رواں سال کے اوائل میں دنیا بھر میں چھپنے والی یہ خبر تہلکہ مچا دیتی ہے کہ”چین میں پرسرار بیماری کے باعث ہلاکتیں“۔پہلے پہل اِسے سانس سے متعلقہ بیماری کہا گیا پھر اس کی نمونیا سے مماثلت کی نشاندہی کی گئی۔ ورلڈ ہیلتھ اوگنائزیشن نے اِس پرسرار بیماری کا باعث بننے والے جراثیم کو کورونا وائرس کا نام دیا،جوبعدازاں کوڈ۹۱قرارپایا۔دنیا بھرمیں اتنے کورونا وائرس کی وبا کا شکار نہیں ہوئے جتنے اِس کے خوف میں مبتلا نظر آئے،
ہرگزرتے لمحے کے ساتھ سماجی فاصلوں میں اضافہ ہونے لگا، دنیا قیامت سے پہلے قیامت کا منظر پیش کرنے لگی جب اپنے ہی اپنوں سے خوفزدہ ہوکر چھپنے لگے۔زندگیاں مفلوج کرنے کیلئے عالمی ادارے،حکومتیں اور میڈیا ایک پیج پرآگئے۔لیکن اہل فکر طبقہ کیلئے یہ بات پہلے دن سے قابل تشویش رہی کہ عالمی اداروں کے بیانیا ہی حرف آخر کیوں؟کبھی کہا گیا کہ وائرس خطر ناک مگر جان لیوا نہیں جب دنیا اِسے تسلیم کرنے لگی تو کہا گیا کہ وائرس خطرناک بھی اور جان لیوا بھی۔ذہن سازی کی گئی کہ کورونا وائرس زیادہ درجہ حرارت پرختم ہو جائے گا،جب موسم بدلا تو آرا بدل گئی اور دنیا کو یہ ماننے پر مجبور کیا گیا کہ یہ وائرس گرمی میں بھی نہیں مرتا۔دنیا نے جب اِس بیانئے پر سکھ کا سانس بھرا کہ ملیریا کی دوا میں بھی کورونا وبا میں مبتلا مریض کیلئے شفا ممکن ہے تو مذکورہ دوا کو غیر موثر بلکہ خطرناک قرار دے دیا گیا۔ کہیں ٹیسٹ کٹس کے نتائج پر سوال اُٹھے تو اِسے رد کیا گیا، کہیں کورونا ہربل میڈیسن لانچ ہوئی تو اِسے بھی مسترد کر دیا گیا۔چائنا نے جس انداز میں متحد ہوکر اِس عفریت کو شکست دے کر متاثرہ ممالک کی مدد کیلئے آگے بھی بڑھا،دنیاکے لئے رول ماڈل ہونا چاہیے تھا مگرافسوس عالمی سطح پر نظرانداز کیاگیا۔ ایسے میں اب یہ رائے عام ہونے لگی ہے کہ گھوم گھام کر دنیا اِن ٹو پوائنٹس ایجنڈے پر ہی متفق ہوگی کہ ٹیسٹ کٹ بھی وہ ہو ں گی جسے ورلڈ ہیلتھ اورگنائزیشن مستند قرار دے گی اور ویکسین بھی ہوگی جس کی ورلڈ ہیلتھ اورگنائزیشن تصدیق کرے گی۔
اب کچھ بات ہو جائے کورونا وبا سے متاثر ین کی، دنیا بھر میں متاثرہ افراد کی تعداد 44 لاکھ سے بڑھ گئی ہے جبکہ تین لاکھ سے زیادہ افراد اس سے ہلاک ہو چکے ہیں،صرف پاکستان میں متاثرین کی تعداد 40 ہزار سے بڑھ گئی ہے جبکہ ہلاکتیں ایک ہزار کو چھو رہی ہیں۔ اگر دیکھا جائے توکورونا متاثرین اور ہلاکتوں کی تعداد ہوشربا ہے،جس کو بنیاد بناکر فیصلہ ساز جو من چاہیں کریں۔۔ہاں۔اگر نہ دیکھا جائے تو دنیا بھر میں ہر سال کم و بیش بیس کروڑ افراد ملیریا کا شکار ہوتے ہیں،اور لاکھوں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جس پر فیصلہ سازوں کی آنکھیں پر پٹی بندھی ہے۔ یہ بھی نظر نہیں آرہا کہ فضائی آلودگی کی وجہ سے ہر سال دنیا میں 70 لاکھ افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ایڈز کے باعث 2017میں آٹھ لاکھ جبکہ 2018میں سات لاکھ 70ہزار افراد ہلاک ہوئے۔لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ یہ مرض فنڈ کی کمی کے باعث عدم توجہی کا شکار ہے اور اِس وقت دنیا بھر میں تقریباً 3.79کروڑ افراد ایچ آئی وی کے مرض میں مبتلا ہوچکے ہیں جو کہ کورونا سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اِسی طرح ایک رپورٹ کے مطابق تپ دق کی وجہ سے 15 لاکھ لوگ موت کے منہ میں چلے گئے۔اب ہیپاٹائٹس سی کو ہی لیجئے جسے خاموش مگر خوفناک وباکہا جاتا ہے،جس کی کوئی معقول ویکسین تاحال دستیاب نہیں اور عالمی سطح پر 150ملین وہ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں جو علاج بھی نہیں کراسکتے جس کے باعث سات لاکھ سالانہ افرادزمین نگل جاتی ہے۔ صرف پاکستان میں اِس مرض سے روزانہ تقریباً چار سو ہلاکتیں ہوتیں ہیں اور سالانہ ہلاکتوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہے۔ مگر اِس کیلئے ناتو ایس اورپیز بنے نہ کوئی لاک ڈاؤن ہوا اور نہ ہی بل گیٹس نے میڈیسن بنانے کا بیڑا اُٹھایا۔ یہ بھی دیکھنے سے قاصر ہیں کہ بالواسطہ تمباکو نوشی سے ہر سال چھ لاکھ افراد کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ نظروں سے تو یہ بھی اوجھل ہے کہ نمونیا ہر سال 10 لاکھ بچوں کو نگل جاتا ہے۔ بصیرت تو یہ بھی دیکھنے سے محروم ہے ہر سال سڑک حادثات میں 13 لاکھ 50 ہزار افراد جان سے جاتے ہیں۔ناجانے کونسی آنکھ یہ دیکھ پائے کہ ہر سال 36 لاکھ سے زائد زندگیاں نگلنے والے امراض کا نام ٹی بی، یرقان اور ایڈز ہیں۔شاید کورونا متاثرین کے اعدادوشمار اکٹھے کرنا والا کوئی یہ بھی دیکھ رہا ہو کہ دنیا بھر میں سالانہ 24 لاکھ اموات گردوں کے امراض کی وجہ سے ہوتی ہیں۔کوئی تو ہو جو کہے میں دل کی رُکتی ڈھرکنوں سے بھی اتنا ہی پریشان جتنا کورونا سے،کیونکہ صحت کی عالمی تنظیم کے مطابق صرف 2016ء میں دل کی بیماریوں سے 17 لاکھ 90 ہزار اموات ہوئیں جو کہ مجموعی اموات کا 31 فیصد ہیں۔ دل کی ان اموات میں سے 85 فیصد دل کا دورہ پڑنے یا فالج کا نتیجہ تھیں۔بات صرف یہاں تک نہیں رُکتی بلکہ اس وقت دنیا بھر میں ایک کروڑ 80لاکھ افراد سرطان کا شکار ہیں جب کہ گزشتہ برس سرطان کے سبب 96لاکھ اموات ہوئیں جو مریضوں کی کُل تعداد کے پچاس فیصد سے زائد ہے۔اِس کی روک تھام کیلئے توکوئی سنجیدہ نہ ہوا، مگر اِدھر دیکھئے اوپی ڈیز بند کر کے سارا ادارہ صحت بظاہری کورونا مریضوں کے لئے فکرمند ہے کہ بندہ کینسر،ایڈز،ہیپاٹائٹس،ٹی بی وغیرہ سے مر جائے مگر کورونا سے نہ مرے،یہاں فکرمندی تو بازگشت میں رہنے والی ان افواہوں پر ہے کہ دیگر مراض سے مرنے والوں کو کورونا متاثرین فہرست میں شامل کیا جارہاہے۔
تعجب کی بات تو یہ ہے کہ دنیا کورونا کے باعث یا تو سر پکڑے بیٹھی ہے یا پھر سر جوڑے مگر دیگر بیماریاں خوفناک حدود سے تجاوز کر چکیں ہیں،یہاں عالمی ادارہ صحت کی خاموشی کو نیم رضا کہاجائے یا نیم وبا؟۔ تو پھر ایسی صورتحال پر شکوک شبہات پیدا ہونا کوئی سازشی تھیوری نہیں بلکہ فطری عمل ہے۔انہیں متضاد اور متصادم رویوں کے باعث کوئی کورونا وبا کو عالمی سازش قرار دے رہا ہے تو کوئی د جال کا فتنا،کوئی اِسے فائیو جی ٹیکنالوجی سے منسلک کر رہا ہے تو کوئی مخصوص ممالک کو مفلوج کرنے کے گھنوونے کھیل سے۔سوال اُٹھ رہے ہیں کہ یہ کونسا وائرس ہے جس کا علاج ہینڈ سینیٹائزر ز میں تو ہے مگر کسی ویکسین میں نہیں۔ جو بیس سیکنڈ پانی سے ہاتھ دھونے پر مر جاتا ہے لیکن اِس کی ویکسین تیار ہونے میں کئی ماہ د رکار ہیں۔ جو مساجد میں دندناتا پھر رہا ہے مگر مارکیٹس اور دفاترسے رفو چکر ہے۔بہرحال وائرس ہے بھی یا کہ نہیں؟ نیا ہے یاپہلے سے موجود تھا؟سارے شکوک و شبہات،الزامات جھوٹ کا پلندہ بھی تو ہوسکتے ہیں مگر سچ کہاں ہے؟ اُس گمشدہ کی تلاش جاری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
20-05-2020
حسیب اعجاز عاشرؔ
haseeb.ejaz.aasir@gmail.com | +92334-4076757