ہم سب بچپن میں ایک مصالحہ سا بڑے شوق سے کھایا کرتے تھے جو کالا نمک ,کھٹائی اور شاید کالی مرچ پر مشتمل ہوتا تھا اسے چورن کہا جاتا تھا ۔اسکول کے باہر ریڑھی والا کچی املی جسے کھٹارہ کہا جاتا جنگل جلیبی ,چنا چاٹ پر چھڑک کر دیا کرتا تھا ۔اور یہ پیکنگ میں بھی ملتا تھا جسے سب بچے چٹخارے لے لے کر کھاتے تھے ۔یہ پلاسٹک کی لمبی لمبی نالی نما پیکنگ میں بند ہوتا اور ہم اسے چوس چوس کر کھاتے ۔شاید تب ہمارا ہاضمہ اتنا مضبوط ہوتا تھا کہ لکڑ ہضم, پتھر ہضم یا پھر ہم میں شعور صحت کا فقدان تھا تب نہ کٹھائی سے گلا خراب ہوتا نہ گولے گنڈے کی برف سے, نہ سکرین ملے مشروب سے نہ, کھٹی چیزوں سے ۔ہاضمہ تو ہمارا ابھی بھی بہت مضبوط ہے دوسروں کا حق اور دولت کھا کر بھی ڈکار تک نہیں مارتے ۔
مگر شومئی قسمت بعض اوقات بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی ایک نہ ایک دن تو چھری کے نیچے آئے گی کے مصداق کبھی کبھی بے ایمانیاں ایسی چھچھوندر بھی بن جاتی ہیں جو نہ نگلی جاتیں نہ اگلی جاتیں۔خیر وہ ایک الگ موضوع ہے ابھی "چورن "کی بات ہو رہی تھی ۔کوئی بھی معاملہ ہو آفت ہو, مصیبت ہو ,امن ہو یا جنگ ,الیکشن ہو یا دیگر معاملات ملک مجھے کئی دھڑوں میں بٹا نظر آیا جہاں ہر۔بندہ اپنا چورن بیچنے کے چکر میں لگا ہوتا۔اسی طرح عوام میں بھی ان چورن بیچنے والے حکیموں کی معتقد نظر آتی ہے کسی کو کوئی ٹھیک لگتا تو کوئی کسی اور کو سچا کہتا۔مانا کہ دنیا اختلاف عمل کا نام ہے مگر بسا اوقات اختلاف برائے اختلاف جانے کیا کیا گل کھلاتا ہے ۔اسوقت دنیا جس مصیبت سے دوچار ہے وہ ایک وبائی بیماری "کرونا” ہے جو تقریبا دو سو ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے ۔اعداد وشمار دیکھیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے دنیا بھر کے ممالک سے کئی سو کے حساب سے اموات کی خبریں آتیں نصف سے زیادہ ممالک لاک ڈاؤن سے گزر رہے اور چین جو کہ اس وبا سے گزر چکا سب اس کے تجربات سے فائدہ اٹھا رہے۔ وائرس پہ تحقیق اور عمیق ریسرچ بھی چل رہی کہ کوئی کلیہ ایسا ہاتھ لگ جائے کوئی ایسا اینٹی ڈوٹ بنایا جا سکے جس سے اس نادیدہ وائرس پر قابو پایا جاسکے ۔اب اس وبا نے پاکستان میں بھی پنجے گاڑ لیے ہیں ۔ابتدا کیسے ہوئی یہ ایک متنازعہ معاملہ ہے اور اس کو لے کر مختلف آراء ہیں سب ایک دوسرے کو الزام دیتے نظر آتے ہیں گویا ہر بندہ اپنا چورن بیچنے کے چکر میں ہے ۔کچھ کا کہنا زائرین یہ وبا ایران سے اٹھا لائے اور یہاں آکر پھیلا دی ۔کچھ کہتے اٹلی ۔اسپین اور چین و سعودی عرب سے آنے والے اسے ساتھ لے آئے اب ہوا یہ کہ اس بات سے ائیر پورٹس اور تفتان بارڈر پر چیکنگ کس طرح کی گئی یا وہاں بھی محض چورن بیچا گیا اس کا بھید کھل گیا ۔یہ تو تھا معاملہ دوسرے متاثرہ ممالک سے آنے جانے کا ۔اب ایک اور آراء کہ مقامی طور پر اسے پھیلانے میں تبلیغی جماعتوں کے ارکان نے بھی کلیدی کردار ادا کیا اور ان کے کرونا ٹیسٹ بھی مثبت آرہے ۔شاید یہ سب اتنا خوفناک نہ بھی ہو مگر ایک دہشت اور خوف نے جس طرح ساری دنیا کو لپیٹ میں لیا ہوا اس سے صرف ِنظر نہیں کیا جاسکتا ۔کئی اور بیماریوں سے بھی دنیا بھر میں اموات ہوتی ہونگی اور شاید اس سے زیادہ تعداد میں ہوتی ہوں مگر چونکہ ان کا اعدادو شمار کبھی سامنے نہیں آیا تو اتنا خوف بھی ذہن پر طاری نہیں ہوتا مگر صرف ایک مرض سے اتنی اموات دہشت پیدا کر رہی جہاں ہر۔طرف موت کی چاپ سنائی دیتی ہے ۔ایسے حالات میں مذید سنسنی پھیلا کر دنیا کو خصوصا مسلمانوں کو مسلمان ہی باور کروا رہے کہ قیامت نزدیک ہے ۔اس ضمن میں یو ٹیوب حکیم اور ستارہ شناس سب سے آگے ہیں جس بندے کو ایل کوکو کا پتہ نہیں وہ کرونا کے علاج بتا رہا جس بندے کو الف بے کا پتہ نہیں وہ پیشن گوئیاں کر رہا ۔عوام پہلے ہی سہمی ہوئی مذید خوفزدہ ہو رہی اور دن بھر ٹی وی اور یو ٹیوب میں مصروف اور پھر انہی بے سرو پا باتوں کی شئیرنگ سے ذہنوں میں مذید خوف کی فصل کو پروان چڑھا رہی گویا ہر بندہ اپنی معلومات کا چورن بیچنے کی فکر میں لگا ۔مابعد اثرات کیا ہونگے اور کیا ہو رہے اس سے وہ بے فکر ہے ۔ عوام لاک ڈاؤن سے دھیرے دھیرے بیزار ہو رہی ۔گورنمنٹ ملازمین کو تو موجیں لگ گئیں گھر بیٹھے تنخواہ ملنی مگر سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ دیہاڑی دار طبقہ ہے یا وہ سفید پوش جو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے میں شرم محسوس کرتے ۔وزیر اعظم کے مطابق 20 ٪ طبقہ دیہاڑی دار ہے مگر میں اس پرسنٹیج کو تھوڑا وسعت دیتی ہوں اگر ملک میں 50 فیصد طبقہ امیر ہے تو باقی 50 فیصد متوسط اور ملا جلا ہے گویا متاثرین کی تعداد 50 فیصد ہے بالفرض اگر بیس فیصد متاثرین مانے جائیں تو کیا حکومت اور اسی فیصد لوگ بیس فیصد لوگوں کو نہیں کھلا سکتے ؟ اب ہوا کچھ یوں کہ خان صاحب لاک ڈاؤن کے حق میں نہیں تھے مگر سندھ کے وزیر اعلی نے اس کی ابتدا کی اور واضح کہا کہ ہمارے پاس اور کوئی چارہ نہیں بلوچستان حکومت نے بھی لبیک کہا اور اس طرح پنجاب بھی کیسز بڑھتے ہی لاک ڈاؤن کی طرف چلا گیا۔مگر وفاق کی الگ راگنی تھی ۔دوسری طرف شہباز شریف اس نازک موقعے پر بھی سیاست کرتے نظر آئے اور عوام کی جانوں سے زیادہ معشیت کے دکھڑے روتے دکھائی دیے ۔معشیت کی تباہی تو انہیں نظر آتی ہے مگر عوام کی تباہ حالی نہیں یہ بھی چورن بیچنے کی ایک کوشش ہے۔کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایک پیج پہ متفق ہونا ضروری ہے اگر ہر بندہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر بیٹھے گا تو سوائے نقصان اور بداعتمادی کے کچھ نہ پائے گا ۔ تو خدارا صورتحال کو سمجھا جائے اور اپنی اپنی دکان کو پھر کسی وقت کے لیے اٹھا رکھا جائے کیونکہ اسی میں بہتری ہے ۔
عفت بھٹی
iffatbhatti299@gmail.com
iffatbhatti299@gmail.com