کرونا وائرس کوئی قدرتی آفت نہیں بلکہ حیاتیاتی حملے کا نتیجہ ہوسکتا ہے، جیسا کہ دو عالمی طاقتیں چین اور امریکا اس کی ذمہ داری کے الزامات ایک دوسرے پر عائد کررہی ہیں۔ امریکا اور چین کے درمیان کروناوائرس سے متعلق لفظی گولہ باری جاری ہے۔
چین کا کہنا ہے کہ یہ امریکا کا ایک خوفناک بائیولوجیکل حملہ تھا، چین چونکہ دنیا کے نقشے پر معاشی اورجنگی قوت بن کر ابھررہا ہے کرونا وائرس کے ذریعے شاطر امریکیوں نے اسے اچھوت بنانے کے لیے کاری وار کیا۔ اس وائرس کے اٹیک کے لیے ووھان شہر کو اس لیے منتخب کیا گیا کیونکہ یہ شہر چائنا کے بالکل سینٹر میں ہے اور یہ مرکزی ٹرانسپوٹیشن حب ہے۔ چینی حکومت کے ترجمان نے الزام لگایا کہ امریکا چین میں بننے والی مصنوعات کی دنیا بھر میں ترسیل اور چینی ایجادات پر سخت پریشان ہے اور اسی وجہ سے اس نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کرونا وائرس کا حملہ کروایا لیکن یہ حملہ صرف چین پر نہیں بلکہ پوری انسانیت پر ہے۔ چین نے معاملہ اقوام متحدہ میں لے جانے کا عندیہ بھی دیاہے۔ دوسری طرف روسی سائنسدانوں نے بھی چین کے اس دعوے کی تصدیق کردی ہے، اور کہا ہے کہ یہ ایک امریکی سازش تھی جس کا مقصد چین کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت کو روکنا اور وائرس کے پھیلاؤ کے بعد اربوں ڈالرز کی ویکسین بیچ کر پیسہ کمانا ہے۔ایران نے بھی کرونا وائرس کو امریکا کی سازش قرار دیا، ایرانی کمانڈر کا کہنا ہے کہ وائرس کسی امریکی حیاتیاتی حملے کا نتیجہ ہو سکتا ہے جس کا مقصد ایران اور چین کو نقصان پہنچانا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیرداخلہ سینیٹر رحمن ملک نے بھی کرونا وائرس راز کو بے نقاب کر تے ہوئے دعویٰ کیا کہ چین پر امریکا نے حیاتیاتی ہتھیار سے حملہ کیا ہے، اور یہ وائرس امریکا نے چین میں پھیلایا ہے۔ رحمن ملک کا کہنا تھاکہ دنیا میں بایولوجیکل اور کیمیکل وار فیئر اور اس کی جدید صورت سامنے آگئی ہے، اگر بایولوجیکل وارفیئر شروع ہو گئی تو یہ ففتھ جنریشن سے نکل کر سکستھ جنریشن میں چلی جائے گی، یعنی بم استعمال نہیں ہوں گے بلکہ اپنی جیب یا بریف کیس میں 5یا 7 سرنجیں لے جانی پڑیں گی۔ اسے روکنے کے لیے عالمی سطح پر کوششیں کی جانی چاہیے۔ جبکہ متعدد امریکی اہلکار اسے”چینی وائرس“ کہہ رہے ہیں اور امریکی وزیر خارجہ پومپیو اسے کئی بار”ووہان وائرس“کہہ چکے ہیں۔اس سے قبل امریکی سینیٹر ٹام کاٹن نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ کرونا وائرس پھیلانے کے پیچھے چین کا ہاتھ ہے، وہ اسکے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لائیں گے جنہوں نے دنیا کو نشانہ بنایا۔ ایک انکشاف کرنل (ر) ڈاکٹر ڈینی شورام نے بھی کیا ہے جو اسرائیلی ملٹری انٹیلی جنس کے سابق افسر ہیں اور ”کیمیکل اور بائیولاجیکل وارفئیر“ کے شعبے میں سینئر تجزیہ کار کے طورپرکام کرتے رہے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ چین کی ”ووہان انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی“ سے کرونا وائرس لیک ہوا اور پورے ملک میں پھیل گیا۔ امریکی محکمہ خارجہ کا الزام ہے کہ چین یہ کام برسوں سے کررہا ہے اور ہماری اس پر نظرہے۔ چین کا کہنا ہے کہ بعض امریکی شخصیات کرونا وائرس کو چین کی ساتھ جوڑ رہی ہیں،ایسا کرنا چین کو بدنام کرنے کے مترادف ہے۔
لیکن اس حیاتیاتی حملے اور جوابی حملے کے حقیقی ذمہ داروں کے تعین میں تو شاید ایک عرصہ لگے اور اس کے ذمہ دار ممالک کو مستقبل میں ایٹمی تجربات پر مستقل پابندی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ فی الوقت پوری دنیا کے ممالک میں پھیلے کرونا وائرس کے مہلک اثرات سے بچنا اور اس کے معاشی نقصانات پر قابو پانا ایک بڑا چیلنج ہے۔ نوول کرونا وائرس سے دنیا کے 178سے زائد ممالک میں ڈھائی لاکھ سے زائد افراد کے متاثر ہونے کی اطلاع ہے، کرونا کے سبب اموات کی تعداد 10ہزار سے زائد بتائی جا رہی ہے۔ دنیا بھر کی معاشی مشکلات اس پر مستزاد ہیں، اسٹاک مارکیٹیں کریش کر چکی ہیں۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیو گوتریس کا یہ خدشہ بے جا نہیں کہ اگر جلد کورونا کے پھیلاؤ کو نہ روکا گیا تو دنیا میں لاکھوں افراد موت کے گھاٹ اتر جائیں گے اور اس وباء سے غریب ممالک کے زیادہ متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ بالخصوص پاکستان جیسے محدود وسائل والے ملک میں اس وباء کو پھیلنے سے فوری روکنا بہت ضروری ہے،اس کے لیے حکومت اور عوام کو اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ چین نے اس چیلنج میں جس طرح کامیابی حاصل کی ہے، وہ پوری دنیا بالخصوص ہمارے لئے خاص سبق ہے۔ چین کی طرف سے خوشخبری سنائی گئی کہ ووہان میں تمام عارضی ہسپتال بند کردئیے گئے ہیں۔ چینی فخر سے بتا رہے ہیں کہ کورونا کی وجہ سے پیدا ہونیوالی صورتحال پر ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے دو دن میں ایسا ہسپتال تیار کرلیاگیا تھا، اور مختلف عام مقامات پر ایک سے دو ہفتے کے دوران ایسے 16ہسپتال تیار کئے جاچکے تھے۔ جبکہ ورزش کیلئے استعمال ہونے والے جم، سٹیڈیم، نمائش کے مراکز جیسے عوامی مقامات کو ہسپتال یا علاج گاہوں میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ آج چینی فخر سے بتا رہے ہیں کہ ووہان میں یہ عارضی 16 ہسپتال تو بند کردئیے گئے لیکن یہ تاریخ میں اپنا گہرا اثر اور نشان چھوڑ گئے ہیں جسے بھلایا نہیں جاسکتا۔ ان ہسپتالوں میں جب مریض آتے تو مایوس، گھبرائے یا حواس باختہ ہوتے تھے لیکن یہاں سے علاج کے بعد جب وہ روانہ ہوتے تو ان میں نیا اعتماد ہوتا، وہ صحت کے ساتھ ساتھ یہ احساس بھی لیکر جاتے کہ انہوں نے ایک بڑی مشکل کو ایک جان، ایک ٹیم اور وجود بن کر شکست دے دی ہے۔ یاد رہے یہ وائرس ان لوگوں کو جلد اپنی لپیٹ میں لیتا ہے جن کی قوت مدافعت کم ہو، لہٰذا ہماری پوری قوم کو متحد ہوکر اس آفت سے نمٹنا ہوگا۔اس کے لیے ضروری ہے کہ محکمہ صحت کی طرف سے بتائی گئی احتیاطی تدابیر کو فریضہ اول جان کر ان پر عمل کیا جائے، جن لوگوں نے بیرون ملک سفر کیاہے ان سے میل جول میں احتیاط برتی جائے، عام میل جول ترک کردیاجائے، غیر ضروری سفر نہ کیا جائے۔ احتیاطی تدابیر کے طور پر کھانسی یاچھینک آنے کی صورت میں منہ، ناک کوٹشو یا کپڑے سے ڈھاپا جائے، اور ہاتھ کااستعمال نہ کیا جائے۔ ٹشو استعمال کے بعد ضائع کردیا جائے اور آلودہ ہاتھ سے آنکھ، ناک یا منہ کونہ چھویا جائے۔گلے ملنے یا ہاتھ ملانے سے گریز کیا جائے، ہاتھوں کو صابن اورصاف پانی سے بار بار دھویا جائے۔ بخار،کھانسی اورسانس لینے میں دشواری کی صورت میں فوی طور پر ڈاکٹرسے رجوع کیا جائے،تاکہ اس وباء کے پھیلاؤ پر بروقت قابو پایاجاسکے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس ایک سے دوسرے شخص میں تیزی کیساتھ پھیلتا ہے، اور متاثرہ شخص اگر کھانسے یا چھینکے اور اسکے منہ سے نکلنے والے ذرے یا بوندیں آپ تک پہنچیں تو یہ وائرس آپ کو متاثر کرسکتا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ متاثرہ شخص سے ایک میٹر کا فاصلہ رکھا جائے۔ اور احتیاطی تدابیر کے علاوہ اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے کہ ہماری قوم کو جلد اس بیماری سے نجات میسر آئے۔
٭……٭……٭
ای میل:ranaaijazmul@gmail.com