اسلام آباد ۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کے باعث ملک میں افراتفری پھیل گئی ہے۔ چین میں وائرس پھیلنے کا معلوم تھا اور یہ بھی اندازہ تھا کہ یہ پاکستان بھی آئے گا اس لئے 15 جنوری کو ہی اس کیخلاف اقدامات کا فیصلہ کرلیا تھا۔ کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے 97 فیصد افراد بالکل صحت یاب ہو جاتے ہیں اور بہت سے افراد کو تو صرف نزلہ و زکام ہی ہوتا ہے، بلوچستان حکومت اور پاک فوج کو کرونا وائرس کے حوالے سے کئے گئے اقدامات پر داد دیتا ہوں۔
تفصیلات کے مطابق وزیراعظم پاکستان عمران خان نے قوم سے خطاب میں کہا کہ کرونا وائرس کے 97 فیصد کیس بالکل ٹھیک ہو جاتے ہیں اور ان میں سے 90 فیصد افراد ایسے ہوتے ہیں جنہیں صرف نزلہ زکام اور کھانسی ہوتی ہے جبکہ صرف چار سے پانچ فیصد افراد کو ہسپتال جانا پڑتا ہے لیکن اس کی سب سے خطرناک بات تیزی کیساتھ پھیلنا ہے۔ چین میں تقریباً ایک لاکھ 90 ہزار کیسز سامنے آئے اور جب بھی اتنی بڑی تعداد میں لوگ بیمار ہوتے ہیں تو ہسپتالوں کی سہولیات کم پڑ جاتی ہیں۔ ایک طرف اگر کرونا تیزی کیساتھ پھیل رہا ہے تو لیکن دوسری طرف صرف 3 فیصد ایسے افراد جن کی عمر زیادہ ہوتی ہے یا پھر جنہیں چھاتی کی انفیکشن وغیرہ ہو، ان کی جان خطرے میں ہوتی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ چین میں وائرس پھیلنے سے متعلق جیسے ہی پتہ چلا تو ان کیساتھ مسلسل رابطے میں رہے جس کے بعد وائرس ایران گیا جہاں پاکستان سے جانے والے زائرین اس سے متاثر ہوئے جو بلوچستان کے راستے واپس آ رہے تھے۔ بلوچستان میں تفتان کا علاقہ بہت ویران ہے جہاں جہاں لاجسٹک، ڈاکٹرز اور دیگر سہولیات فراہم کرنا بہت مشکل کام تھا لیکن میں بلوچستان حکومت اور پاک فوج کو داد دیتا ہوں جنہوں نے مل تک انتہائی مشکل حالات میں پوری کوشش کی اور ایران سے آنے والے زائرین کو قرنطینہ میں رکھا، میں مسلسل سارے اقدامات پر نظر رکھے ہوئے تھا۔
انہو ں نے کہا کہ پاکستان نے 15جنوری سے ائیر پورٹس پر لوگوں کی سکریننگ شروع کردی تھی جس کے نتیجے میں 9لاکھ لوگوں کی سکریننگ کی گئی ،پہلا کیس 26فروری کو سامنے آیا ۔عمران خان نے کہا کہ ہمیں پتہ تھا کہ کرونا وائرس پاکستان میں بھی تیزی سے پھیلے گا اس لیے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلا یا جس میں دیگر ممالک کے ردعمل کا تقابلی جائزہ لیا گیا ،اٹلی نے آغاز میں کچھ نہیں کیا لیکن جب کیسز بڑھنا شروع ہوئے تو لاک ڈاﺅن کردیا ،امریکہ نے بھی شروع میں کچھ نہیں کیا اور پھر لاک ڈاﺅن شروع کردیا ،اجلاس میں تجویز دی گئی کہ ہم بھی لاک ڈاﺅن کردیں لیکن ہمارے معاشی حالات مختلف ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے سوچا کہ اگر شہر بند کریں گے تو لوگ کرونا کے بجائے بھوک سے مر جائیں گے ،لہذا ہم نے فیصلہ لیا کہ لوگوں کے اجتماع کی جگہوں کو بند کریں ۔