کالج میگزین’’تھل‘‘ کا سفر
گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج کی عمر جتنی لمبی ہے لگ بھگ اتنی اسی کالج سے چھپنے والے میگزین’’تھل ‘‘کی ہے۔’’تھل ‘‘میگزین لگ بھگ 47سال سے کبھی باقاعدہ اور کبھی بے قاعدہ اشاعت کے مراحل طے کر رہا ہے اور حال ہی میں دو میگزین ’’تھل ‘‘تخلیقی ورثہ نمبربرائے سال ۲۰۱۴اور’’تھل‘‘
تھل میگزین کے پہلے شمارے کی سرپرستی سید فضل حسین شاہ(سربراہ ادارہ)نے کی جبکہ مجلس ادارت میں محمد عبدالعزیز،ملک حسن اختر،محمد شوکت نیازی ،ایس اے بخاری الحمزا اور حافظ محمد ادریس تھے۔کالج میگزین کبھی باقاعدہ اور کبھی بے قاعدگی سے اشاعت کے مراحل طے کرتا رہااور ۴۷سال میں ۱۵بارشائع ہو سکا۔ان ۱۵ میں سے ایک ’’اردو ادب نمبر‘‘۲۰۰۱ ،گولڈن جوبلی نمبر۲۰۰۸ تخلیقی ورثہ نمبر۲۰۱۴ اور تنقیدی و تحقیقی نمبر۲۰۱۵ شامل ہیں جبکہ مذکورہ میگزین کو یہ اعزاز بھی جاتا ہے کہ اس کی ادارت کے فرائض برصغیر کے نامور ترقی پسند اورانقلابی شاعر وادیب ڈاکٹر خیال امروہوی نے ۱۹۶۸میں ادا کئے۔جبکہ دیگر نامور مدیران میں ڈاکٹر ظفر عالم ظفری،محمد نواز صدیقی،پروفیسر مہر اختر وہاب،شفقت بزدار،ڈاکٹر افتخار بیگ شامل ہیں۔
کالج کے ’’تھل‘‘ میگزین پر۲۰۰۵ء میں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کی ہونہار طالبہ ریحانہ تبسم نے ایم۔اے کا تحقیقی مقالہ پروفیسر ڈاکٹر ظفر عالم ظفری کی نگرانی میں لکھا جس کا عنوان ’’گورنمنٹ کالج لیہ میگزین’’تھل‘‘کا توضیحی اشاریہ و خدمات‘‘تھا۔اپنے تحقیقی مقالہ میں ریحانہ تبسم فرماتی ہیں :۔
’’گورنمنٹ کالج لیہ سے نکلنے والا’’تھل‘‘میگزین طلباء و قارئین کے ادبی ذوق بالخصوص طلباء کے ذوق نظر کے لیے اور ان کی ادبی تربیت کے لیے ایک بنیادی پلیٹ فارم کی حیثیت رکھتا ہے‘‘
میگزین کی افادیت کا انداز اس میں موجود تخلیقی کاوشوں سے لگایا جاتا ہے۔اگر یہی تخلیقی کاوشیں کسی نامورتخلیق کار کے قلم سے نکلی ہوں تو تخلیق پھر تخلیق نہیں رہتی وہ ایک شاہکار کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور ایسے بے شمار شاہکار کے ملاپ جو وجود میں آتا ہے اسے ہم کالج کا ’’تھل‘‘میگزین کا نام دیتے ہیں۔ریحانہ تبسم فرماتی ہیں:۔
’’تھل میگزین کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس رسالے میں چھپنے والوں میں ڈاکٹرفرمان فتح پوری(ستارہ امتیاز)،ڈاکٹر حمید رضا صدیقی،ڈاکٹر روبینہ ترین(صدر شعبہ اردو بہاء الدین یونیورسٹی ملتان)ڈاکٹر خیال امروہوی،پروفیسر ڈاکٹر ظفر عالم ظفری،پروفیسرڈاکٹر علی شیر طور،ڈاکٹر عبدالغفار کوکب،پروفیسر جعفر بلوچ،پروفیسر غلام محمد خان،پروفیسر نواز صدیقی،پروفیسر مہر اختر وہاب،پروفیسر شہباز نقوی،پروفیسر ڈاکٹر افتخار بیگ،پروفیسر اکرم میرانی،پروفیسر شفقت بزدار کے علاوہ نامور شخصیات کی تحریریں بھی اس رسالے کا حصہ بنتی رہی ہیں۔لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ گورنمنٹ کالج لیہ کا ادبی جریدہ ’’تھل‘‘علم و ادب کے فروغ میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہا ہے‘۔
اگر ہم موجودہ تھل میگزین تخلیقی ورثہ نمبر پر بات کریں تو ’’تھل‘‘کالج میگزین ’’تخلیقی ورثہ نمبر۲۰۱۴‘‘تصاویر سے مزین ۱۹۲صفحات پر مشتمل ہے۔اداریہ،حمد و نعت کے علاوہ اسے ۹حصوں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر حصہ ایک خوبصورت عنوان کے طور پر دیا گیا ہے۔اداریہ سربراہ اداریہ پروفیسر مہر اختر وہاب صاحب نے تحریر کیا جبکہ حمد و نعت ریاض راہی صاحب کی لکھی ہوئی ہیں۔کالج میگزین میں پہلا حصہ ’’روشنی‘‘کے نام سے ہے ۔جس میں’’ حقیقت انسان بنظرِ اسلام‘‘ شمائلہ مصطفی ،’’معاشرہ،عورت اور اسلام‘‘محمد اکمل رؤف ،’’فاروق اعظمؓ ‘‘اقلیم کوثر صراطی،’’فلسفہ شہادت‘‘قاریہ آسیہ کنول اور ’’عورت اور اسلام‘‘محمد آصف تھند شامل ہیں۔ جبکہ دوسرے حصہ میں ’’یاد رفتگاں‘‘ میں ماضی کے اوراق کو اتھل پتھل کرکے نامور لوگوں کو خراج تحسین پیش کی گئی ہے۔
پروفیسر مہر اختر وہاب صاحب ، پروفیسر شبیر نیئرصاحب اور پروفیسر محمد اکبر ساقی نے یادرفتگاں میں سے معروف انگریزی دان’’پروفیسر غلام محمد خان‘‘کی یادیں تازہ کی ہیں۔جبکہ پروفیسر ریاض راہی نے پاک و ہند کے نامور شاعر کو منظور خراج عقیدت پیش کیا ۔یہی نہیں انہوں نے ڈاکٹر خیال امروہوی کی فارسی غزل کا جائزہ لیتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’’ڈاکٹر خیال امروہوی زبان و ادبیات فارسی کے ماہر استاد تھے۔ان کے فکر بلند کو جولانیاں،گہرے جذبات و احساسات اور تخیل کی بلند پروازیاں جس طرح فارسی زبان میں اظہار پا گئیں شاید ہی اردو زبان میں وہ جامعیت اور فصاحت و بلاغت کے ساتھ بیان کی گئی ہوں۔تاہم افسوس ہے کہ انہوں نے مستقل طور پر فارسی زبان کو اپنا ذریعہ اظہار نہ بنایا‘‘
ڈاکٹر افتخار بیگ صاحب یادرفتگاں میں ڈاکٹر خیال امروہوی کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’’ایک سائیکل۔۔۔تن کے تین کپڑے۔۔۔شہر سے دورایک کلی۔۔۔عشق کی مستی۔۔۔خود اپنی ہستی بھول گیا۔۔۔پانچ مرلہ سکیم کبھی شہر سے باہرتھی۔۔۔سڑک کنارے کنارے چلتے۔۔۔کبھی اس پنواڑی کی دکان پر کبھی اس ڈھابے والے کے پاس۔۔۔ہر وقت ہر جگہ۔۔۔انسانی عزوقارکا قصہ بیان کرنا‘‘
ایک اورجگہ فرماتے ہیں:۔
’’وہ مشعل بھی تھا اور مشعل بردار بھی۔جانے کتنے لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ اس نے تن تنہاسر انجام دیا اور اس فریضہ کی ادائیگی میں اس نے کبھی نہ تو کوتاہی کی اور نہ ہی ذاتی مجبوریوں کو آڑے آنے دیا۔اپنی تمام تر محرومیوں ،مجبوریوں کے باوجود ایک ایسا شخص تھا جس نے لیہ والوں کو فکرونظر سے آشنا کرایا ۔تب میں بہت رویا۔۔۔اور اب اہلِ شہر نے جانے کتنے عرصے رونا ہے کہ خیال کہیں صدیوں بعد جنم لیتا ہے‘‘
استادِ محترم ڈاکٹر افتخار بیگ صاحب ’’پروفیسرملک اللہ یار کی یاد میں‘‘محبت میں ڈوب کر ان سے گلے شکوے کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’’ملک جی! تم مشرقی تہذیب و اقدار کے بڑے پاس دار تھے۔ان تہذیبی اقدار کے ٹوٹتے اور ٹرجنے کی آواز تمہیں سنائی نہ دیتی تھی۔آج دیکھ لیا۔۔۔اسی مشرق کے شاگردوں نے اپنے استادکو بے بس پڑا پایا تو پلٹ کر کسی نے سہارانہ دیا۔کندھا تک دینے کوئی نہ آیا۔ملک!اگرمیں تمہارا شاگردہوتا،تمہاری جوتیاں سیدھی کرتا اور برسر محفل اعلان کرتا کہ میں شاگرد ہوں۔فخر کرتا کہ تم جیسا شخص میرا استاد تھا۔مگر ایسا نہیں ہے تمہارے شاگردنئے دور کے نئے تقاضوں سے آشنا کچھ اور لوگ ہیں جوتہذیب حاضر کے قتل میں شریک ہیں۔میں تمہیں کہا کرتا تھا کہ تہذیب حاضر مر رہی ہے۔مگرتم مانتے ہی نہ تھے،تمہارا ایمان اس تہذیب پر بڑا راسخ تھا۔آج دیکھ لیا نا!اپنی خوش گمانیوں کا نتیجہ‘‘
ڈاکٹر افتخار بیگ صاحب کا پروفیسر ملک اللہ یار کی یاد سے جو مکالمہ ہے اس میں بہت سے باتیں عیاں اور بہت سی پوشیدہ ہیں جنہیں کھوجنے کی ضرورت ہے ۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو ایک ایک کر کے تہذیب کی دیوار میں ڈراریں پڑتی جائیں گی اور ایک دن ایسا آئے گا کہ تہذیب بھی قصہ پارینہ بن جائے گی اور ہم دیکھتے ہی رہ جائیں گے ۔
یاد پڑتا ہے کہ کالج میں ہمارا پہلا دن تھا۔سب اجنبی تھا۔لوگ اجنبی۔دوست اجنبی۔یہاں تک کہ کپڑے بھی۔کہاں جائیں۔کدھر کو جائیں۔سب اجنبی۔اتنے میں ایک آواز کانوں سے یوں ٹکرائی کہ اپنائیت کا سا گمان تھا،مڑ کے دیکھا تو استادِ محترم پروفیسر سید ثقلین شاہ کاظمی کھڑے تھے۔مجھے گلے لگایا اور کہا’’کیا تم نے بناوٹی لباس پہنا ہوا ہے۔کل سے وہی اپنا روایتی لباس پہن کر آنا‘‘وہ دن اور آج کا دن اسی روایتی لباس میں زندگی کا سفرشروع کیا ۔استاد محترم ہر روز شام کو کچھ طلباء کو اپنے گھر بلاتے اور تاریخ پر گھنٹوں گفت گو فرماتے۔ہم سے انسیت کی ایک وجہ شاید علاقہ تھا کیوں کہ استاد محترم شاہ پور اور جبکہ ہمارا تعلق رانا نگر سے ہے۔مجھے آج بھی یاد پڑتا ہے وہ اکثر دہرایا کرتے تھے ’’بہا چاون آئی ہئی۔چلہے دی سین بن بیٹھی ہے‘‘،’’ہوتا رہا مذاق مری زندگی کے ساتھ‘‘،’’جیو اور جینے دو‘‘۔خیران سی یادوں پر تو شاید کتاب بھی لکھی جائے کم ہے۔اس عظیم ہستی کا ذکر ڈاکٹر افتخار بیگ کچھ اس انداز میں فرماتے ہیں:۔
’’لیہ سے آٹھ دس میل شمال میں واقع شاہ پور ایسی ہی ایک بستی ہے ۔کبھی ایسا وقت بھی تھا کہ کسی کی پوری شخصیت کا پورا تعارف ایک جملے میں سمایا کرتا تھا’’یہ شاہ پوری ہے‘‘سمجھنے والے خود ہی سمجھ جاتے تھے ۔اس بستی کے مزاج سے پہلی بغاوت کس نے کی مجھے نہیں معلوم مگر مجھے یہ پتا ہے کہ سماجی رویوں سے بغاوت کا مرتکب ہونے والوں میں ایک سید ثقلین شاہ کاظمی بھی تھے جو اپنی بستی کی پہچان بن گئے‘‘
یاد رفتگاں میں جہاں ادب پہ گفتگو ہو گی وہاں اردو،سرائیکی اور پنجابی کے معروف شاعر پروفیسر شہباز نقوی کا ذکر نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے؟پروفیسر شہباز نقوی کی یادوں کے گلدان سے ڈاکٹر افتخار بیگ صاحب نے چند مہکاروں کا ذکر فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
’’شہباز نقوی ایک محبت کرنے والا شخص تھا۔ایک ایسا شخص جو اپنے خوابوں کو حقیقت اور حقیقت کو خواب سمجھ بیٹھا تھا۔اس کی ذات میں ایک خاص طرح کی درویشانہ تھی‘‘
کالج میگزین’’ تھل‘‘کے ’’بوئے گل‘‘میں غزلیات شامل ہیں۔جن میں پروفیسر ریاض راہی،حمید الفت ملغانی،محمد علی احسان گرمانی،شاہین اور مونا کی غزلیات شامل ہیں۔جبکہ’’ نالہ دل ‘‘میں ڈاکٹر افتخار بیگ صاحب کی ’’نیلاب کا افسوں‘‘سلیم آکاش کی’’سچائی ‘‘اور ’’ایک ادھوری نظم‘‘عشتار کرن کی ’’خوابوں کی بستی میں‘‘ اور’’ایک تمنا‘‘نزہت رضا کی ’’تم کتنے کٹھور ہو‘‘اور ’’نظم‘‘لالہ رخ کی ’’ایک نظم جو نامکمل رہے گی‘‘صائمہ عباس کی ’’کچھ کہنا تھا‘‘محمد بابر احسان منتظر کی ’’مرے لفظوں پہ اعتبار کرو‘‘عصمت صدیق کی ’’زندگی ‘‘ اور ’’دسمبر‘‘ جبکہ عبدالغفور کی ’’پروین کی الیکٹرانک لو‘‘نظمیں شامل ہیں۔
دودِ چراغ محفل میں افسانے شامل ہیں۔پہلا افسانہ ڈاکٹر افتخار بیگ صاحب کا’’آوازوں کے سہارے جیتا آدمی‘‘ ہے جس میں ڈاکٹر افتخار بیگ صاحب نے زندگی چند ایک علامتوں کا ذکر فرماتے ہوئے لکھا ہے :۔
’’میرے شہر کی ہمکتی گلیوں میں کتنی صدائیں بھر گئیں مگر ہر شام ان نیم تاریک گلیوں میں آوازوں کے تین بھنور اٹھتے ہیں اور معدوم ہو جاتے ہیں۔’’گھوم۔۔۔گھوم۔۔۔گھوم۔۔۔رُک گیا تو مرگیا‘‘وہ پگلی آج نہیں ہے مگر مجھے لگتا ہے کہ وہ زمانوں سے اسی طرح پاگل پن کا ڈھونگ رچائے ایک ہی صدا بلند کررہی ہے ۔دور کہیں بابا بگو مستانہ رقص اور پاکوبی کی آواز اور پیٹرومیکس لیمپ روشن کرنے والے بابا کے قدموں کی چاپ یہ تینوں آوازیں قصبے کی گلیوں میں بکھری پڑی ہیں،مگر مجھ سمیت پوری بستی مرچکی ہے‘‘
ڈاکٹر افتخار بیگ صاحب کا میگزین میں شامل دوسرا افسانہ’’جاہل‘‘ ہے جس میں کئی سوال اٹھائے گئے ہیں اور معاشرے کے ہر فرد پر کڑی تنقید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’’ماسٹر نے پوری کلاس کو مخاطب کیا ۔۔۔اوئے دیکھو ،بالکل جاٹ ہے ،دیہاتی گنوار اور چلاآیا ہے سائنس پڑھنے ۔شکل دیکھو اس کی ۔۔۔منہ دھویا تھا صبح تو نے۔۔۔لڑکے کے جسم پر طاری لرزہ اب مزید بڑھ گیا تھا۔اس کی قمیض کا پلو جیسے کپکپا رہا تھا۔اس کی زبان سے ایک لفظ بھی ادا نہ ہوا۔وہ خاموش کھڑا رہا۔اچھاااا،ماسٹر پھر گویا ہوا۔اچھا یہ بتا جانی حرامی۔۔۔مڈل میں تیرے کتنے نمبر ہیں؟لڑکے کے چہرے پر جیسے رنگ سا امڈ آیا۔اس لڑکے نے لرزیدہ لہجے میں کہا’’سات سو بیس‘‘یہ لفظ کسی بم کی طرح پھٹے تھے۔سائنس ماسٹر ایک لمحے کو گنگ ہو گیا‘‘۔
عدیلہ یوسفی کا ’’محبت کیوں نہیں ملتی‘‘میں جھوٹی انانیت کے خول سے کس طرح نئی زندگیاں بربادی کی دہانے پر پہنچتی ہیں ان پر لکھتی ہیں:۔
’’مسکان نے اپنا وعدہ پورا کیا کہ اگر وہ سوید کی نہیں تو کسی کی بھی نہیں اور آج وہ اپنے گھر سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئی ۔وہ مولوی جو مسکان کا نکاح کروانے آیا تھا وہی اس کا جنازہ پڑھائے گا ‘‘
’’محبت‘‘میں کمیل عباس نے محبت کی حقیقت بیان کی ہے ۔ فرماتے ہیں:۔
’’آرام سے ۔۔۔ابھی آپ کو آرام کی ضرورت ہے آپ کو بچانے کے لیے ہی اس نے اپنی جان دی ۔وہ آپ سے پہلے ہوش میں آگئی تھیں۔لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ آپ کے لیے خون کا بندوبست نہیں ہو رہا ہے تو وہ اپنا خون دینے کے لیے تیار ہوگئی ۔انہوں نے کہا کہ ان کے جسم سے خون کا آخری قطرہ نچوڑ لیں’’غالبا وہ آپ سے بہت محبت کرتی تھی‘‘
رودادِ چمن اور اہل چمن میں نامور لوگوں پر لکھے گئے خاکے،آپ بیتی اور سفرناموں کا تذکرہ ملتا ہے ۔ڈاکٹر انور نذیر علوی صاحب کا ’’خادم الکثیر یا خادم الکبیر(پروفسیر خادم اعوان صاحب کی ریٹائرمنٹ کے موقع پرلکھا گیا)،تاریخ کے نقوش(ظہیر الدین بابر)’’لوآج ہم بھی ریٹائر ہو گئے‘‘،پانچواں درویش(غلام محمد خان،خورشید احمد درانی،ملک بہادر مہر اختر وہاب پر)خاکے لکھے ہیں۔جبکہ محمد حسنین نے ’’سکاؤٹنگ کیمپ مری کی روداد‘‘شمائلہ قیصر کا سفر نامہ’’تونسہ بیراج کا مطالعاتی دورہ ‘‘اور حبیب احمد کا ’’چکر ڈیرہ بورڈ‘‘جبکہ اقراء اقبال کی آپ بیتی’’میں اپنے کالج میں‘‘ شامل ہیں۔
کالج میگزین ’’تھل کے کشتِ زعفران میں پروفسیر خالد بلال میتلا کا مضمون’’جدید دور کے جدید طلباء(طنزو مزاح)‘‘نزہت رضا کا’’مرزا غالب گورنمنٹ کالج میں‘‘شامل ہیں جبکہ کالج تھل میگزین میں مختلف
سوالوں پر اساتذہ اور طلباء کی رائے لی گئی ہے ۔
آخر میں نقطہ نظر میں گروپ سروے کے علاوہ ثمینہ نذر کا لکھا گیا مضمون’’آرٹس کے طلبا‘‘عظمت گل کا’’آنکھوں دیکھا حال‘‘سعدیہ اشرف کا’’طبقہ نسواں:ہمت و جرات کا نشان‘‘احسان الہی کا ’’مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ‘‘ اور محمد ارشاد علی کا’’میڈیا کا کردارمثبت یا منفی‘‘شامل ہیں۔جبکہ اختتام پر پاکستانی زبانوں میں سرائیکی کے نامور شاعر پروفیسر شفقت بزدار اور حمید الفت کا کلام شامل ہے ۔
’’تھل‘‘ تنقیدی و تحقیقی نمبر کا۔۔۔۔128صفحات پر مشتمل ’’تھل‘‘ تنقیدی و تحقیقی نمبرمیں سربراہ ادارہ کے پیغام اور مدیر کے اداریہ کے علاوہ 17مضامین میں نامور ادبی شخصیات اورادب کے اہم موضوعات زیر بحث لائے گئے ہیں۔’’تھل میگزین میں نامور قلم کاروں نے صفحہ قرطاس پر موتی بکھیرے ہیں جن میں ڈاکٹر افتخار بیگ،پروفیسر مہر اختر وہاب،ریاض راہی،صغیر عباس جسکانی،ڈاکٹرحمید الفت ملغانی،رانا غلام یٰسین،محمد سبحان سہیل،اعجاز حسین،محمد افضل صفی،پروفیسر مختیار حسین بلوچ،نسرین کوثر،عدیلہ یوسفی،سبحان سہیل خان،شاہد بخاری اور محمد فاروق شامل ہیں۔
’’تنقیدی و تحقیقی نمبر‘‘ میں ڈاکٹر حمید الفت ملغانی نے اپنے مضمون’’کبھی تم سوچنامیں کربِ فرقت کی حقیقت ‘‘ میں تخلیق افتخار پر گفتگو فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’ایک نظم جس کا عنوان’’خوشی‘‘ ہے لیکن اس میں بھی کربِ فرقت کی روح کچھ یوں حلول کر گئی ہے۔
غمِ فرقت میں
میری آنکھ سے موتی برسے
میں
بہت خوش ہوں
مجھے آج تیری یاد آئی
نسرین حمید کے لکھے گئے مضمون ’’افتخار بیگ کی شاعری۔ایک مطالعہ‘‘میں افتخار افکار کو موضوع بناتے ہوئے فرماتی ہیں کہ
’’ڈاکٹر افتخار بیگ استحصال زدہ معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں ،ان کے ہاں خامیوں کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ ان کا حل بھی موجود ہے ۔شعر دیکھیں:
ہم نے برسوں تلک نفرتیں بوئی تھیں
وقت کا جبر پھر ناگہانی ہے کیا؟
سبحان سہیل خان نے افتخارِ زیست کے پنوں میں سے موتی نکالے ہیں ،وہ فرماتے ہیں کہ:’’ڈاکٹر افتخار بیگ سمجھتے ہیں کہ ظالم کے خلاف آواز بلند نہ کرنا بذات خود ایک جرم ہے کیوں کہ اس لایعنی خاموشی سے ظالم کے حوصلوں میں اضافہ ہوتا ہے ۔اس لئے وہ احتجاج کو اپنا حق بھی سمجھتے ہیں اور فرض بھی ۔
کیوں شہر میں خوشیاں ہوئیں کم،بات کرو جی
ہر سمت ہیں کیوں دردو الم بات کرو جی
’’تھل ‘‘میگزین کی انفرادیت و اہمیت اس بات سے لگائی جا سکتی ہے کہ محسن نقوی نے امام خمینی کے چند ایک اشعار کا منظوم ترجمہ تو ضرور کیا لیکن امام خمینی کو بطور شاعر ’’تھل‘‘میگزین میں چھپنے والے پروفیسر صغیر عباس جسکانی کے مضمون میں امام خمینی کی شاعری پر جس انداز سے گفتگو کی ہے وہ لائق تحسین ہے ۔ اسی طرح صغیرعباس جسکانی صاحب نے فکرِ خیال سے وابستہ منفرد لہجے کے شاعر ’’ریاض راہی‘‘پر فارسی میں جو مضمون لکھا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔
مذکورہ میگزین میں ڈاکٹر افتخار بیگ صاحب اپنے مضمون’’پروفیسر مہر اختر وہاب کی تحقیقی کاوش : ایک جائزہ‘‘میں مہر اختر وہاب صاحب کی کاوشوں کا اعتراف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’مہر اختر وہاب کا خیال ہے کہ اسلامی ادب کی تحریک کے نزدیک ہر بے مقصد تخلیق لایعنی اور لغو ہے،ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اسلامی ادب کی تحریک کا مقصدایک ایسی سلطنت کا حصول و قیام ہے ’’جس میں خالق کائنات کے احکامات جاری ہوں اور خدا پرستی کی بنیاد پر ایک صالح معاشرے کا قیام عمل میں لایا جائے‘‘
مہر اختر وہاب صاحب کا تحریر کردہ مضمون’’اسلامی ادب کی تحریک کا ردعمل‘‘اسلامی تحریکوں پر بحث کرتے ہوئے اعتراضات اور حق میں دلائل پر مفصل گفتگو کرتے ہوئے مکالمے کی سی صورت پیدا کرتے ہوئے مضمون کو چند ایک حصوں میں تقسیم کرتے ہیں جس کے مطابق ،اسلامی ادب کی تحریک پر عسکری کے اعتراضات،نعیم صدیقی کے دفاعی دلائل ،فراق گورکھ پوری کے اعتراضات،فراق کے مؤقف کا استرداد،حامیان فراق،اسلامی ادب کا دفاع۔جواب الجواب،اعتدال پسندنقادوں کا نقطہ نظر شامل ہیں۔
ریاض راہی صاحب نے گوشہ غالب میں سے ’’مرزا غالب کی المیہ شاعری‘‘کا انتخاب کیا۔جبکہ محمد سبحان سہیل نے ’’تحقیق و تنقید کا تعلق‘‘پرقلم فرسائی فرمائی ۔اسی طرح اعجاز حسین نے ’’ظفر اقبال کی غزل ‘‘پر اور محمد افضل صفی نے ’’رومن رسم الخط اور اردو‘‘عدیلہ یوسفی نے ’’فرحت اللہ بیگ کی خاکہ نگاری‘‘ شاہد بخاری نے ’’دنیا کی آسان ترین زبان اسپرانتو‘‘ اور محمد فاروق نے سرائیکی زبان کی پہچان ’’شفقت بزدار دے کلام اچ ثقافتی شعور دا حوالہ ہک جہات‘‘جبکہ رانا غلام یٰسین نے ’’خیر الاذکار کی تدوین۔ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر کا ایک علمی و ادبی کارنامہ ‘‘ پرمضامین لکھے ہیں۔
یہ شمارے یقیناعلم و ادب کی دنیا میں ایک اضافہ ہے۔ اور لیہ کے علمی حلقوں میں زیرِبحث رہیں گے۔