یہ شا ید 80 کے عشرے کا ذکر ہے جب میں کلین شیو تھا اور عمر شا کر کی داڑھی کے بال گہرے کا لے اور بدن قدرے چھریرا تھا جب مجھے عمر شا کر کی طرف سے ایک تقریب میں شر کت کا دعوت نامہ ملا ، چوک اعظم میو نسپل کمیٹی کے جنا ح ہال میں منعقد ہو نے والی یہ تقریب تنظیم المدارس کی طرف سے فارغ التحصیل طلبا میں سندات تقسیم کر نے کے سلسلہ میں منعقد کی گئی تھی جناح ہال میں طلباء ، اسا تذہ اور سا معین کی تسلی بخش تعداد مو جود تھی ۔ مقامی سحافی بھی مو جود تھے جو سبھی کے سبھی میز بان تھے تقریب میں سٹیج پر میرے ساتھ دیگر مہمانان اعزاز کے ساتھ تنظیم کے بھاری بھر کم ذمہ داران بھی مو جود تھے جن کے بارے پتہ چلا کہ ان مو لا نا صاحبان کا تعلق اس وقت کے صوبہ سر حد اور آج کے کے پی کے سے ہے
احترام و محترم سے مزین عمر شاکر سے عشروں سے جڑا یہ تعلق آج بھی قائم و دائم ہے ۔ ممتاز مفتی کہتے ہیں کہ احترام ایک دیوار ہے جو محترم اور احترام کرنے والے کے درمیان کھڑی ہو جاتی ہے جو با ہمی محبت کے امکانات کو کم کر دیتی ہے ۔ ۔ یہ حقیقت مجھے زندگی کے 60 سال گذرنے کے بعد اب سمجھ آ ئی جب عمر شا کر سمیت چھوٹی عمر کے سبھی دوست مجھے محترم جان کر وقت بے وقت احترام ک چکی میں پیستے ہو ئے میری بے بسی اور بزرگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں ۔ شا ئد یہ احترام اور محترم کا ہی فلسفہ ہے کہ عمر شا کر اور صابر عطا سمیت سبھی میرے ہم عصر دوست "نیانے ” بن کر دوست کی بجائے برخوردار بنے مجھے بڑھاپے اور بزرگی کے احساس کی سولی پر چڑہائے رکھتے ہیں ۔ ۔ مطلب یہ کہ جو بھی فنکشن ہو احترام و محترم میں ملفوف سینئر اور بزرگ صحافی کے الفاظ ہم پر چا ند ماری کے لئے ہمہ وقت تیار ہو تے ہیں ۔ ۔
ٓ خو بصورت بات یہ ہے کہ آج کل صابر عطا کی سانول سنگت اور خود صا بر عطا بڑے فارم میں ہیں آ ئے روز کسی نہ کسی بہانے سماج کے زندہ ہو نے کا احسا س دلا تے رہتے ہیں ۔ ادبی و سماجی موضوعات پر مبنی وہ محفلیں جو پرانے لیہ کا حسن تھیں اور عرصہ سے قصہ پارینہ بنی ہو ئی ہیں لگتا ہے کہ صابر و شاکر نے مل کر ان خوبصورت شا موں کی شمعیں جلانے کا ارادہ باندھ لیا ہے ۔ ۔
کہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی
سا نول سنگت نے گذ شتہ دنوں عمر شاکر کے اعزاز میں اعتراف خدمت تقریب منعقد کی ۔ پریس کلب میں ہو نے والی اس تقریب میں سبھی تھے ما سوائے سر کاری افسران کے ۔ یہاں تک کہ مقامی پو لیس سٹیشن کے کر تا دھرتا تک بھی ہ میں اس تقریب میں نظر نہیں آ ئے کہ بزبان عقل و دانش پو لیس اور صحافیوں کا تو چو لی دامن کا سا تھ ہو تا ۔ ۔ مقصد یہ کہ عمر شاکر کے اعزاز میں ہو نے والی یہ تقریب سراسر افسر شا ہی اثرات سے پاک و مبرا تھی ، جس سے عمر شاکر کی درویشی اور اس کے ” استاد "ہو نے کا واضع ثبوت تھی ( معذرت تقریب میں بہت سے مقررین نے عمر شا کر کے لئے استاد بلکہ ایک صاحب نے تو استادوں کے استاد کا لفظ استعمال کیا )اس تقریب میں بھی ہم احترام و محترم کے فلسفہ کے اسیر رہے ۔ دیر سے جانے کے با وجود نکالے جا نے کی بجائے بزرگ اور سینئرکو سٹیج پر بیٹھے رفاقت گیلانی اور بشارت رندھاوجیسے علاقائی سیاست کے بڑے نا موں کے د ر میان یوں چن دیا گیا جیسے ہم انسان نہ ہوں سنگ مرمر کی وہ تختی ہوں جسے مکیں اپنی شناخت کے لئے دیوار میں چن دیتے ہیں ۔
تقریب سے خطاب کرتے ہو ئے سید رفاقت علی گیلانی معاون خصو صی ایم پی اے ، بشارت رندھاوا رہنماء تحریک انصاف ، پروفیسر لا لہ احمد گجر،ملک مقبول الہی ، عبد الرحمن فریدی ، فرید اللہ چو ہدری ، محسن عدیل ، عبد اللہ نظامی ، ناصر ملک ، عبد الرووف نفیسی ، شہباز قریشی ، ملک عرفان ، کامران تھند ، کو ثر عباس شاہ ،، لقمان اسد ، مقبول ہراج ، اظہر خان کھتران ، ملک مزمل ڈونہ ایڈوو کیٹ اور اقبال چو ہان سمیت بہت سے مقررین نے عمر شا کر کی صحا فتی اور سماجی خدمات کو شا ندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ۔ سبھی فا ضل مقررین اس بات پر متفق تھے کہ انسان دوست معاشرے کے قیام کے لئے عمر شا کر کی خدمات قابل ستا ئش ہیں ۔ قرآن محل کا قیام ، لا وارث لا شوں کی تجہیزو تکفین اور اور نادارو و مفلس مستحق امداد افراد کی خد مت ان کی سماجی خد مات کا مظہر ہیں ۔
اوہ سوری ساری کتھا میں یہ بات تو میں بھول ہی گیا کہ اس تقریب میں صابر عطا نے عمر شا کر کی دستار بندی کر نے کا اہتمام بھی کر رکھا تھا ۔ مہمانان اعزاز ر مرشد فاقت گیلانی اور بشارت رندھاوا کے ساتھ ہ میں بھی عمر شا کر کے سر دستار با ندھنے کا اعزاز حا صل ہوا ، دستار بندی کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ عمر شا کر لیہ کے پہلے صاحب دستا ر صحا فی ہیں ۔ ۔
جہاں تک میں چو ک اعظم کے عمر شا کر کو سمجھا ہوں ۔ ۔ ۔ تو اس شا کر کے دامن میں بہت سے خواب ہیں کہ عمر شا کر خواب بہت دیکھتا ہے ۔ امن ، پیار ، خدمت اور احساس کے خواب ۔ اس کی آ نکھیں بے شناخت لا شوں کو ڈ ھونڈنے ، کندھے جنازوں کو اٹھا نے اور ہاتھ بے سہارا لو گوں کو سہارا دینے کے لئے بے چین رہتے ہیں ، وہ لکھاری بھی ہے اور صحافی بھی ۔ کالم بھی لکھتا ہے اور مضمون نگاری بھی کرتا ہے وہ درد مند انسان ہے اور لو گوں کے دکھ اس کا موضوع ہیں ۔ ۔ ٓج کل اس کا خواب ہے کہ وہ چو ک اعظم میں منشیات کے عادی مریضوں کے علاج و معالجہ کے لئے ہسپتال بنا نا چا ہتا ہے ۔ تقریب میں مجھے گفتگو کا موقع ملا تو میں نے عمر شا کر کے اس نئے خواب کی تعبیر کو مو ضوع بنایا ۔ ۔ میری خواہش ہے کہ عمر شا کر کا یہ خواب بھی شر مندہ تعبیر ہو ۔ ۔ کہ یہ ضلع لیہ کی ایک بڑی ضرورت ہے ۔ ۔ مجحے یقین ہے کہ عمر شا کر اپنے خواب کو حقیقت میں ڈھا لنے کا فن جا نتا ہے ۔ اگر شا کر لاوارث لا شوں کے وارث تلاش کر سکتا ہے ، بے گورو کفن لا شوں کو غسل دینے کے بعد جنازوں کی ادا ئیگی سے لے کر قبر کی تیاری اور دفنانے تک کی منزلیں عبور کر سکتا ہے تو مجھے یقین ہے کہ وہ چوک اعظم میں منشیات کے عادی مریضوں کو نئی زند گی دینے کے اپنے اس خواب کی تعبیر بھی جلد پا لے گا ۔ ۔
صبح پا کستان سے عمر شا کر کا تعلق ربع صدی پرانا ہے اور مجھ سے تو نصف صدی کی بات ہے کا معاملہ ہے ۔ اس کی جب بھی مو با ئل کال آ تی ہے میں الرٹ ہو جا تا ہوں ہر بار اس کے پاس میرے لئے ایک نیا مو ضوع ہوتا ہے فکر ، ہیلپ اور احساس کا ۔ صبح پا کستان پہلے بھی احساس اور خد مت کے اس سفر میں عمر شا کر کے ساتھ رہا ہے اور ا ئندہ بھی قدم بہ قدم ہو گا ۔ انشا ء اللہ
- انجم صحرائی