الیکشن سے پہلے اور بعد میں موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی ہر تقریر میں پاکستانی قوم سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ محکمہ پولیس کو ٹھیک کرکے دکھائیں گے ۔ سیاسی بنیادوں پربھرتی ہونیوالوں کو نکال کر باہر پھینکیں گے ۔ محکمہ سے درندہ صفت ،رشوت خور ،جاہل اور میڈیکل فٹنس نہ رکھنے والے ملازمین کو فارغ کرکے پڑھے لکھے ،ایماندار ،قابل اور اچھی شہریت کے حامل آفیسران کو تعینات کیا جائےگا ۔ قانون وانصاف کی فراہمی ہوگی ۔ ظلم کا دور ختم ہوگا ۔ قانون اور انساف کی فراہمی غریب ،امیر کے لئے یکساں ہوگی ۔ پولیس کے فرسودہ ،نظام میں اصلاحات کی جائیں گی ۔ تھانوں میں مار پیٹ بندکرکے تفتیش کےلئے جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا جائےگا ۔ ظالموں کی پشت پناہی بندکرکے طاقتور کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائےگا ۔ یہ وہ چند اہم ترین خواب تھے جو تحریک انصاف کی حکومت نے عوام کو دکھائے لیکن افسوس حکومت کو ایک سال سے زائد کا عرصہ بیت جانے کے باوجود ان وعدوں پر عملدرآمد نہ ہوسکا بلکہ یہ فقط دیوانے کا خواب ثابت ہوئے ۔
بقول شاعر ۔
اس توں وڈا اک بندے دا ہے کوئی ہور غذاب
اک اک کرکے اندھے ہوگئے جس دے سارے خواب
گذشتہ کچھ عرصہ میں میڈیا پر وائرل ہونےوالے پولیس گردی کے چند واقعات نے پولیس کا بھیانک چہرہ عوام کے سامنے پیش کیا ہے ۔ عوام ابھی ماڈل ٹاءون سانحہ میں ہونے والی پولیس گردی کو بھول نہیں پائی تھی کہ ساہیوال میں دہشتگردی کی آڑ میں دن دیہاڑے گولیوں کی بوچھاڑ سے پورا خاندان کا خاندان بھون ڈالا گیا ۔ حکومتی ردعمل کے طور پر شروع میں روایتی بیانات کی بھر مار ۔ وزیروں مشیروں کی آنکھوں سے آنسوءوں کی برسات لیکن بالا آخر نتیجہ صفر ۔ ہمیشہ ایک ہی رٹارٹایا بیان کہ مرنے والوں کو انصاف ملے گا ۔ رحیم یار خان میں پولیس نے تشدد سے قوت گویائی سے محرو م نیم پاگل شخص کو زبان عطاکی اور وہ تاریخی الفاظ;3939; مارنا کتھوں سکھیا جے;3939; کہہ کر پولیس وردی میں ملبوس چندکالی بھیڑوں کے منہ پر زنائے دار تھپڑ رسید کر کے دینا سے رخصت ہوگیا ۔ ابھی ان الفاظ کی بازگشت ذہنوں میں گونج رہی تھی کہ لیہ پولیس کے شیر جوانوں کے ہاتھوں بھٹہ مزدور کو بھیانک تشدد کا نشانہ بنانے کا واقعہ سامنے آگیا ۔ متاثرہ بھٹہ مزدور مسلسل بہوشی اور سریس حالت میں ملتان نشتر ریفر کردیا گیا ۔ جہاں وہ زندگی اور موت کی جنگ لڑرہا ہے ۔
گذشتہ کچھ عرصہ سے چوک اعظم شہر میں امن وامان کی صورتحال نہایت ابتر ہے چوری ،ڈکیتی ،راہزنی ،منشیات فروشی اور جسم فروشی جیسے جرائم نے جہاں ایک طرف یہاں کے باسیوں کو کربناک اذیت میں مبتلا کررکھا ہے تو دوسری طرف پولیس کی روزی روٹی کھل گئی ہے ۔ ڈکیتوں اور چوروں کو ٹریس آءوٹ کرنے اور موبائل ڈیٹا کو بنیاد بناکر روزانہ کی بنیاد پر چند شرفاء کو اٹھا کر تھانہ اور اور بعض تگڑی آسامیوں کو نجی ٹارچر سیلز میں لے جاکر مارپیٹ اور بعدازا ں مک مکاء کرکے چھوڑنے کے واقعات زباں زدعام ہیں ۔ مقدمات کے اندراج اور بعدازاں بغیر انکوائری اخراج کے علیحدہ علیحدہ ریٹ مقرر ہونے کی بھی مصدقہ اطلاعات ہیں ۔ صحافی کسی بھی معاشرے کی آنکھ اور کان ہوتے ہیں انکام کام جرائم کی نشاندہی کرنا اور مظلوم عوام کی آواز بننا ہے ۔ جسکی وجہ سے آفیسران و ملازمین کو اپنی خامیوں کو دور کرنے اور اصلاح احوال کا موقع میسر آتا ہے ۔ منی کراچی کے نام سے مشہور ہونے والے شہر چوک اعظم میں امن وامان کی ابتر صورتحال پر جب صحافیوں نے قلم آزمائی کی تو بجائے اس کے کہ پولیس چوروں اورڈکیتوں کا تعاقب کرتی اور شہر کو جرائم پیشہ عناصر سے پاک کرتی ۔ مقامی پولیس نے نہایت منفی کردار ادا کرتے ہوئے ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا ۔ اور میں نہ سدھروں کی رٹ لگادی ۔ ذاتی جیب خرچ سے مخصوص میڈیا سیل کا کا وجود عمل میں لایا گیا جس نے عوامی مفادات کو پس پشت ڈال کر پولیس کا ناجائزدفاع شروع کردیا جوکہ اعلیٰ آفیسران کی آنکھوں میں دھول جھونکنے اورسب اچھا ہے کی رپورٹ پیش کرنے کی ناکام کوشش ثابت ہوا ۔ ذراءع کا کہنا ہے کہ صاحب موصوف لوگوں کو یہ کہتے پھرتے ہیں کہ میں انسپکٹر نہ ہونے کے باوجود بھی مسلسل سات سال سے ایس ایچ او شپ کرتا چلا آرہا ہوں ۔ میرے بھائی تگڑی پوسٹ پر تعینات ہیں جسکی وجہ سے کوئی میرا بال بیکانہیں کرسکتا ۔ پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ چوک اعظم پولیس جتنا زور ڈکیتیوں کو چوریوں میں بدلنے اور نامزد ملزمان کو حیلے بہانوں سے بیگناہ ڈکلئیر کرنے پر لگارہی ہے اگر اس سے آدھی توانائیاں بھی عوام کے جان ومال کا تحفظ یقینی بنانے پر صرف کی جائیں تو عین ممکن ہے کہ عوام مزید لٹنے سے بچ جائے ۔ سوشل میڈیا پر پولیس اور عوام کے درمیان لفظی گولہ باری اور بڑھتا ہوا تناءو شدت اختیار کرتا جارہا ہے ۔ اگر اس تشویشناک صورتحال پر بروقت قابوپاکر خو د احتسابی نہ کی گئی تو ود دن دور نہیں جب بے دلی کے شکار پولیس رویہ سے متنفر عوام ہٹ دھرمی پر اترے کرپٹ پولیس مافیا سے دست وگریباں ہوں گے ۔ اگر اداروں کا تقدس پامال ہوگیا تو پھر کچھ بھی نہیں بچے گا ۔ ہم قانون کا احترام ہی نہ کرسکے اور کرواسکے تو پھر کیا فائدہ ۔ سچ تو یہ ہے کہ میلے کچیلے اس نظام کو غسل دینے کی اہم ترین ضرورت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ چوک اعظم کے عوام پولیس ریفارمز کے شدت سے منتظر ہیں ۔
نوٹ : ۔ کالم نگار محمد شہباز قریشی الہاشمی چوک اعظم کے نو جوان صحافی اور پریس کلب چوک اعظم کے جزل سیکریٹری ہیں