درخت زمین کا زیور ہیں جس آراضی پر جتنے زیادہ درخت ہونگے وہ زمین ہی نہ صرف خوبصورت ہو گئی بلکہ وہاں زیر زمین پانی اور فضا صحت افزاء ہو گی قیام پاکستان کے بعد جہاں ریاست میں ریاستی ادارے روز بروز تنزلی کا شکار ہوتے گئے وہیں فاریسٹ کا محکمہ بھی روز بروز زبون حالی کا شکار ہوتا گیا ضلع لیہ میں لگایا جانے والہ جنگل جس کا موجودہررقبہ کاغذات میں 42494ایکڑ چھ کنال ہے کبھی یہ صورت احوال تھی کہ مصنوعی طور پر لگائے جانے والے اس جنگل میں مقامی لوگ دن کے اوقات میں بھی جانے سے گھبراتے تھے گھنے درختوں کے سبب سورج کی کرنیں روشنی زمین تک نہیں پہنچ سکتی تھی مگر گزرتے وقت کیساتھ ساتھ ٹمبر مافیا ء مضبوط سے مضبوط ہوتا گیا جس کے سبب درختوں کے نہ صرف ٹرک بلکہ ٹرالے چوری ہونے لگے جنگل کا نہری پانی مقامی زمینداروں کو فروخت ہونے لگا جنگل کی آراضی پر مقامی زمینداروں نے آہستہ آہستہ کاشت کاری کرنا شروع کر دی جنگل سے مٹی بھرتی ڈالنے والی ٹرالیاں اٹھا کر فروخت کرنے لگے بلا شبہ ٹمبر مافیاء کے ساتھ محکمہ جنگلات کے کرپٹ آفیسران کی آشیر باد حصہ داری بھی شامل تھی جس کے سبب مقامی آبادی بھی خاموش تماشائی بنی رہی اب تک 1720مقدمات ٹمبر مافیاء کے خلاف درج ہوئے مگرسزاکا خوف نہ ہونے کے سبب ٹمبر مافیاء کے گھنے جنگل چٹیل سفید میدانوں میں تبدیل ہو گئے تاحد نگاہ درخت نظر نہیں آتے گزشتہ تیس سال سے ورکنگ پلان نہیں بن سکا محکمانہ طور پر جو فنڈ ملتے ہیں وہاں شجر کاری ہوتی بھی ہے تو حسرت ان غنچوں پر جو بن کھلے مرجھا گئے کے تحت سیکورٹی کا مناسب انتظام نہ ہونے کے سبب کرپٹ آفیسران اہلکاران کی آشیر باد سے چھوٹے چھوٹے درخت کاٹ لیے جاتے ہیں ابتدائی طور پر دس ٹیوب ویل لگائے گئے جن پر ٹیوب آپریٹر بھرتی کئے گئے تھے ٹیوب ویل آپریٹر اب بھی تنخواہیں وصول کر رہے ہیں مگر صد افسوس کہ ٹیوب ویل غائب ہیں جانور چرانے والے مویشی پالوں نے جانوروں کے ریوڑ رکھے ہوئے ہیں جس کو جنگل میں وہ چراتے ہیں اسی طعح جنگل میں ہی مسکٹ تھریشر مشینوں سے گٹکا بنا کر فروخف کیا جا رہا ہے
جنگل میں جا بجابا اثر شخصیات کی سر پرستی میں آرے مشین لگے ہوئے ہیں
محکمہ جنگلات کے آفیسران اہلکاران جنگل کو آباد کرنے کی بجائے اپنے وسائل مختلف سرکاری آفیسران کے دفاتر یا انکی سرپرستی میں ہونے والی شجر کاری کی افتتاحی تقریب میں پودے لگا نے پر اپنی توجہ مرکوز کئے رکھتے ہیں
جنگل کی مختلف بیٹوں میں کام کرنے والے دیہاڑی داروں کو بھی نقدی دیہاڑی دینے کی بجائے محکمہ کے ملازمین درخت کٹوا دیتے ہیں
چوک اعظم شہر میں خورشید سپورٹس کمپلیکس کے عقب میں محکمہ جنگلات کی قیمتی کمرشل آراضی پر محکمہ جنگلات کے آفیسران کی نا اہلی کے سبب مقامی ملحقہ افراد قابض ہو رہے ہیں
درختوں کی کٹائی سے فضا اور زیر زمین پانی آلودہ ہوتا جا رہا ہے درختوں کی کٹائی سے مختلف بیماریوں کی وبائیں پھیل رہی ہیں ریاستی اداروں کوٹمبر مافیاء کے خلاف سخت ترین قانون سازی کرنا ہوگئی محکمہ جنگلات کی آراضی کو قبضہ مافیا سے واگزار کر وہاں شجر کاری کرنا ہو گئی سرکاری دفاتر میں ہونے والی شجر کاری میں بھی محکمہ جنگلات کے بغیر ہی کرتے ہوئے محکمہ جنگلات میں کی جانے والی شجر کاری پربھی ریاستی ادارے ہنگامی طور پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے ٹمبر مافیاء کیساتھ ساتھ محکمہ جنگلات کے کرپٹ آفیسران کے خلاف بھی بلا امتیاز کاروائی کی جائے ڈپٹی کمشنر لیہ ڈسٹرکٹ شیشن جج سمیت اعلی آفیسران اگر اپنے اپنے اداروں میں ڈسٹرکٹ فاریسٹ آفیسرکیساتھ شجر کاری کے موقع فوٹو شیشن کرانے کی بجائے محکمہ جنگلات کے آفیسران ملازمین سے تاحد نگاہ وسیع آراضی پر درخت نہ لگانے کا سبب پوچھتے ہوئے سوال کریں تو شائد اداروں میں پودے لگانے کی بجائے جنگلات کی آراضی پر بھی درخت لگانے اور انکی حفاظت کے بارے کوئی پلاننگ بنا لیں۔۔۔۔