغیرہ کے درمیان پلاٹ کے با ہمی تبادلہ پر مبنی کہانی کو الف لیلی کی داستان قرار دیتے ہو ئے اپنے خلاف اسے جھوٹ اور بے بنیاد پرا پیگنڈہ قرار دیا صبح پا کستان کی پوسٹ پر ڈاکٹر عمران لودھرا نے وضاحت کرتے ہو ئے اپنے کمنٹ میں لکھا کہ ڈاکٹر منظورلودھرا نے ساری عمر کی کمائی سے صرف یہ ایک پلاٹ ہاءوسنگ کا لونی سے بذریعہ رجسٹری خریدا ، تمام آ فیشل کا غذات مو جود ہیں ، ڈاکٹر عمران لودھرا اس بات کی سختی سے تر دید کرتے ہیں کہ ان کے والد مرحوم نے بہار خانم سے رقبہ خریدا یا ی قسم کا کو ئی تبادلہ کیا ، وہ مزید لکھتے ہیں کہ اصل المیہ یہی ہے کہ یہاں جھوٹ اور فراڈ اتنے وثوق اورتواتر سے کئے گئے ہیں کہ وہ سچ سے بڑھ کر لگنے لگے ۔
اچھا کیا ڈاکٹر صاحب نے اپنے موقف کی وضاحت کر دی اور مجھ سمیت بہت سوں کو پتہ چل گیا کہ ڈاکٹر منظور لودھرا نے یہ پلاٹ ہاءوسنگ سے خریدا تھا جس کی رجسٹری اور دیگر آ فیشل ڈاکومنٹ ان کے پاس مو جود ہیں ۔ ہما رے پاس ڈاکٹر عمران لودھراکی بات پر یقین نہ کرنے کا کوئی آپشن نہیں ، ہ میں ان کی بات کا احترام ہے وگرنہ شہر میں تو یہی الف لیلی کی داستاں زبان زد عام ہے جس کی طرف میں نے اپنے پہلے کالم میں تو جہ دلائی تھی اور میرے توجہ دلانے کے سبب ہی ڈاکٹر عمران کو وضاحت کا مو قع ملا ۔
میرے اسی کالم میں لکھی بقول شخصے اسی الف لیلی کی کہانی کی تا ئید و تصدیق اسی کیس میں فریق دوئم نا ئلہ سرور نے بھی کی ، انہوں نے واضع کیا کہ میری والدہ بہار خانم کو یہ رقبہ سال 1981 میں الاٹ ہوا ، ڈاکٹر منظور احمد لودھرا اور میرے والد چو ہدری سرور جو اپنی زوجہ بہار خانم کے مختیار عام تھے کے درمیان سال 1992 میں تبادلہ نامہ زرعی تحریر ہوا ، نا ئلہ سرور کا موقف ہے کہ ڈاکٹر منظور لودھرا مرحوم نے اسی ہو نے والے تبادلہ نامہ زرعی کے تحت بہار خانم کے الاٹ ہو نے والے رقبہ میں سے یہ جگہ حاصل کی جہاں ڈاکٹر مرحوم نے اپنے گھر تعمیر کئے ۔ انہوں نے میرے کالم کی تصحیح کرتے ہو ئے بتایا کہ بہار خانم کو یہ رقبہ سال 1994 میں نہیں سال1981 میں الاٹ ہوا تھا ۔ نا ئلہ سرور نے ڈاکٹر منظور لودھرا اور چو ہدری سرور کے درمیان سال 1992 میں ہو نے والے تبادلہ زرعی نامہ کی تفصیلات مجھے وٹس اپ بھی کیں ، جس کی ہم تصدیق یا تردید کرنے سے قاصر ہیں ، لیکن چو نکہ یہ تفصیلات ایک فریق مقدمہ کی طرف سے ہ میں وٹس اپ کی گئیں تو میں اسے اپنے قارئین سے شیئر کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔
یہاں ایک وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ مذ کورہ کیس کے دو نوں فریقین کے بزرگ ہمارے اساتذہ تھے ڈاکٹر مرحوم ایک وضعدار انسان دوست سیاسی سماجی کارکن تھے جب کہ چو ہدری سرور ایک سنیئر جرنلسٹ اور بہت ہی مہمان نواز شخصیت تھے سچی بات میں نے تو اپنے ان دونوں سینئر بزرگ دوستوں سے بہت سیکھا، کم ازکم میں تو ان دو نوں شخصیات بارے کچھ کہتے ہو ئے بہت محتاط ہوں ۔ آج کل سوشل میڈ یا کا دور ہے اچھے بھلے تعلیم یافتہ لوگ اختلاف رائے کی بنیاد پر قلم سے لفظوں کی جھاگ اڑاتے نظر آتے ہیں ۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ عزت اور احترام نہ بھیک میں ملتی ہے اور نہ احسان میں اور نہ ہی نام کے ساتھ لکھے بڑے بڑے سا بقے اور لاحقے لوگوں کے دلوں میں عزت و احترام کا سبب بنتے ہیں میں تو سمجھتا ہوں کہ ان سب نوازشات کا سبب پہلے رب کریم کی عطا ء اور دوسرے خالق کی مخلوق کے ساتھ بندوں کے رویے ہو تے اور بس ۔ ۔ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ ۔ مال و دولت ، اختیارو اقتدار کی مستی میں مگن بزعم خود محترم لو گوں کے بارے ہی شاید میاں محمد بخش کہتے ہیں کہ
بو ہتے یار بناون والے رہ جاندے نے کلے
اساں تاں لک لک روندے ویکھے ککھ رہیا نہ پلے
خیر ۔ ۔ ویسے یہ قصہ تو اس لئے شا مل تحریر ہو گیا کہ ڈسٹرکٹ کلکٹر کی طرف سے دیئے گئے اس بڑے فیصلہ کا پس منظر بیان کر نا مقصود تھا ۔ ہمارا اصل مدعا اور مقصد تو کراچی کے نسلہ ٹاور کے متاثرین کی طرح چا لیس سال قبل ہو نے والے مبینہ لینڈ مافیا اور سرکاری محکمہ ہاءوسنگ اور ریوینو کی ملی بھگت کے ہاتھوں لٹنے والے شہزاد کا لونی اور دیگر علاقوں میں رہائش پذیر متاثرین کی طرف حکومت کی تو جہ دلاناہے ۔
چالیس سال قبل سال 1981جب محکمہ ریو ینو اور ہاءو سنگ کی ملی بھگت سے جب یہ رقبہ بہار خانم کو الاٹ ہو گیا تو بہار خانم وغیرہ نے اس رقبہ کو فروخت کرنا شروع کر دیا ۔ یہ تو پتہ نہیں کہ ملی بھگت سے ہو نے والی اس نا جائز الاٹمنٹ کے خلاف سر کاری محکمے خصو صا ہاءوسنگ نظر ثانی اور اپیل میں کیوں نہیں گیا ، 1981 سے سال 2021 جو 40 سال کا طویل عرصہ بنتا ہے حکومت کے ذمہ دار افسران اور کسٹوڈین اربوں روپے کی اس جعل سازی پر کیوں خا موش رہے ;238; یہ ایک بڑا ، اہم اور بنیادی سوال ہے ;238; جس کا جواب دینا حکومتی ذمہ داروں کا فرض بھی بنتا ہے اور قرض بھی بنتا ہے ۔
ابھی چند ہفتے قبل ہمارے ایک سینئر جرنلسٹ نے گرلز کالج کے ساتھ کچہری روڈ اور ہاءوسنگ کا لونی لنک روڈ پر بر لب سڑک ہا ءوسنگ کی 80 کنال پر مشتمل پلاٹ کی قیمتی زمین کو مبینہ طور پر لینڈ ما فیا کو الاٹ یا ایڈ جسٹ کئے جانے کی خبر بریک کی ۔ خبر کی اشاعت کے بعد ڈپٹی کمشنراظفر ضیاء نے فوری ایکشن لیتے ہو ئے وہاں مشتری ہو شیار باش کا بورڈ لگا دیا ۔ اسی طرح سال 1981کی ایڈجسٹمنٹ کے بعد جب بہار خانم وغیرہ کا رقبہ چیلنج ہوا تھا ظا ہر ہے اس ریکارڈ درستگی کیس میں لیہ کے محکمہ مال اور ہاءوسنگ کے ذمہ داران بھی فریق مقد مہ ہوں گے ۔ اگر اسی زمانے میں اس رقبہ کو متنازعہ قرار دیتے ہو ئے اس وقت کے ڈسٹرکٹ کلکٹر اور محکمہ ہاءو سنگ کے ذمہ داران مشتری ہو شیار باش کے بورڈ لگوا دیتے تحصیل اور رجسٹرار آ فس میں متنازعہ رقبہ کی خریدو فروخت بند کرنے کے احکامات جاری کر دیتے تو شا ید لیہ کے سینکڑوں معصوم لوگ سر چھپانے اور گھر بنانے کی لالچ میں اپنی جمع پو نجیاں داءو پر نہ لگاتے ، سرکار اور لینڈ ما فیا کی ملی بھگت پر تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ
رات کو پہ لی صبح کو تو بہ کر لی
رند کے رند رہے ہا تھ سے جنت نہ گئی
چار عشروں قبل ایک ڈسٹرکٹ کلکٹر کے حکم سے زمین الاٹ اور ایڈجسٹ کر دی گئی ہمارے ہاں مروجہ سسٹم کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ الاٹ منٹ اور ایڈ جسٹمنٹ کے اس کھیل میں اس زمانے کے سبھی کھلاڑیوں نے خوب ہاتھ رنگے ہوں گے ، حصہ بقدر جثہ بھی لیا ہو گا اور مال بھی بنایا ہو گا اب 41 سال بعد ایک اور ڈسٹرکٹ کلکٹر نے مفصل بحث و تمحیص سننے اور ریکارڈ ملا حظہ کر نے کے بعد بحق ہا ءو سنگ انتقال خارج کر دیا اور سر کاری رقبہ کو واگزار کرانے کا حکم دے دیا
ہم کئی عشروں سے انو ٹیفا ئیڈ چک 123بی ٹی ڈی اے کا ڈھول پیٹ رہے ہیں ، کسے نہیں پتہ کہ اس بو گس چک کی آڑ میں کس کس نے ہا تھ رنگے ، ایم سی ہا ئی سکول کے ہندو بھراتری ٹرسٹ کی شہری اور زرعی زمین لینڈ ما فیا اور سرکاری ادارے مل کر ہڑپ کر گئے کو ئی پو چھنے والا نہیں ، مشرف دور میں ہماری درخواست اور صبح پا کستان کی سٹوری پر صدر پا کستان سیکٹریٹ کی ہدایت پر انکوائری ہو ئی ، ہمارا موقف سچ ثا بت ہوا ، انکوائری آ فیسر نے ہماے موقف کی تا ئید کی پنجاب اسمبلی میں سوالات ہو ئے لیکن کیا ہوا ?کچھ بھی نہیں ،
ملک نواز سا مٹیہ ایڈوو کیٹ لینڈ ما فیا کی ایک طویل فہرست لیے ایک عرصے سے لئے پھر رہے ہیں کبھی انٹر ویو اور کبھی پریس کانفرنسز ہر جگہ نشا ند ہی کر رہے ہیں ،بہت سے لوگوں کو یقیننا اس لسٹ پر تحفظات ہوں گے لیکن ایک ذمہ دارسا بق سیشن جج کی طرف سے سیاسی ، سماجی اور کاروباری پروہتوں کے خلاف لگا ئے گئے ان الزامات کی تحقیقات ضروری ہیں لیکن کسے فرصت ہے .
اب اگر سرکار ان الزامات کی بروقت تحقیقات نہیں کرتی اور معاملات ایسے ہی چلتے رہتے ہیں تو آ نے والے کل میں اگر مستقبل میں یہ الزامات صحیح ثابت ہو جا تے ہیں تو اس بے چاری عوام کا کیا ہو گا جنہوں نے ایسی زیر بحث متنازعہ رقبوں اور پرائیویٹ ہا ءو سنگ سو سائیٹیز میں زمین کی خریدو فروخت کی ہو گی اور یہاں ہسپتال ومکانات اور دکانات بنائے ہوں گے ;238; کیا ایسے متنازعہ معا ملات کی نشا ندہی پر بر وقت کاروائی کرنا اور عوام کی صحیح رہنمائی کرنا اور لینڈ ما فیا کی لوٹ مار سے بروقت عوام کو بچا نا سرکار کی ذمہ دار اور سر کاری اداروں کا فرض نہیں .
ڈاکٹر عمران لودھرا بنام نا ئلہ سرور وغیرہ کیس میں ڈسٹرکٹ کلکٹر لیہ کا فیصلہ بلا شبہ لیہ کی تاریخ کا ایک بڑا فیصلہ ہے ، اس فیصلہ سے جہاں محکمہ ہاءوسنگ اربوں روپے کی 124کنال قیمتی اراضی کا مالک تسلیم ہوا ہے وہاں اسی محکمہ کی غفلت اور ملی بھگت سے متاثرہ والے خاندانوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے ۔ انصاف کا تقاضہ تو یہ تھا کہ ڈسٹرکٹ کلکٹر صاحب اپنے فیصلہ میں ان متا ثرین کے حقوق کے تحفظ کی بات بھی کرتے جو سر کاری اداروں اور لینڈ ما فیہ کی ملی بھگت کا شکار ہو ئے ، لیکن ہمارے نا منصفانہ نظام انصاف میں ایسا عوام دوست رویہ کم ہی نظر آ تا ہے ۔
انصاف کا تقاضہ ہے کہ حکومت چا لیس سال قبل ہو نے والے محکمہ ہاءوسنگ ، محکمہ مال کے کرپٹ افسران و اہلکاران اور لینڈ ما فیا کی ملی بھگت سے ہو نے والے متاثرین کی بھی اشک شوئی کریں اور وزیر اعظم پا کستان عمران خان اور وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان خان بزدار متعلقہ سر کارہ محکموں کو ان متاثرہ خاندانوں کی خریدے ہو ئے پلاٹس جو اب محکمہ ہاءوسنگ پنجاب کی اراضی کا حصہ ہیں کو ریگولرائز کر نے کا حکم دیں ۔ یہی قرین انصاف ہے
کالم ہذا کی پہلی قسط پڑھنے کے لئے لنک وزٹ کریں ، شکریہ