ہم پاکستانی اتنا جانی اور مالی نقصان ہونے کے باوجود بھی ابھی تک کرونا کو سنجیدہ نہیں لے رہے, ابھی میں ایک ڈاکٹر کا آرٹیکل پڑھ رہا تھا تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے کہ ہم پاکستانی کتنے غیر ذمہ دار اور لاشعور قوم ہیں.
ہم ہر مسئلے پر اپنی طرف سے اک عجیب و غریب قسم کی منطق پیش کرتے ہیں , من گھڑت مفروضے ,علاج,ٹوٹکے اور غلط افواہیں پھیلا دیتے ہیں, جو دوسرے شعور رکھنے والے افراد کیلئے بھی گمراہی کا سبب بنتے ہیں۔
اب کچھ پاکستانی اس وبا کے اتنے بڑے بقراط سقراط بنے ہوئے ہیں ان کی طرف سے یہ منطق بھی برملا پیش کی جا رہی ہے کہ کرونا کوئی وبا ہے ہی نہیں یہ صرف اور صرف یہودیوں کی سازش ہے .
میں حیران ہوں یہ کیسی سازش ہو سکتی ہے جو انکی اپنی لاکھوں جانوں سمیت معیشیت کو بھی کھائے جا رہی ہے
اب تو یہ بھی شنید ہے کہ کہ ڈاکٹرز ہر بیماری کے مریض کو کرونا کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں؟
حالانکہ ایسا نہیں ہے یہ صرف سنی سنائی باتیں ہیں یہ بات بھی اسی مفروضے پر ہے جیسے پہلے ایک دوسرے سے پوچھا جاتا تھا کہ آپ کے کسی جاننے والے کو کرونا ہوا ہے اگلا کہتا نہیں حالانکہ اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ بہت سے دوست احباب کے رشتے داروں کا کرونا پازیٹیو آیا ہے اور ہم خود ان کیلئے صحتیابی کی دعاؤں کی پوسٹیس بھی لگا رہے ہیں۔
اب یہ بھی وہی بات ہے کہ ہمارا احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ ہے کہ اب کرونا کے مریضوں کی اوسط تعداد بڑھ گئی ہے اور ہمارا میڈیکل سسٹم اتنا بوجھ نہیں اٹھا پا رہا ہمارے فرنٹ لائن کے مجاہد کرونا سے لڑ رہے ہیں تو دوسری بیماریوں میں مبتلا مریض ڈاکٹرز کی عدم توجہ کے باعث تڑپ تڑپ کر مر جاتے ہیں
یا جو بھی مریض کسی بھی بیماری میں آتا ہے کرونا کے خدشے کے پیش نظر ڈاکٹرز حضرات کو جب حفاظتی کٹس مہیا نہیں کی جائینگی تو وہ کیسے میسحا بنے گا جان تو ہر کسی کو پیاری ہے۔
ایک مفروضہ یہ بھی پیدا ہو چکا ہے کرونا کے مریض کے حکومت کو لاکھوں ڈالرز مل رہے ہیں پھر وہ لاش امریکہ بھیج رہے ہیں
(ہاں وہ امریکہ اس لئیے بھیج رہے ہیں تاکہ اس کے دماغ کا پوسٹ مارٹم ہو سکے اسکے دماغ میں کونسا ایسا کیڑا تھا جو اسے احتیاطی تدابیر سے روکتا تھا)
اللہ کے بندے ہوش کے ناخن لیں یہ اللہ کی ناراضگی اور عذاب ہے ہمیں رب کے حضور سجدہ ریز ہونے کی ضرورت ہے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کا وقت ہے بجائے جگت بازی کے,
کیا آپ احتیاط تدابیر نہ کر کہ پاکستان کو اٹلی ,امریکہ بنانا چاہتے ہیں پھر آپکو اس وائرس کا یقین آئے گا جب اللہ نہ کرے کسی کا پیارا سڑک پر سسک سسک کر تڑپ تڑپ کر اپنی جان دے رہا ہوگا , گلی سڑی لاشوں اٹھانے والا بھی کوئی نہیں ہوگا
خدارا آج بھی وقت ہے کہ خود کو اور اپنے پیاروں کو احتیاطی تدابیر پر عمل کروا کر با شعور پاکستانی ہونے کا ثبوت دیں.
مجھے قوی امکان ہے کرونا ختم ہونے کے بعد انشاءاللہ جو زندہ افراد بچیں گے ان میں شعور آ جائیگا , زندگی گزارنے میں بہتری اور مثبت تبدیلیاں آئینگی
لوگ یہ جان چکے ہوں گے کہ اصل دولت صرف اور صرف صحت ہے جان ہے تو جہان ہے, زندگی سادگی سے بھی گزاری جا سکتی ہے,چند کپڑے، سادہ خوراک ، اور سر پر چھت انسان کی بنیادی ضروریات ہیں۔
آپ کے اپنے صرف وہی ہیں جو چار دیواری میں آپ کے ساتھ موجود ہیں,باقی ایک ہجوم ہے۔
ہر انسان کا ایک دوسرے سے سماجی فاصلہ ہے جسکا احترام لازم ہے اور ضرورت بھی۔
صفائی نصف ایمان ہے انفرادی اور اجتماعی ضرورت بھی ہےاور ایک انسان کا خود کو صاف رکھنا جتنا ضروری ہے اتنا ہی گھر ، گلی ، محلے اور معاشرہ کا صاف رکھنا بھی ضروری امر ہے۔
آپ سے بہت سے لوگ جڑے ہیں سماجی، معاشی اور جذباتی پہلوؤں سے اور آپ ان پر کافی حد تک اثر انداز ہوتے ہیں۔
توجہ کی سب سے زیادہ ضرورت بزرگوں ، بچوں اور خواتین کو ہے۔
زندگی بھاگ دوڑ کا نام نہیں بلکہ ٹہراؤ میں بھی زندگی ہے۔
زیادہ تر مصروفیات دراصل خود ساختہ اور وقت کا ضیاع ہے۔
انسان کی حقیقت کچھ بھی نہیں ہے درحقیقت ہم ایک نا نظر آنے والے virusکی مار ہیں تو غرور کیسا انا کیسی۔
ضروریات پوری کریں خواہشات تو لا محدود ہیں۔