لوگوں سے وہ سوال نہ کرو جو خدا نے انسانوں سے کرنے ہیں مثلاً
تمہارا مذہب کیا ہے , ;تم نے عبادت کی, تم نے روزہ رکھا
لوگوں سے وہ سوال کرو جو انسان کو انسان سے کرنے چاہئے ہیں مثلاً
کیا تمہیں کوئی پریشانی ہے , کیا تم بھوکے ہو , کیا تمہیں کچھ چاہیے ہے
یہ محض اتفاق یاحسن اتفاق نہیں بلکہ اللہ تعالی کا خاص کرم ہے , سرکار نے عام آدمی کے درمیان آ کر وہ تاریخی اصلاحی اقدامات کیے ہیں جن کی مثال ماضی میں دور ،دور تک نہیں ملتی مثلا آن لائن فردملکیت کا اجراء اور اراضی سے متعلق معلومات کی گھر بیٹھے دستیابی ،کاشتکاروں کو قرضوں کی فراہمی کیلئے ون ونڈو آپریشن کا آغاز،بنکوں کو قرضہ جات کے اجراء کیلئے فرد ملکیت اور برانچ کی سطح پر انتقالات کے آغاز کیلئے ڈیجیٹل لینڈ ریکارڈ تک رسائی کی سہولت، اربن لینڈ ر یکارڈ اور پنجاب بھر کے نقشوں کی عکسبندی، عمل رہن اور رہن سے متعلق اراضی کے مالکانہ حقوق کے اجراء کیلئے قانون سازی و اصلاحی ترامیم، , رشوت ستانی او ربدعنوانی جیسے عنصر کے خاتمے او ر سٹیمپ ڈیوٹی خوردبرد کے سدباب کیلئے سٹیمپ ایکٹ 1899 میں ضروری ترامیم ، عوامی سہولیات کی فراہمی میں شفافیت کو یقینی بنانے اور انتظامی امو رکو بطریق احسن انجام دینے کیلئے ضلع ڈیرہ غازیخان میں نئی تحصیل کوہ سلیمان کا قیام،صوبہ میں 115اضافی اراضی ریکارڈ سنٹر کا قیام،تارکین وطن کیلئے سفارتخانوں کی وساطت سے لینڈ ریکارڈ سروسز کی فراہمی کے اقدامات .
اطلاع ملی ہے کہ 2012 میں ہندوستان میں پہلی اور سب سے بڑی ;34;کاروباری یونیورسٹی;34; کا آغاز ہونے جارہا ہے ۔ 2015 میں ہندوستان کے 45 بڑے کاروباری دماغ سر جوڑ کر بیٹھے اور انہوں نے سوچا کہ اگر ہم نے آج ہیومن ریسورس پر انویسٹمنٹ نہ کی تو کل کو ہمارا ملک اور کاروبار دونوں تباہ ہو جائیں گے ۔ ان تمام تاجر حضرات نے اپنی زندگی کی سب سے بہترین سرمایہ کاری کا آغاز کیا اور دو ہزار کروڑ روپے سے ;پلکشا; یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھ دیا ۔ اس یونیورسٹی کے طلبہ وطالبات کا کام نوکری کا حصول نہیں بلکہ نئے اور اچھوتے بزنس کا آغاز کرنا ہے ۔ اس کا سنگ بنیاد رکھنے والے چاہتے ہیں کہ 2031 تک پورے ہندوستان میں کم از کم ہزار نئے اسٹارٹپس شروع کیے جائیں اور ایسا کرنے والے پلکشا یونیورسٹی کے ہونہار طالبعلم ہوں ۔
یہ اس روایتی تعلیم اور تعلیمی نظام کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو نوجوانوں کو غلامی اور نوکری کے لئے تیار کرتا ہے پوری دنیا میں ایم;245; بی;245; اے تک میں یہ سکھایا جاتا ہے کہ دوسروں کی غلامی آپ کیسے بہتر انداز میں کر سکتے ہیں ، لیکن اپنا بزنس کیسے ڈویلپ کرنا ہے اس معاملے میں پورا نظام تعلیم سرے سے خاموش ہے ۔ ان 45 چیف ایگزیکٹیوز نے طے کر رکھا ہے کہ وہ دنیا کے بہترین دماغوں کو اس یونیورسٹی میں لے کر آئیں گے ۔ اس کام کے لیے انہوں نے ایم آئیطٹی، بارکلے، پنسلوانیا اور پرڈیو یونیورسٹیز سے معاہدے کر لیے ہیں جب کہ گوگل اور ۲ آئی بی طایم پلکشا کو آئی ٹی سپورٹ فراہم کریں گے
ہمارا تعلیمی نظام بدقسمتی سے تین قسم کے مائنڈ سیٹس پیدا کر رہا ہے ۔ ایک وہ مائنڈ سیٹ ہے جو اپنا پیٹ پالنے کے لیے پڑھ رہا ہے یہ ;34;آرڈینری انکم کے لیے خود کو تیار کر رہے ہیں ، ان کو 9 سے 5 کے لیے تیار کیا جا رہا ہے ۔ ان بیچاروں کا اپنی صلاحیتوں ، بے پناہ خوبیوں اور اپنی استعداد کار سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ یہ جیتے ہیں تو نوکری کی حسرت کے لئے اور زندہ رہتے ہیں تو غلامی کے لیے ۔
دوسرا مائنڈ سیٹ ;پورٹ فولیو انکم کے لئے تیار ہو رہا ہے ۔ یہ ڈاکٹر بن کر نوٹ چھاپنا چاہتے ہیں یا وکیل بن کر بکناچاہتے ہیں یا پھر اپنی کوئی دکان لگا کر کچھ بیچنا چاہتے ہیں ۔ تیسری قسم کا مائنڈ سیٹ وہ ہے جو پیسے کے لئے تیار ہو رہا ہے یہ بیٹھ کر پیسہ کمانا اور کھانا چاہتا ہے ۔ یہ بلڈنگ پر بلڈنگ اور زمین پر زمین خریدتے ہیں اور اس طرح گھر بیٹھے ایک گژری لاءف انجوائے کرتے ہیں ۔ اگر یہ تینوں کام حلال طریقے پر اور جائز انداز سے ہوں تو ان میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن میرا موضوع اور مضمون یہ تینوں ہی قسم کے مائنڈ سیٹس نہیں ہیں ۔
چوتھی قسم کا مائنڈ سیٹ جس سے ہمارا تعلیمی نظام، ہمارے والدین، ہمارے اساتذہ اور ہمارا معاشرہ سب کے سب نابلد اور عاری ہیں وہ آئیڈیازکا مائنڈ سیٹ ہے اور ہندوستان کے کاروباری حضرات نے اس کام کا بیڑا اٹھا لیا ہے کہ وہ چوتھا مائنڈ سیٹ پیدا کریں ۔ یہ سوشل انٹرپرینورز ہیں ۔ یہ عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر امجد علی ثاقب اور ڈاکٹر عبدالباری جیسے لوگ ہیں یہ معاشرے کے درد کو اپنا درد اور قوم کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتے ہیں ۔ یہ بل گیٹس، مارک زکر برگ اور اسٹیو جابز جیسے لوگ ہیں ، یہ معاشرے کی دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھتے ہیں ۔ یہ سارے ہی لوگ چوتھے مائنڈ سیٹ کے لوگ ہیں یہ آئیڈیازپر کام کرتے ہیں ، یہ پیسے کے بجائے آئیڈیازکے پیچھے بھاگتے ہیں یہ اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنی بے شمار خوبیوں اور لامحدود استعداد کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں اورخوشیاں پیدا کردیتے ہیں ۔
یہ ایدھی فاوَنڈیشن بنا کر لوگوں کے دکھ درد بانٹتے ہیں تو کوئی فیس بک بنا کر لوگوں کو آپس میں جوڑنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اگر کوئی مفت اسپتال چلاتا ہے تو کوئی اور ساری دنیا کو ایک کلک کے فاصلے پر لے آتا ہے، کوئی لوگوں کو بلا سود قرضہ حسنہ دیتا ہے تو کوئی اور اس کے لئے سسٹم ڈویلپ کر دیتا ہے ۔
یہ تو خیر ان ہندوءوں کامعاملہ ہے جن کی صرف دنیا ہے او رآخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہمارے سادہ مزاج مگر نہایت صاف ستھری سوچ رکھنے والے وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان احمد خان بزدار نے اپنے آبائی علاقے بارتھی ، تونسہ شریف ڈیرہ غازیخان میں جدید علوم کے حصول کیلئے انٹر نیشنل یونیورسٹی کے قیام کا صرف اعلان ہی نہیں کیا بلکہ اس کیلئے ابتدائی تیاریاں مکمل کر لی ہیں یقین ہے کہ رواں مالی سال کے دوران اس یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھ دیا جائے گا
ہمارے ساتھ ماضی میں ہوا کیا شیخ صاحب اپنے شہ زور ٹرک پر بیٹھ کر شہر کے چوک میں پہنچے اور لگے وہاں بیٹھے مزدوروں کو آوازیں دینے: کون کون جانا چاہتا ہے میرے ساتھ مزدوری پر، دو دو سو روپے دیہاڑی دونگا ۔
۳
پہلے پہل تو لوگ شیخ صاحب پر خوب ہنسے، پھر اسے سمجھانے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ جناب والا: آجکل مزدور کی دیہاڑی پانچ سو روپے سے کم نہیں ہے ۔ کیوں آپ ظلم کرنے پر تْلے ہوئے ہیں ، کوئی نہیں جائے گا آپ کے ساتھ ۔ نہ بنوائیے اپنا مذاق ۔
شیخ صاحب اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور سْنی ان سْنی کر کے مزدوروں کو اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دیتے رہتے ۔ شور کم ہوا اور بہت سارے مزدور تھک کر واپس جا بیٹھے تو تین ناتواں قسم کے بوڑھے مزدور، جن کے چہروں سے ہی تنگدستی اور مجبوری عیاں تھی، شیخ صاحب کی گاڑی میں ا کر بیٹھ گئے اور بولے: شیخ صاحب، چلیئے ہم کرتے ہیں مزدوری ۔ اس بے روزگاری سے بہتر ہے کہ آپ کے پاس مزدوری کر کے، چلو کچھ کما لیں اور گھر کیلیئے دال روٹی بنا جائیں ۔
شیخ صاحب نے ان تینوں کو ساتھ لیجا کر ایک یوٹیلیٹی سٹور پر روکا، تینوں کو ایک ایک تھیلا بیس کلو کے آٹے کا، پانچ پانچ کلو چینی اور پانچ پانچ کلو گھی لیکر دیا، تینوں کی ہتھیلی پر پانچ پانچ روپیہ بھی رکھا اور اجازت دیتے ہوئے کہا بس آپ کا اتنا ہی کام تھا، آپ لوگ اپنے اپنے گھروں کو جا سکتے ہیں ۔
دوسرے دن شیخ صاحب دوبارہ اپنا شہ زور ٹرک لیکر اسی جگہ پہنچے اور آواز دی: کون کون جانا چاہتا ہے میرے ساتھ مزدوری پر ۔ دو دو سو روپے دیہاڑی دونگا سب کو ۔ مزدور تو گویا تیار ہی بیٹھے تھے، سب سے پہلے چڑھنے کیلیئے ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے سب ٹرک پر سوار ہو گئے ۔ سنا ہے شیخ صاحب نے سب کو مغرب تک کام کرا کے پورے دو دو سو روپے مزدوری دیکر چھٹی دی تھی ۔
اس مرتبہ چودہ اگست یوم آزادی پر صرف جھنڈیاں نہیں لگانی بلکہ ہم نے گرین ، کلین پاکستان وپنجاب کے لیے لاکھوں کروڑوں پودے لگانے ہیں کہ سبز ہلالی پرچم کی طرح ہمارا پورا وطن سرسبز و شاداب ہو جائے اس انقلابی پروگرام کے تحت گزشتہ روز کمشنر ڈیرہ غازیخان ڈویژن مدثر ریاض ملک نے غازی میڈیکل کالج میں اپنے رفقاء اورکالج کے طلبہ کے ساتھ مل کر سینکڑوں پودے لگائے
مون سون کی یہ شجرکاری ہمارے صحرا زدہ ماحول کو نخلستان بنا دے گی کہ ساون برس ہا برس یونہی برستا رہے گا ;252; یوں مرجھائے چہرے گلابوں کی صورت کھل اٹھیں گے بقول شاعر
تیرے آنے سے کھل اٹھے ہیں گلاب سارے