زندگی کا فلسفہ بہت گہرا ہے اس کے اسرار و رموز سے واقف ہونے کے لیے اپنی پہچان کرنی پڑتی تبھی اس گم گشتہ جوہر نایاب کا حصول ممکن ہے۔ہر شخص اس کے پیچ وخم کے سر کو نہیں جان سکتا ۔اس گوہر متاع میں پنہاں ایک جذبہ جذبہِ محبت و موانست بھی ہے جو انسان کے اندر عمیق گہرائی تک پھیلا ہوا ہے ۔اس نے سگریٹ کا دھواں فضا میں اڑاتے ہوئے فلسفہ بگھارا ۔مشکل الفاظ کا تڑکا ہمیشہ کی طرح خوب لگا اور اس کے سامنے بیٹھی خوبصورت سی ریحا بتول اسکی علمیت کے آگے چاروں شانے چِت ہوگئی۔اسکی نظروں میں ایسی چاشنی اور مؤدبانہ پن تھا کہ گویا دیوتا کے سامنے بیٹھی ہو ۔ادیب نے چائے کا کپ اپنی طرف کھسکایا سڑپ کی آواز سے لمبا گھونٹ بھرا اور بولا ۔میں جانتا ہوں تم میری نسبت عمر میں بہت چھوٹی ہو خدا جانے تم میرے جذبات کو کیا نام دو مگر ایک ارتقائی کشش مجھے تمہاری اوٹ کھنچتی ہے جیسے مقناطیس لوہے کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے اور وہ اسکی طرف کھنچتا ہے ۔بے اختیار شاید میں بھی بے اختیار وبے خود ہو گیا ہوں ۔خود کو تم سے ہر لمحہ مربوط پاتا ہوں تم سامنے نہ بھی ہو تب بھی میرے ذہن وقلب میں بس تم ہوتی ہو ۔فضا میں الفاظ کے بگولے چھوڑتے ہوئے اب وہ مابعد اثرات جاننا چاہتا تھا ۔ادھر وہ بت کہ یک ٹک سحر ذدہ اسے تکے جا رہا تھا ۔اگلا قدم ۔اس نے دھیرے سے اپنے بھدے ہاتھوں میں اس کا نازک سفید ہاتھ تھام کر اٹھایا۔لمحے بھر کے لیے وہ کپکپا گئی اور شرم سے دوھری ہو گئی ۔لفظوں کے بعد لمس نے فسوں پھونک دیا ۔وہ ہولے سے مسکرایا۔ سنو کامنی گلاب کی کلی مجھے تم سے محبت ہے ۔سرگوشی نے اسے اور مہمیز کر دیا چلہ مکمل ہو چکا تھا ۔داسی دیوتا کے سامنے زانوؤےادب تہ کر چکی تھی ۔مم مجھے بھی آپ سے محبت ہے وہ پھنسی پھنسی آواز سے بولی۔مگر میرے والدین میری آپ سے شادی پہ راضی نہیں ہونگے اس نے پلکیں اٹھائیں لبا لب آنسو ؤں سے بھرے مدھر جام ۔ملن تو روحوں کا ہوتا پگلی شادی تو دنیاوی رشتہ ہے میں ازلی رشتوں کا قائل ہوں ہم عالم ارواح سے یکجا ہیں ہمارے دل مل چکے دنیاوی رشتوں کے گھن چکر میں پڑ کر اس انمول خزانے کو بے مول مت کرو اس نے اس کے آنسو انگلیوں کے پوروں میں سمیٹ کر اپنے سگریٹ ذدہ لبوں سے چن لیے ۔ریحا تو اس ادا پہ قربان ہی ہوگئی۔بس اتنا یاد رکھو کہ میں اب میں نہیں تم ہو گیا ہوں اور تم تم نہیں میں ہوں ۔میں زبردستی کا قائل نہیں تم راضی برضا میرے دل کے پوتر مندر میں داخل ہو نا چاہتی تو ٹھیک ورنہ میں خاموشی سے آئندہ کے لیے اپنی حسرتوں سمیت تمہاری دنیا سے دور چلا جاؤں گا مگر تمہاری محبت ہمیشہ کسک بن کر میرے سینے میں جاوداں رہے گی۔اس کی آواز بھرا گئی۔اور سر جھک گیا ۔داسی نے تڑپ کر اپنے دیوتا کو دیکھا اور اسے دل کے سنگھاسن پہ براجمان ہونے کا عندیہ دے دیا۔وہ ایک بار پھر مہم سر کر چکا تھا۔
دیکھیے آپ کی کہانی بہت اچھی ہے مگر معاشرتی اور سچی کہانیاں عوام اتنا پسند نہیں کرتے ۔کچھ رومانس ۔جاذبیت ۔محبت پیدا کریں یہی تو قارئین چاہتے ہیں ۔اب ادب سیکھنے کے لیے نہیں پڑھا جاتا بلکہ اب اسکو محسوس کیا جاتا کہانی کو ایسا نشہ بنا دیں کہ پڑھنے والے کا انگ انگ بے قرار ہو جائے وہ اس میں کھو جائے ۔جی محبت ڈالیں رومانس رومانیت کی چاشنی گھولیں بی بی ۔کیا کہا آپ ایسا فضول نہیں لکھ سکتیں؟؟ تو پھر مت لکھیں آپ کے پاک صاف مصفا الفاظ کی قارئین کو ضرورت نہیں ۔اللہ حافظ۔ہنہ آئی بڑی معاشرتی برائیوں کو بے نقاب کرنے ۔ہونٹ نفرت سے سکڑے ۔آنکھوں میں کمینگی در آئی ۔رسٹ واچ پہ نظر پڑتے ہی کچھ یاد آگیا اوہ آج تو ریحا بتول نے آنا تھا مومی لڑکی کے تصور نے جسم میں حرارت بھردی ۔اور آج تو خاص دن تھا تین ماہ کی محنت کے رنگ لانے کا دن آج تو کشیدِ بنتِ عنب کی گھڑی تھی گنگناتے ہوئے اس نے تیار ہوکر خود کو آئینے میں دیکھا اور آفس سے اٹھ آیا۔ابھی گاڑی سٹارٹ ہی کی تھی کہ فون بجا سکرین پہ جھانکا تو لب سکڑ گئے اسکو بھی اسی وقت آنا تھا وہ بڑبڑایا۔ہیلو ہاں بیگم کہو میں ارجنٹ میٹنگ کے سلسلے میں آؤٹ آف سٹی جارہا ہوں ۔اوہو یار تم بچوں کو لے کر چلی جاؤ عقیقہ ہی تو ہے میری طرف سے معذرت کر دینا بتا دینا ضروری میٹنگ تھی ۔ہاں ہاں ڈرائیور کو لے جاؤ ۔افوہ لیٹ فنکشن ہے تو کیا ہوا بچے تمہارے ساتھ ہیں کیا ڈر ہے ؟ ہاں میں کچھ کنفرم نہیں کب لوٹوں ۔اوکے انجوائے یور سیلف بائے لو یو ۔
ہائے اللہ یہ آپ کا فلیٹ ہے ؟اررے میرا نہیں میری جان تمہارا ہے بلکہ ہمارا ۔ یہی تو دکھانے لایا ہوں یہ تمہیں گفٹ کرنا ہے بس کچھ دنوں تک پیپر بنوا لوں گا تمہارے نام سے۔اس نے ریحا کی زلفوں کو چھیڑا ۔ریحا بتول نے محبت برساتی نظروں سے اسے دیکھا واقعی آپ کتنے اچھے ہیں ۔اچھی تو تم ہو میری جان میرا بس چلے تو ستارے توڑ کر تمہارے دامن میں بھر دوں۔شکاری نے جال پھینکا۔اتنا چاہتےمجھے نگاہوں میں محبت در آئی۔کوئی شک میری زندگی اسے کندھوں سے تھام لیا ۔بیکار وقت ضائع کر رہی میری بلبل اب آجاؤ وہ دل ہی دل میں بڑبڑایا ۔اور ریحا ریشم کی طرح اس کی بانہوں میں سرسرانے لگی یہ ٹھیک نہیں وہ کسمکائی ۔میری جان رضامندی میں کوئی گناہ نہیں بھول جاؤ سب ۔وہ اس کے کانوں میں سرگوشی انڈیل رہا تھا۔
بہت عمدہ لکھتی ہیں آپ کمال زبردست۔الفاظ کی مرصع کاری تو آپ پہ ختم ہے محترمہ اس معاشرے کو آپ جیسے لکھاری کی اشد ضرورت ہے۔جی جی ایک ادبی گروپ ہے وہاں مختلف سلسلے چل رہے ۔بالکل میں آپ کو ایڈ کر دوں گا ۔جی فکر ہی نہ کریں ۔رابطے میں رہیے گا۔شکریہ نوازش۔
آپ سے بات کر کے احساس ہو رہا کہ آپ کی ذات میں اکیلا پن ہے ۔میں سمجھ سکتا ہوں میں بھی اس تنہائی کا درد سہہ رہا ہوں آپ مجھ پہ اعتماد کر سکتی ہیں ۔ہم اچھے دوست ثابت ہونگے ۔بالکل میں آپ کو تم کہہ سکتا؟ اپنائیت کا احساس ہوتا ہے ناں تم بہت اچھی ہو آج مجھے تمہاری صورت میں درد کا درماں مل گیا۔اب تمہارے سب درد میرے ہیں ۔میری پوسٹ پہ آؤ تمہارے نام ایک پیغام ہے سمجھو اور کمنٹ کرو ۔میں منتظر ۔۔ ۔ ۔ ۔
ٹرن ٹرن افوہ ریحا بتول ہنہہ بلیک لسٹ ۔ ۔ ۔