ی ٹی آئی بھاری مینڈٹ سے کامیابی سے ہمکنار ہوئی ۔عوام نے ووٹ کی ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھایا اور اپنا فرض ادا کیا ۔کپتان ملک کا کپتان بن گیا ۔عمران خان کی پہلی تقریر کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی ۔سادہ اور آسان فہم الفاظ ہر دل میں اتر گئے ۔اور لگا کہ اب میری قوم اور ملک کی قسمت سنور جائیگی ۔۔انہوں نے کہا میں کامیابی پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں، مجھے اللہ نے سب کچھ دیا تھا، اب بائیس سالہ جدوجہد کے بعد کامیابی دی تو اقتدار میں آکر منشور پر عمل کرنے کا وقت آگیا۔
دنیا کے عظیم لیڈر نبی کریم ﷺ تھے، اور جو ریاست آپ ﷺ نے مدینے میں قائم کی، میں بھی اسی طرح کی فلاحی ریاست کا نظام چاہتا ہوں۔ ثابت کرکے دکھاؤں گا کہ تمام پالیسیاں کمزور طبقے کیلئے نہیں بنیں گی اور طاقتوروں پر بھی قوانین کا اطلاق ہوگا۔
غریب کسانوں، خوراک کی کمی شکار پینتالیس فیصد بچے، تعلیم سے محروم ڈھائی کروڑ بچے اور مجموعی طور پر کمزور طبقے کو اس کا حق دلانا میرا ٹارگٹ ہوگا۔
اپنی ذات کے حوالے سے اچھالے گئے کیچڑ کو میں نظرانداز کرتے ہوئے سب کچھ بھلا چکا۔ کسی کے خلاف انتقامی کاروائی نہیں ہوگی۔
اگر ہمارا کوئی بندہ غلط کام کرے گا تو قانون ایکشن لے گا۔ احتساب مجھ سے شروع ہوگا۔
گورننس ٹھیک کرکے معیشت بحال کریں گے، کرپشن کے ذریعے لیکیج ختم ہوگئی تو معاشی صورتحال ٹھیک ہوجائے گی۔
سادگی اختیار کروں گا۔ پرائم منسٹر ہاؤس کی بجائے وزرا کے انکلیو میں رہائش اختیار کروں گا۔دھاندلی کا الزام لگانے والے آگے آئیں، تحقیقات میں مدد کروں گا۔ جس حلقے کا کہیں گے، کھول دیں گے۔
اس خطاب کو دیکھیں تو عمران خان کے کئی مثبت پہلو سامنے آتے ہیں ۔بلاشبہ آنے والی حکومت کے سامنے بہت سے مسائل اور رکاوٹیں ہیں ۔ان سے نبرد آزمائی کے لیے وقت درکار ہے مگر جب تہیہ کر لیا جائے تو مشکلات ریت کا ڈھیر ثابت ہوتی ہیں ۔عمران خان کے کاندھوں پہ اب بہت بڑی ذمہ داری ہے اور سب سے بڑھ کر عوام کا اعتماد کہ جس نے پرانے جاگیردارانہ اور خاندانی نظام کو ریجیکٹ کر کے اپنی اور ملک کی قسمت عمران خان کے حوالے کی ۔لہذا عمران حان کو اب اپنے کہے ایک ایک لفظ کا پاس رکھنا ہوگا اور پاکستان کو اپنی ترجیحات میں مقدم رکھ کر درست اقدام کرنے ہونگے ۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ملک سب سے اہم ہے ۔ہمیشہ وہی قومیں عزت و وقار پاتی ہیں جو اپنے قدموں پہ آپ کھڑی ہوتی ہیں ۔ہاتھ پھیلانے والی قوم قرضوں اور احسانوں کے بوجھ تلے دب کر خوار ہو جاتی ہے ۔جیسا کہ ہو چکا ہے ۔ دیگر فاتح جماعتوں کو بھی عمران خان کا ساتھ دینا چاہیے نہ کہ دھاندلی کا غل غوغا مچائیں اور ملک اور نئی حکومت کو اسی میں الجھائے رکھیں ۔الیکشن پایہ تکمیل کو پہنچے ہار جیت ہوتی رہتی اچھا کھلاڑی وہی ہوتا جو اسے دل سے تسلیم کرے ۔وقت اور عوام کب تک غلط کا ساتھ دے سکتا ۔عوام نے الیکشن 2018 میں بھرپور شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے آزمائے چہروں کو دھول چٹا دی یہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ حکمرانوں کے لیے سبق ہے کہ اگر ہم تخت پہ بٹھا سکتے تو گرا بھی سکتے ۔فرعون و نمرود کب تک کامیاب ہو سکتے ۔کب تک نسل نو کو ہم وراثت میں سامان تباہی دیتے ۔قوم کا یہ جاگا ۔ہوا شعور یہیں دم نہیں توڑے۔گا بلکہ اب آنے۔والے حکمران جوابدہ ہونگے جان توڑ محنت ہی ان کو شاد کام رکھ سکے گی ۔مثل مدینہ ریاست تبھی پایہ تشکیل کو پہنچے۔گی جب دریا کے کنارے ایک بھوکے کتے کی موت کا بھی محاسبہ ہوگا ۔ کامیابی تب قدم چومے۔گی فقیر کا کاسہ نہ ہوگا اور دینے والا ہوگا مگر لینے والا نہ ہوگا ۔جب اسلام مسجد و منبر میں نہیں دلوں میں ہوگا ۔جب ہماری بجلی ہمارا پانی ہماری فصل ہوگی ۔ہمارا کسان خوشحال ہوگا ۔تب حقیقی تبدیلی آئے گی اور یہی نیا پاکستات ہوگا ہم سب کا نیا پاکستان.