‛چائلڈ ایبوز‛‛ ایک سلگتا ہوا موضوع اس پر قلم اٹھانا اور حقیقتوں کی چشم کشائی ایک تکلیف دہ عمل تھا ۔مگر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے حقیقت نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوتی اور نہ ہی مسائل کا تدارک ہوسکتا ۔ پاکستان کو قیام کے بعد سے ہی مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑا ۔معاشی۔ملکی مسائل نے اندر ہی اندر اسے گھن کی طرح کھانا شروع کر دیا ہے ہم لاکھ اس سے چشم پوشی کرتے رہیں اور امن امن کی دہائی دیتے رہیں سب بے سود ہے ۔یہ عفریتیں ہماری نسل کے لیے جبڑے کھولے لپلپاتی زبانوں کے ساتھ منھ کھولے کھڑی ہیں ۔ملکی دہشت گردی کے جن پر کسی حد تو قابو پالیا گیا ہے مگر اب نیا مسئلہ جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا وہ بچوں کا جسمانی و نفسیاتی استحصال ہے ۔
چائلڈ ایبوز‘‘ دراصل کم عمر بچوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنا کر ان سے زیادتی کرنے کے عمل کے لئے رائج ایک انگریزی اصطلاح ہے۔ ہمارے اردگرد معاشرہ میں موجودانسان نما جانور اپنی ہوس کی آگ بجھانے کی خاطر بچوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بناتے ہیں۔ ایسے واقعات گزرے وقتوں میں بھی ہوتے تھے مگر اسکا اتنا نوٹس نہیں لیا جاتا تھا ۔ مگر 2015ء میں جب قصور میں بچوں کے ساتھ کی گئی زیادتیوں اور وحشیانہ حرکتوں کی ویڈیوز سامنے آئیں ۔ اس سکینڈل میں تقریباً دو سو اسّی سے تین سو تک بچوں کو جنسی بربریت کا شکار بنایا گیا تھا۔ ان بچوں میں اکثریت لڑکوں کی تھی۔ یہ ستائیس ارکان پر مشتمل ایک گروہ کا کام تھا جو کہ بعد میں ان ویڈیوز کے ذریعے بچوں اور ان کے والدین کو بلیک میل کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ بچوں کی یہ قابلِ اعتراض ویڈیوز باہر ممالک کی مختلف فحش ویب سائٹس کو اچھے داموں فروخت کی جاتی تھیں۔ اس واقعے کے تناظر میں ایکشن لیا گیا اب تک گروہ کے تیرہ ارکان کو گرفتار کیا جاچکا ہے جبکہ باقی ارکان میں سے پانچ یا چھ ایسے ہیں جو ضمانت پر رہا کئے جاچکے ہیں اور باقی مجرم تاحال روپوش ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں روزانہ اس نوعیت کےدس گیارہ واقعات رپورٹ ہوتے ہیں ۔اعدادو شمار کا جائزہ لیں تو 2017 ء کے پہلے چھ مہینوں میں ایک ہزار سات سو تیس سے زائد کیس رپورٹ کیے گئے۔
ملک کے مختلف علاقوں میں سے باسٹھ%پنجاب،تیس%سندھ۔،پچھتر%
بچوں کا جنسی استحصال ایک قسم کا بچوں کا استحصال ہے جس میں کسی بالغ یا اور بڑی عمر والا نوجوان ایک بچے کو جنسی لذت کے لیے استعمال کرتا ہے۔اس میں کسی بچے کو جنسی عمل کا حصہ بنایا جاتا ہے جس کا مقصد جسمانی تسکین ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کو سیکس ایجوکیشن دینی چاہیے یا نہیں۔ کچھ لوگ اس کے حق میں ہیں اور ان کے پاس کچھ دلائل ہیں اور کچھ اس کے خلاف ہیں اور ان کے پاس بھی کچھ دلائل ہیں۔ حقیقت میں دونوں ہی اس مسئلے کو اپنی اپنی نظر سے صحیح دیکھ رہے ہیں لیکن ایک دوسرے کی نظر سے دیکھنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ این۔جی۔اوز اور سول سوسائٹی جس قسم کی سیکس ایجوکیشن کی بات کرتی ہے، اس کا آغاز بچوں کو ان کے جنسی اعضاء کے بارے تعلیم سے ہوتا ہے اور انتہا اس پر ہوتی ہے کہ آپ نے محفوظ طریقے سے سیکس کیسے کرنا ہے یعنی اس طرح سے حمل بھی نہ ٹھہرے اور بیماریاں بھی منتقل نہ ہوں۔ تو یہ تو بے حیائی، فحاشی اور زنا کو سیکس ایجوکیشن کے نام پر رواج دینے والی بات ہے۔
البتہ سیکس ایجوکیشن کے نام پر جو کام کرنے کی ضرورت ہے، اسے چائلڈ ابیوز ایجوکیشن یعنی جنسی تشدد کے بارے آگاہی کے نام سے کیا جا سکتا ہے۔ بچوں کو صرف اس قسم کی تعلیم دی جائے کہ جس میں انہیں جنسی تشدد سے متعلق آگاہی دی جائے کہ وہ کسی جنسی تشدد کا شکار نہ ہوں، یا اگر ہو جائیں تو اپنے والدین سے کمیونیکیٹ کر سکیں۔اور والدین کو اس قسم کی آگاہی دی جائے کہ وہ یہ جان سکیں کہ چائلڈ اےبیوز کے حوالے سے ہمارا معاشرہ الارمنگ سچوئیشن پر کھڑا ہے۔ اور اس میں بہت بڑی کوتاہی والدین کی ہے کہ ان کے پاس اس قدر وقت نہیں ہے کہ اولاد کے ساتھ بیٹھ سکیں یا ان کے مسائل سن سکیں یا ان سے کمیونیکیٹ کر سکیں۔ایسا کرنا ترقی کی جانب قدم ہے یا تنزلی کی طرف جاتا راستہ ۔افسوس ہم انہیں پھولوں کو کچلتا دیکھ رہے جو ہمارے گلشن۔کی رنگینی ہیں ۔کیا یہ عمل نفسیاتی مرض کے درجے میں آتا ہے؟ آخر ایسے کونسے عوامل ہیں کہ انسان انسانیت کے دائرے سے۔نکل کر حیوانیت کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے۔ بچوں کےجسمانی استحصال کی مٹالیں ہمارے اردگرد موجود ہیں ۔غربت کے باعث بہت سے بچے مختلف جگہوں پر نوکری یا بطور چھوٹا کام کرتے ۔وہاں ان کے ساتھ جو رویہ رکھا جاتا اس میں مار پیٹ ۔گالم گلوچ۔یا حسمانی تشدد وغیرہ شامل ہے ۔اسی طرح خصوصا مدارس میں بچوں پر بہت سختی کی جاتی ہے ۔مار پیٹ تو ایک طرف انہیں زبردستی ریپ کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔مجھے اکثر یہ اس عمل کا رد عمل دکھائی دیتا جس سے ایک استاد خود گزرا ہوتا بعد میں وہ اپنی تسکین کی خاطر اپنے شاگردوں سے انتقام لے۔کر اپنی نفسیاتی تسکین کرتا بسا اوقات یہ انتقام اس حد تک بڑھ جاتا کہ جسمانی تعلق کے زریعے جبلی تسکین حاصل کی جاتی ۔اور بچے۔کو ڈرا دھمکا کر بار بار اس کا نشانہ بنایا جاتا ۔تاریخ بتاتی ہے کہ اس عمل کو دہرانے والے خود بھی اس سے گزر چکے ہوتے ۔
گلی محلے میں ہونے والے واقعات جس میں کم سن بچوں اور بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد ان کا بہمانہ قتل کر دیا جاتا ہے اور انکی لاشیں کھیتوں اور کوڑے کے ڈھیر پر ملتیں ہیں ۔ایسے واقعات کا کوئی چشم دید گواہ نہیں ہوتا نہ مجرموں کی نشاندہی ہوتی اگر کوئی پکڑا بھی جائے تو فی الفور سزا کے بجائے اس مقدمے کو دیوانی مقدمہ بنا کر سالہا سال گھسیٹا جاتا۔جبکہ جرائم کی بیخ کنی کے لیے لازم ہے کہ سر عام سزا دی جائے تاکہ مجرموں کو قانون کا ڈر ہو ۔میری رائے کے مطابق جرم ہمیشہ وہیں پروان چڑھتا جہاں انصاف تاخیر کا شکار ہوتا یا نا انصافی کا دور دورہ ہوتا اگر انصاف کی فراہمی یکساں اور جلد ہو ۔قوانین کی پابندی لازم و ملزوم ہو اور ریاست اپنے ریاستی معاملات کو بہتر طریقے سے۔چلا رہی ہو تو اس ریاست میں جرائم کی تعداد میں کمی آتی ہے ۔اس مسئلے۔کا حل یہ نہیں کہ ہم بچوں کو گھروں میں بند کر دیں بلکہ ان عوامل کو ختم کرنے کی طرف دھیان دینا ہی اس کا علاج ہے ۔مجرموں کو انجام تک پہنچانا سب سے۔لازمی امر ہے تاکہ عبرت ہو ۔بچوں کو آگہی دینا بھی ضروری ہے کہ وہ بیڈ ٹچ اور گڈ ٹچ سے۔آگاہ ہوں ۔اس کے علاوہ اپنے بچوں کے سلسلے میں کسی غیر پر بھروسا نہ کریں ان۔کے لیے خود وقت نکالیں تاکہ ہمارے بچے محفوظ رہ سکیں ۔