سرکاری املاک کا تحفط کرنا ہر شہری پر فرض ہے سرکاری املاک یا ریاست کے اثاثوں پر ہر شہری کا برابر حق ہوتا ہے مگر افسوس صد افسوس کی پاکستانی قوم میں جہاں بہت زیادہ اچھائیاں پائی جاتی ہیں وہیں یہ کمی کوتاہی بھی ہے کہ سرکاری املاک یا اثاثوں کی جیسے انفرادی طور پر پاکستانی قوم اپنی جائیداد گھر کی حفاظت کرتے ہیں ویسے اجتماعی طور سرکاری املاک کی حفاطت کرنے سے گریزاں ہیں کوئی شخص تنظیم جانے انجانے میں کوئی نقصان پہنچا رہا ہم اجتماعی آواز بلند کرنے کی بجائے خاموشی اختیار کرت ہیں یوں تو پاکستان میں ہر بدلتی حکومت سابقہ حکومت کے دور میں شروع کئے گئے منصوبہ جات کو پس دیوار ڈال دیتی ہے
چوک اعظم میں جہاں سیوریج ڈلنے سے ناقص مٹیریل بغیر منصوبہ بندی کے ڈالنے سے زیر زمین پانی زہر آلود ہوا وہیں دو بڑے پراجیکٹس کی دیواریں بھی اس کی وجہ سے گر رہیں ہیں ایک دیوار فاریسٹ پارک لیہ روڈ کی شمالی دیوار میں وارڈ نمبر ایک کی رہائشی آبادی کا سیوریج پانی سیوریج پاءپ بند ہونے کی وجہ سے سراءت کر رہا ہیں جسکی وجہ سے گزشتہ سال ہی تعمیر ہونے والی دیورار روز بروز کمزور ہو رہی ہے اسی طر ح فاریسٹ پارک کی جنرل بس اسٹینڈ کے سامنے شرقی دیوار میں بھی سیوریج پانی ڈلنے کی وجہ سے دیوار گر رہی ہے فاریسٹ پارک کی دونوں دیواروں کی بنیاد روز بروز کمزور ہو رہیں ہیں اسی طرح خورشید سپورٹس کمپلیکس کی شمالی دیوار میں بھی وارڈ نمبر نو دس گیارہ کی شہری آبادی کا سیوریج پانی جا رہا ہے ایک تو خورشید سپورٹس کمپلیکس پانی کے جوہڑ میں تبدیل ہو رہا ہے وہیں کسی بھی وقت دیوار منہدم ہو سکتی ہے
خورشید سپورٹس کمپلیکس کے گیٹس اور لوہے کی بننے والی گرلیں بھی چوری ہو چکیں ہیں
جنازہ گاہ میں گزشتہ کئی سالوں سے واش روم وضوخانہ بنائے گئے مگر تاحال چالو نہ ہو سکے متعدد جنازوں میں ایسا ہوتا ہے کہ امام صاحب نماز جنازہ پڑھا دیتے ہیں مگر عوام لگے ہوئے نلکوں پر وضو ہی کر رہی ہو تی ہے معتدد بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ استنجاء نہ ہونے کے سبب نمازہ جنازہ میں شرکت کرنے والے لوگ شریک نہیں ہو سکتے جنازہ گاہ کی باونڈری وال سے بھی اینٹیں بتدریج اکھاڑی جا رہی ہیں
سابق ہسپتال جہاں اب ووکیشنل کالج ہے کہ رہائشی کواٹرز کی کھڑکیاں وائرنگ دروازے اکھاڑے جا رہے ہیں اور باونڈری وال اکھاڑی جا رہی ہے
چوک یاد گار میں دنیا بھر میں لاہور کے بعد چوک اعظم کی شناخت ہے جو کہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور نشیوں کی آماجگاہ بن چکا ہے
مذبحہ خانہ کی عمارت بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور کسی بھی وقت منہدم ہونے کا خطرہ ہے مذبحہ خانہ کا گیٹ بھی خراب ہوچکا ہے
تھانہ چوک اعظم اور تحصیل (لیول) ہیڈ کواٹر ہسپتال چوک اعظم کی عمارت میں بھی دراڑیں پڑ چکی ہیں کئی رہائشی کواٹر ایسے ہیں جنہیں محکمہ بلڈنگ نے مکمل ہی نہیں کرایا ٹھیکیدار سے جہاں محکمہ صحت کے ملازمین رہائش رکھنے کی بجائے کرائے کے گھروں میں رہنے کو فوقیت دیتے ہیں
ایم ایم روڈ پر دھوری اڈہ کے قریب فاریسٹ پارک سابق خواتین کی مخصوص نشست پر منتخب ہونے والی ایم پی اے ریحانہ اعجازکی پر پوزل پر تعمیر کیا گیا اجڑ چکا ہے جس سے محکمہ کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے
جنرل بس اسٹینڈ بھی گزشتہ تین دہائیوں سے اجڑا ہوا ہے جبکہ ٹرانسپورٹ مافیا نے فتح پور روڈ پر بلوچ ٹرمینل ملتان روڈ پر مہر بشیر مورز اور فیصل آباد روڈ پر چوہدری ٹریول کے نام سے ڈی کلاس اڈے قائم ہیں اسی طرح شہر کے چاروں روڈز پر فلائنگ کوچوں بسوں کے نا جائز اڈے قائم ہیں
میونسپل کمیٹی کے دفتر کے عقب میں دو کمرے عرصہ دراز سے تعمیر کئے گئے ہیں جو کہ کسی استعمال میں نہیں لائے جا سکے اور روز بروز ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہے ہیں
قبل ازیں تو مخصوص طبقہ کی طرف سے جب صحافی کسی مسئلہ کو اجاگر کرتے تھے تو کہا جاتا تھا کہ ان تمام مسائل کا حل یہ ہے کہ چوک اعظم شہر سے ایم پی اے منتخب ہو گا تو یہ مسائل حل ہوں گے مگر قدرت نے اب عنان اقتدار انہیں لوگوں کے حوالے کرتے ہوئے ایم پی اے منتخب کرا دیا ہے مگر عوامی مسائل حل کرانے کی بجائے قبل ازیں منتخب ہونے والے نمائندگان جیسے بیوروکریسی اور سرمایہ دارانہ حلقہ کے زیر اثر پروٹوکول براننڈ سوٹ اور تحفے تحاءف دیکر رام کر دیتے ہیں ویسے یہ قیادت بھی رام ہو چکی ہے
قومی سرمائے دیواروں عمارتوں کی ٹوٹ پھوٹ سے نقصان ہونے والے پر جہاں عوام آواز اٹھائے وہیں حساس اداروں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو چاہیے وہ ان مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے رپورٹس اور سوشل میڈیا کو استعمال کریں چوک اعظم سے منتخب ایم پی اے اور انکے دست راستوں کو چاہیے کہ عوامی مسائل کو حل کرانے کے لئے کردار ادا کریں ۔