کرونا وائر س نے دنیا کو رونا سکھا دیا ہے. طاقت ور دنیا اپنی جان کو رو رہی ہے. اس سے پہلے بھی ایسی وبائیں آئیں کہ جان کے لالے پڑ گئے تھے اب دنیا کو سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ جائیں تو جائیں کہاں؟، کون سی جگہ جائے امان ہے. کر لو جو کرسکتے ہو. آگے بڑھنے، ترقی کرنے کی دوڑمیں سب کو پچھاڑ کر، لتاڑ کر کیا ملے گا؟ ترقی او رکامیابی تبھی مزہ دیتے ہیں جب دوسرے آپ کی کامیابی پر خوش ہوں. حسد اور جلاپے کے ماحول میں حاصل ہونے والی کامیابی محض فرد کی تو ہو سکتی ہے کسی کنبہ، قبیلہ یا قوم کی نہیں.
کرونا جیسی تمام آفات، بلیات او رمصیبات دراصل ایک کھلا پیغام ہیں کہ غیر فطری طریقے سے حاصل ہونے والی تمام چیزیں جب وجود میں آتی ہیں تو فطرت اس پر اپنی ناراضگی اور غصے کا اظہار اسی طرح کرتی ہے کہ وہ ان کو نہ صرف ناکارہ کر دیتی ہے بلکہ باعث عبرت بنا دیتی ہے. محض تیس، پینتیس دنو ں میں تیار ہونے والا چکن جس کی غذا گندگی اور زہر ہے. وہ انسانوں کے پیٹ کا جہنم تو بھر رہا ہے مگر اسے لذت، توانائی اور صحت سے کوسوں دور لے جاتا ہے. اب یہ حضرت انسان پر منحصر ہے کہ وہ اپنی غذا میں اس نجس خوراک پر پلنے والی مخلوق کو زینت دسترخواں بنائے یا پھر کوئی دوسری غذا کا انتخاب، انتظام و انصرام کرے. ظاہر ہے کہ دوسری بہتر اور صحت افزا غذا کیلئے اسے محنت کرنا ہو گی جس کا اب وہ عادی نہیں رہا، تو ایک ہی راستہ باقی ہے جو جلد یا بدیر زندگی کے خاتمے کی طرف لے جاتا ہے اور لگتا ہے کہ انسان کو نام نہاد ترقی کی دوڑ میں یہ فاصلہ طے کر کے آخر کار رزق خاک ہونے کی منزل تک پہنچا کر دم لے گا.
آئیے ایک کہانی سنیے جو لمبی،صحت مند اور پر سکون زندگی کا نہایت سادہ سبق ہے.
مصر کا ایک امیر بزنس مین تھا اس کی عمر پچاس سال کے لگ بھگ تھی کہ ایک دن اس کو دل میں تکلیفکا احساس ہوا او رجب اس نے قاہرہ کے سب سے بڑے ہسپتال میں اپنا علاج کرایا تو ڈاکٹروں نے معذرت کرتے ہوئے اسے یورپ جانے کا کہا، یورپ میں تمام ٹیسٹ مکمل کرنے کے بعد وہاں کے ڈاکٹروں نے اسے بتایاکہ تم صرف چند دن کے مہمان ہو، کیونکہ تمھارا دل کام کرنا چھوڑ رہا ہے. وہ شخص بائی پاس کروا کر واپس مصر آ گیا اور زندگی کے باقی دن گن، گن کر گزارنے لگا. ایک دن وہ ایک دکان سے گوشت خرید رہا تھا کہ اس نے د یکھا ایک عورت قصائی کے پھینکے ہوئے چربی کے ٹکڑ وں کو جمع کر رہی ہے اس شخص نے عورت سے پوچھا تم اسے کیو ں جمع کر رہی ہو؟ عورت نے جواب دیا کہ گھر میں بچے گوشت کھانے کی ضد کر رہے تھے چونکہ میرا شوہر مر چکا ہے او رکھانے کا کوئی ذریعہ بھی نہیں ہے اس لیے میں نے بچوں کی ضد پر مجبور ہو کر یہ قدم اٹھایا ہے. اس پھینکی ہوئی چربی کے ساتھ تھوڑ ا گوشت بھی آ جاتا ہے جسے صاف کر کے پکالوں گی.
بزنس مین کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، اس نے سوچا میری اتنی دولت کا مجھے کیا فائدہ، میں تواب بس چند دن کا مہمان ہوں، میری دولت کسی غریب کے کام آ جائے اس سے اچھا اور کیا. اس نے اسی وقت اس عورت کو کافی سارا گوشت خرید کر دیا اور قصائی سے کہا کہ اس عورت کو پہچان لو، یہ جب بھی آئے او رجتنا بھی گوشت مانگے اسے دے دینا اور رقم مجھ سے لے لینا. اس واقعے کے بعد وہ شخص اپنے روز مرہ کے معمولات میں مصروف ہو گیا. کچھ دن اسے دل میں کسی تکلیف کا احساس نہ ہوا تو اس نے قاہرہ میں موجود لیبارٹری میں دوبارہ ٹیسٹ کرایا. ڈاکٹروں نے بتایا کہ رپورٹ کے مطابق آپ کے دل میں کوئی مسئلہ نہیں ہے. تسلی کیلئے وہ دوبارہ یورپ چلا گیا اور وہاں ٹیسٹ کرائے. رپورٹس کے مطابق اس کے دل میں کوئی خرابی سرے سے تھی ہی نہیں، ڈاکٹر حیران رہ گئے اور اس سے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیا کھایا ہے کہ آپ کی بیماری جڑ سے ختم ہو گئی. اسے وہ گوشت والی بیوہ یاد آئی او راس نے مسکرا کر کہا، علاج وہاں سے ہوا ہے جس پر تم یقین نہیں رکھتے. بے شک میر ے نبی ﷺ نے سچ کہا کہ "صدقہ ہر بلاکو ٹالتا ہے ".
۳
خلاف فطرت سبھی کام انسانیت کی تباہی کا باعث بنتے ہیں اگر اچھی، صحت مند،پرسکون اور باوقار زندگی کی آرزو ہے تو ان کانٹوں (محنت، مشقت، صدقہ، ہمدردی، خیر و بھلائی) سے الجھ کر جینا شروع کر دیں. یہ دراصل الجھنا نہیں بلکہ سلجھنا ہے. الجھ کر دیکھیں، سبھی معاملات سلجھ جائیں گے. صدقہ کرونا جیسے بے شمارعوارض کا شافی علاج ہے.
bhatticolumnist99@gmail.com