انسان ، حیوان ، چرند ، پرند بمعہ حشرات الارض اور مخلوق خدا جتنی بھی اللہ تعالی نے بنائی ہے ہمہ وقت گھبراہٹ میں رہتی ہے کیونکہ انکے اندر کا ڈر اسے دوسرا قدم اٹھانے یا نہ اٹھانے پر مجبور کررہا ہوتا ہے ، بچپن , جوانی اور حتی کہ بڑھاپے میں بھی ایک ڈر موجود ہوتا ہے ، بچپن میں والدہ کے سامنے بیانگ دہل اور والد کے سامنے بھیگی بلی کی طرح چیز کی فرمائش ، سکول جاتے ہوئے اساتذہ کا ڈر ، سکول وقت پر نہ پہنچنے پر اسمبلی ٹیچر کا ڈر کہیں نہ کہیں چھپا ہوا ہوتا ہے۔ ہوم ورک ، کاپی پراضافی لکیریں ، تختی کی سیاہی ، قلم ، سلیٹ سکہ کی غیر موجودگی ایک ڈر کا ماحول پیدا کئیے رکھتا ، امتحان میں سوالوں کے جوابات نہ آنے کا ڈر ، نتائج میں پاس فیل ہونے کا ڈر ، شعور سے پہلے بڑوں کا ڈر شعور کے بعد اپنے سفید دامن کا ڈر ، یہ ڈر ہی ہے جو انسان کو حیوان بنا دیتا ہے اور حیوانوں کو قابو کرنے کا گر سکھا دیتا ہے ، ماں کو گھر سے نکلتے بچے کی واپسی تک ڈر ، بازار جاتے شوہر کا بیوی کو ڈر ، سڑک حادثے کا ڈر ، راستے میں خونخوار درندوں کا ڈر ، اندھی گولی کا ڈر ، کھیلتے بچے کے ساتھ سلوک کا ڈر ، دو سال سے ستر سال کی خاتون کی عزت لٹ جانے کا ڈر ، بینک سے رقم نکلواتے کھو جانے کا ڈر ، پڑھے لکھے نوجوان کو نوکری تلاش کرنے کا ڈر ، ملازم کو نوکری چھٹ جانے کا ڈر ، مزدور کو مزدوری نہ ملنے کا ڈر ، بھوکے کو شام کی روٹی کا ڈر تھکا دیتا ہے ، دیوار پر بیٹھا کوا کو آپ ہاتھ کا اشارہ ہی کردیں وہ ڈر جاتا ہے کہ شاید یہ گلیل کا بنٹہ ہے یا بندوق کی گولی ۔چند سال قبل لاہور میں ماڈل ٹاون کا سانحہ اس بات کا ڈر پیدا کرگیا کہ آپ ریاست کے حکمرانوں کے خلاف آواز بلند نہیں کرسکتے ، سانحہ ساہیوال کا واقعہ خاندان و بچوں کے ہمراہ قانون نافظ کرنے والے اداروں کا ڈر پیدا کرگیا کہ کہیں آپکو چوراہے راستے پر دہشت گرد قرار دے کر بھی مارا جاسکتا ہے اور آپکے بچوں کو سڑک کنارے بے یارومددگار چھوڑا جاسکتا ہے ، اسی طرح موٹروے پر رات کے تین بجے اکیلی خاتون کو بچوں کے سامنے جسمانی و غیراخلاقی تشدد کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے وہاں بھی ایک ڈر تھا جوکہ بچوں کا ڈر تھا ۔ ساری زندگی آپ انہی ڈر و خوف کو محسوس کرتے زندگی گزار دیتے ہیں لیکن یہی ڈر جب اندر سے باہر نکلتا ہے تو ایک انسان تخت سے ٹکرا جاتا ہے ، ظلم کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے ، نتائج کی پرواہ نہیں کرتا کہ کیا ہوگا لیکن وہ کامیاب ضرور ہوجاتا ہے ، یہی ڈر تخت پر بیٹھے یزید کو تھا کہ حسینؑ کی بعیت لی جائے ورنہ یہ تخت وشاہی کسی کام کی نہیں ، یہی ڈر فرعون کو تھا کہ اس نے پیدا ہونے والے ہر بچہ کو مار دینے کا حکم دیا ، مغل شہزادے کو ایک ڈر تھا کہ والد کو تخت سے الگ کرکے بند کوٹھڑی میں ڈال دیا ، بادشاہی چھن جانے کا ڈر پیدا ہوا تو داوود پوترے سندھ سے سیت پور، دائرہ دین پناہ ، لیہ ، کوٹ کروڑ ، بہل سے کلورکوٹ تک جا پہنچے اور حکومت قائم کرلی ، وہی ڈر تھا کہ سیت پور کا بادشاہ آگے بھاگتا رہا لیکن ڈیرہ اسماعیل خان میں پکڑا گیا ۔ ایک شریف شہری جس نے پوری زندگی والدین کی عزت و تکریم کے ڈر سے سفید کپڑوں کی طرح گزار دی کہ اس پر داغ نہ لگے لیکن ایسے میں ایک بے نامی داغ لگانے کوئی آ کھڑا ہو جس کو اپنے والدین کا علم نہ ہو کہ انکی تکیریم و عزت کیا تھا تو ایسے میں ڈر پیدا ہوجاتا ہے اور اسی ڈر کی وجہ سے جھکنا پڑتا ہے ۔ یہ ڈر متبادل کی چاہت میں تبدیل ہوسکتا ہے اور وہ چاہت ، مالی ، معاشی و جسمانی ہو۔ جب ڈر اندر سے ختم ہوجائے تو سامنے آنے والی ہر بلا سے ٹکرا سکتے ہیں ، ڈر ختم ہوا تو تین سو تیرا سپاہی ایک ہزار کے سامنے ٹکرا رہا تھا ، کربلا کے بہتر سپاہی ایک لاکھ فوج کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہ ہوئے ۔بے خوف تنہا نوجوان بھی کئی افراد کو ڈرا رہا ہوتا ہے۔ جس کے اندر کا ڈر ختم۔ہوچکا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔