کبھی کبھار دل میں ایک خیال سا اٹھتا ہے کہ صحافت ایک ایسا شعبہ ہے جس میں بہت سی آسانیاں ہوتی ہیں لیکن زیادہ تر کچھ مشکلات و پریشانیاں بھی ہوتی ہیں ، دراصل ایک انتہائی احساس قسم کا کام کرنے والا ایک احساسی طبقہ ہوتا ہے جو اپنے اردگرد ناانصافیاں، مسائل، مشکلات دیکھ رہا ہوتا ہے اور دل میں سوچتا ہے کہ سرکار اور اسکے اداروں کو ہر ایک کے ساتھ مساویانہ سلوک کرنا چاہئیے لیکن جب ایسانہیں ہوتا تو اپنی آواز و قلم کے ذریعے ان اداروں کے اعلی ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کو متوجہ کرتا ہے کبھی کبھار آواز سنی جائے تو علاقائی مسائل ، مشکلات، کم ہوجاتے ہیں دوستوں ، علاقہ ، محلہ و رشتہ داروں میں معتبر ٹھہر جاتے ہیں نہ سنی جائے تو اندر ہی اندر کڑھتے رہتے ہیں چونکہ ہر غلط بات، طریقہ کار،خامیوں پر اپنے حصے کی آواز بلند کرتا ہے تو چندلوگوں کی نظر میں برا بن جاتا ہے کچھ اداروں کی خامیاں ، افسران کی کوتاہیاں ، رشوت و لوٹ مار کی کہانیاں منظرعام پر لے آتا ہے تو ان اداروں میں موجود لوگ دشمن بن جاتے ہیں ، لیکن جب کسی غریب ، مظلوم، لاچار، مسکین کی آواز بلند کرتے ہیں تو کسی نیک و رحم دل حکمران و افسر کی نظر پڑ جاتی ہے جس سے اسکے مسائل کم ہو جاتے ہیں تو اس غریب کی دعائیں حقیقی اثاثہ ثابت ہوتی ہیں اور بہت سی بلاووں کو ٹال دیتی ہیں ۔ورنہ دنیاوی فوائد تو چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات تک محدود ہوتے ہیں ، موجودہ دور میں جہاں الیکٹرانک میڈیا کی بہتات ہوئی ہے وہاں پرنٹ میڈیا ، اخبارات، رسائل نے بھی کافی ترقی کر لی ہے ، صحافیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ، معاشرہ ، محفل،دوست احباب میں کسی نہ کسی الفاظ مثبت و منفی میں یاد کیا جارہا ہوتا ہے ، چند دنوں سے ایسے ہی ایک محفل میں ایک دوست کی جانب سے کہا گیا کہ یار یہ صحافی پھڈے باز کیوں ہوتے ہیں ، ہر مسئلہ میں اپنی ٹانگ کیوں گھسیڑ دیتے ہو، سوشل میڈیا پر بھی کئی دوستوں کی جانب سے اکثر یہی الفاظ دیکھنے و سننے کو ملتے ہیں ، گزشتہ دنوں لیہ کے مشہور شہر چوک اعظم میں ایک سیکنڈل سامنے آیا جس پر ہمارے ایک دوست صحافی کو مظلوم کی آواز بلند کرنے پر کافی برا بھلا کہا گیا اور سوشل میڈیا پر تمسخر بھی اڑیا گیا لیکن وہ دوست چونکہ سچ پر تھا اور ایک مظلوم کی آواز بلند کر رہا تھا تو انہوں نے اس کہانی کے مین کردار کو دعوت مناظرہ دے دیا ہے اپنے ایک کالم میں ہمارے دوست محسن عدیل چوہدری نے لکھا ہے کہ برائی کرنے والے کوبرا نہیں کہا جاتا اس کی نشاندہی کرنے ، آواز اٹھانے، حقائق کو بے نقاب کرنے والے کو نشانے پر رکھ دیا جاتا ہے ، صحافی کا کام مظلوم،مجبور، محکوم،متاثرہ کی آواز کو منظر عام پر لانا ہے کسی کو فائدہ پہنچتا ہے تو کسی کو نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے تو مفادات کو گزند پہنچنے پر مافیاز اور مضروب کی تلملاہٹ ، بے چینی،اور پراپیگنڈے کا سامنا بھی اسے ہی کرنا پڑتا ہے ۔۔
مسیحائی کی آڑ میں آنے والی مریضہ کو پھنسا کر خود دنیاوی مفاد حاصل کرتے رہے اور ساتھ میں دوستوں کو بھی شامل کرکے کچھ شرم نہ آئی، پھر بھی دم نہ بھرا تو سوشل میڈیا کی دنیا میں خاندان کے خاندان کو موردالزام ٹھرانا شروع کردیا ، ایسے میں پولیس دفاتر میں آئی سائلہ یا درخواست گزار کی آواز کو معاشرے کے سامنے رکھنا اگر جرم ہے تو ایسے جرم سرزد ہوتے رہیں گے ایسے ہی ایک دوست کی شادی کے سلسلے میں ایک مرغی فروش سے گوشت کی فراہمی کے معاملات طئے پا گئے جس میں مرغی کے گوشت کا ریٹ اس دن کی مارکیت کمیٹی سے ریٹ لسٹ کے مطابق 10 روپے فی کلو کم پر ہوا ، متعلقہ دن مرغی کا گوشت سپلائی کیا اور اسکے اگلے دن مرغی فروش نے بل بمعہ سرکاری ریٹ لسٹ مہیا کر دی، تو معلوم ہوا کہ ریٹ لسٹ میں تبدیلی کی گئی ہے مارکیٹ سے اور دوسری جگہوں سے اس تاریخ کی ریٹ لسٹ منگوائی تو معلوم ہوا کہ دکاندار نے اس ریٹ لسٹ میں خودساختہ تبدیلی کرکے ریٹ میں 20روپے فی کلو اضافہ کر کے بل بھیج دیا ہے ، اور پھر وہ دکاندار خود کو سچا ثابت کرنے پر تلا ہوا تھا ، ایسے میں رگ صحافت پھڑک اٹھی تو پھڈے باز کہلائے۔ایک اور کہانی سناتا ہوں ایک دوست کے ہمراہ ہوٹلنگ کا شوق ہوا تو مقامی معروف ہوٹل پر پہنچے ،مینو کارڈ کے مطابق اور ریٹ کو چیک کرتے ہوئے آرڈر سروو کیا ، کھانا آیا کھا لیا گیا بل آیا تو اندازے سے زائد تھا مینو کارڈ اور بل چیک کیا تو ریٹ لسٹ کے مطابق درست تھا سوچا کہ شاید غلطی ہو گئی ہو گی لیکن اسی وقت ساتھ والی ٹیبل پر آرڈر لیا جا رہا تھا اس مینو کارڈ کو اٹھایا تو حیران رہ گئے کہ ان دونوں مینو کارڈز و ریٹ میں فرق ہے کاونٹر سے رابطہ کیا تھا تو منیجر نے معذرت کی کہ چند دن قبل ہی ریٹ تبدیل کئیے ہیں تو پرانے اور نئے کارڈ مکس ہو جاتے ہیں کچھ دنوں بعد اسی ہوٹل پر دوبارہ گئے دوران آرڈر مینو کارڈ اور دوران بل تبدیل ، ریٹ میں فرق، روش دہرائی جا رہی تھی اس وقت ہم نے چپکے سے پہلے والا مینو کارڈ اپنے پاس ہی رکھ لیا تو اس وقت اندازا ہوا کہ ہوٹل عملہ کسی نہ کسی طریقے سے گاہکوں سے زائد قیمت وصول کر رہا ہے بل میں فرق ، ریٹ میں تبدیلی، زائد بل اور من مانے ریٹ مقرر کر کے گاہکوں کو یہ مافیا لوٹ رہا ہے اسی طرح کسانوں کو کئی انداز سے لوٹا جا رہا ہے ، شوگر ملز ، کھادوں ، زرعی ادویات ، جنس کی خریدو فروخت ، دکاندار، سرکاری و نیم سرکاری افسران، حتی کہ بیج کی فراہمی ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر کوئی پوچھنے والا نہیں ہم لفظوں میں بھارت پر تنقید کرتے ہیں اور باجرہ، جوار، مکئی، چارہ کے بیج انڈیا سے منگواتے ہیں اور ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ بھارت میں پیک اور مارکیٹیڈ بائی بھی وہاں کی کمپنیاں ہیں لیکن وہ بیج یہاں سپلائی کررہی ہیں کیسے ۔کاسمیٹیکس ، ادویات ،کھانے پینے کی اشیاء دوسرے ممالک کی یہاں فروخت ہو رہی ہیں۔ کیوں ۔۔، کوئی پوچھنے والا نہیں، کسی کی سزا کسی کو دی جارہی ہے ، کیوں ۔۔شہر میں دن دیہاڑے لوگوں سے پیسے چھین لئیے جاتے ہیں ادارے موجود رہتے ہیں لیکن عملدرآمد نہیں ہوتا کیوں ۔عدالتوں میں کیس پر کیس اور پیشیوں پر پیشیاں مل جاتی ہیں انصاف نہیں ملتا کیوں ۔۔گلیوں میں کوڑا کرکٹ ، گندگی،سیوریج موجود ہے ، عملہ گھروں میں کام کر رہا ہے کیوں ۔۔قانون نافظ کرنے والے ادارے جس کو جب چاہیں جہاں چاہئیں روک کر ننگا کر دیں ، گولیوں سے بھون دیں ،کیوں۔۔ سکولوں میں پانی پینے کے قابل نہیں ادارے خاموش ہیں کیوں ۔۔ ان سوالات کا جب جواب مانگتے ہیں تو پھڈے باز، بلیک میلر کہلاتے ہیں ۔ہم دوسرے ملکوں کی مثالیں بڑی دیتے ہیں کہ اس ملک نے کیسے ترقی کر لی ، دوسروں کو کرپٹ کہتے ہیں اپنے گریبان میں کوئی نہیں جھانکتا۔ ،اسی طرح آج کل ہم سوشل میڈیا پربڑے پردھان اور معاشرہ کی اصلاح کرنے کے بھاشن دے رہے ہوتے ہیں لیکن جب حقائق پر دنیا میں آتے ہیں تو ظالم ، چور،ڈاکو کے ساتھ جڑ جاتے ہیں اور مظلوم کو برا بھلا کہنا شروع کردیتے ہیں لیکن اسی مظلوم ، غریب، مسکین، لاچار کے ساتھ یہی پھڈے باز کھڑے ہوتے ہیں ۔