پنجاب پولیس کا اعلی آفیسر اور گالیاں
:کل فیس بک پہ پنجاب پولیس کے ایک اعلی آفیسر کی گھن گھرج تقریر سنی جسمیں وہ پولیس جوانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے فر مارھے تھے کہ”کسی نے سوشل میڈیا میں ھم پولیس والوں کے بارے میں منٹو کے افسانے کے کسی جملے میں ترمیم کرکے کہا ھے کہ:”جو طوائف اور ۔۔۔۔۔۔۔۔کے ملاپ سے پیدا ہوتا ہے اسے پولیس والا کہتے ہیں، اور انہوں نے طنزا فلمی انداز میں کہاکہ ہاں ھم حرامزادے ہیں کیونکہ ھم نے سینکڑوں کی تعداد میں ان لوگوں کیلیئے قربانی دی جو ھمیں گالیاں دیتے ہیں” (وغیرہ، وغیرہ)-گو اس بابت دو رائے ہو ہی نہیں سکتی کہ کوئ کسی کوکیونکر گالیاں دے، اور اس بات کا بھی کسی کو حق نہیں کہ وہ گالی کے جواب میں دوسرے کوبھی گالی دے یعنی کہ جرم کے بدلے جرم کہ جیسا پولیس آفیسر موصوف نے پولیس والوں کو اشتعال دیتے ہوئے کہا کہ وہ گالی کا جواب کیوں نہیں دیتے یعنی کہ وہ گالی کا جواب بھی گالی سے ہی دیں یا پھر مار پیٹ پہ اتر آئیں، جوکہ انکے عظیم الشان منصب کا ہر گز تقاضہ نہ تھا اور نہ ہی ھے بلکہ اسطرح تو وہ اپنی سروس کے حوالے سے شدید قسم کےمس کنڈکٹ کے مرتکب ٹہرے، گھر کے رکھوالے کو ھتیار ،کھانا اور سر چھپانے کو جگہ اس لیئے نہیں دی جاتی کہ وہ اپنے ہی محسن و مربی کو طعنہ ظنی اور دشنام طرازی کانشانہ بنائے؛ ھتیار کے زور پر اپنےہی مالک کی عزت وناموس سے کھیلے اور موقع پاکر اسکی جان تک لے لے، موصوف کا دوسرے لفظوں میں کہنا تھا کہ وہ اور انکے اہلکار پوری پاکستانی قوم پہ احسان عظیم کر رھے ہیں،جبکہ درحقیقت صورتحال بالکل برعکس ھے،پاکستانی قوم ہی دراصل انکی محسن ومربی ہونے کے باوجود خود فاقے کرکے کم کھا کر ڈائریکٹ و ان ڈائریکٹ ٹیکسز دے کر اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کو اپنے مملکتی اثاٹوں کو آئ ایم ایف و ورلڈ بینک میں گروی رکھواکر حاصل کردہ قرض سے خطیر رقم امن وامان قائم رکھنے والےاداروں پر خرچ کرتی ھے،انہیں پر تعش زندگی فراھم کرتی ھے شاندار بنگلے کوٹھیاں رہائش کیلیئے نوکر چاکروں کی فوج ظفر موج،سفر ی سہولتوں کیلیئے گاڑیوں کے قافلے،بیوی بچوں اور ان آفیسران سمیت انکے والدین کے بہترین علاج معالجے کی سہولتیں دیتی ھے،خود سر کاری ھسپتالوں میں معمولی دواوں کیلیئے ترستی ھے،نان شبینہ سے محروم رہتی ہے،اکثر کے بچے ان پولیس آفیسران سے بدرجہا قابل مگر روڈوں پہ گھسٹتے دھکے کھاتے یا ٹوٹی پھوٹی موٹر سائیکلوں پہ بیٹھے ان نام نہاد آفیسران کی ھوٹر لگی گاڑیوں کیلیئے رستہ دیتے حسرت سے کبھی انکو کبھی نیلگوں آسمان کو تکتے ہیں اور آہ بھر کے رہ جاتے ہیں-یہی پولیس آفیسران جو عوام کے طیب لہوپہ پلتے ہیں الٹا انہیں ہی انتہائ حقیر گردانتے ہیں کہ اتنا حقیر تو انکا آقا انگریز بھی انہیں نہ سمجھتا تھا،بات یہ ھے کہ آپ آفیسران کی جبری بھرتی نہیں ھوئ آپ لوگ بے پناہ شوق و سفارش سے یا اپنی قابلیت کے بل بوتے اس محکمے میں آئے ھم عوام آپکو سیاسی رھنماوں کی طرح ایلکٹ کر کے نہیں لائے،اگر آپکو اپنے آقاو مربی پہ بےجاتشدد، انکے آہ و گریہ زاری کو ختم نہ کرنے کی تردد اور اس تشدد کوآئیندہ بھی جاری رکھنے کیلیئے انہیں بلیک میل کرتے رہنے کا کوئ یارا ھے تو بہتر ھوگا کہ ان مناصب کوآپ چھوڑ ہی دیں تاکہ آپ سے کوئ اچھا باکردار اور محسنوں و مربیوں کا کوئ قدر دان آجائے-پوری دنیا میں عوام کے ٹیکسز پہ پلنے والے ادارے عوام کو نہ ہی طعنہ دیتے ہیں اور نہ ھی ان پراحسان جتاتے ہیں، بعض ملکوں میں ان اداروں کے افراد سینکڑوں نہیں،ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں اپنی جانیں دے چکے ہیں مگ حرام ہے کہ کبھی اپنی عوام پہ احسان جتایا ہو؛اگر آپ لوگوں کو اپنی جان بہت زیادہ پیاری ھے تو مستعفی ہو کر گھر بیٹھ جائیں تاکہ آپ سے بہت بہتر اور مخلص لوگ آجائیں ؛دراصل آئینہ سچ بولتا ھے ھم اپنے چہرے پہ لگی کا لک اتارنے کی بجائے آئینہ توڑنے کی کوشش میں جت جاتے ہیں،پولیس کے اعلی آفیسر موصوف کے بیان سےشدید مس کنڈکٹ بلکہ باغیانہ سوچ کی بو آرھی تھی انکا انداز خطابت پولیس کو بھڑکانے کے مترادف تھا-ریا ستیں، ادارے، اقتدار اعلی سب کچھ عوام کیلیئے ھوتا ھے،کیونکہ جسطرح دھرتی ماں سے اناج پیدا ہوتا ھے اسی طرح اسے پیدا کرنے والا محنت کش دھرتی کا مائ باپ ھوتاھے،اسی طرح کارخانوں میں کام کرنے والا محنت کشں جو ھم سب کیلیئے زندگی کی بنیادی اور لازمی چیزیں فراھم کرتا ھےاور اس جیسے دیگر بہت سے ہی تو عوام ہیں جبکہ ھم سب انکے طفیلیئے ہیں، یہ لوگ ہی ھم سبکے محسن و مربی ہیں اور جو کوئ اپنے محسن ومربی کوبھول جاتا ھے،فطرت اسے بھول جاتی ھے؛اور جو اپنے محسنوں کوڈستا ھے قدرت اسے فنا کر دیتی ھے-