جھنگ کیساتھ محبتوں اور احترام کا رشتہ بچپن سے ہے جوکہ اب تک چلا آرہا ہے ، اس کی پہلی اور آخری وجہ یہ تھی کہ ’’ اماں ‘‘ مریم کے منہ سے جھنگ اور حضرت باہو سلطان صاحب کا ذکرسنا تھا کہ وہ ہمارے پیر ہیں ، ہمارے گاوں جیصل کلاسرا کے لوگ اونٹوں پر جھنگ جاتے تھے، مطلب حضرت باہو سلطان کے دربار پر حاضری ہوتی تھی ، اور جھنگ تک کا سفر یوں طے ہوتا تھا کہ مرد حضرات اونٹوں کیساتھ چلتے تھے جبکہ اونٹوں کے کچوواءو ں پر ترتمتیں مطلب خواتین ہوتی تھیں ، اونٹ خاص تھلوچی انداز میں سجائے جاتے تھے ، تھل دھرتی کے بلند وبالا ٹیلوں کو چیراتے ہوئے اونٹ اپنی منزل تک جہازوں کے انداز میں پہنچتے تھے،ذاتی حیثٰیت میں راقم الحروف کی خواہش رہی ہے کہ حضرت باہو سلطان صاحب کے دربار پر حاضری دوں لیکن ابھی انکا بلاوا نہیں آیا ، یوں حاضری کیلئے سفرجاری ہے ، پھر جھنگ ہیرسیال کی دھرتی ہے ، جوکہ رہتی دنیا تک محبت کی دنیا میں امر ہوگئیں ، ان کے پاس بھی حاضری ضروری ہے ۔
جھنگ ، لیہ سے جڑا ضلع ہے ، ایک وقت میں لیہ جھنگ میں شامل تھا ، مطلب یہ کہانی دوچار دنوں کی نہیں بلکہ صدیوں کا قصہ ہے، پھر جھنگ سے رشتہ ایک اور شکل میں بھی رہا ہے ، وہ میرے استاد ماجد صاحب تھے جوکہ لیہ کالج میں پڑھاتے تھے ، ماجد صاحب کی جو بات مجھے اچھی لگی اور اب تک لگتی ہے ، وہ جھنگ کے لہجہ میں بات کرتے تھے ، کبھی انہوں نے ادھر ادھر کی زبان بولنے کر اپنی شناخت کو چھپانے کی کوشش نہیں کی تھی بلکہ اپنی جھنگوچی زبان پر فخر کرتے تھے ۔ اپنے کولیگ مدثر لانگ سے یہی گلہ رہتاہے کہ یار آپ جھنگ کے ہوتے ہوئے اسلام آباد تک پہنچتے ہی ، جھنگوچی زبان کو بھول کر پتہ نہیں کونسی زبان بولنا شروع کردیتے ہیں . ادھر جھنگ دھرتی کے ہمارے سنیئر زاہد جھنگوی یوں پیارے ہیں کہ انہوں نے تو اپنے نام کیساتھ جھنگوی ایسے جوڑ لیا ہے کہ اب کوئی ان کو زاہد کہے تو کوئی نہیں پہچانے گا لیکن جونہی زاہد جھنگوی کہے گا تو سارا شہر کہے جی وہ اخبار ، ٹی وی والے زاہد جھنگوی صاحب کا ذکر کررہے ہیں ۔ پنجابی ، سرائیکی ، اردو ، پشتو، بلوچی یا پھر جتنی ماں بولیاں ہیں ، ان کا احترام ہے ، بھلا کسی کو ماں بولی پر اعتراض کرنے کا حق کیسے دیا جاتا ہے . ادھر اگر ہم اپنی ماں بولیوں کو بولنا چھوڑدینگے تو اپنی اماں کو بھول جائینگے . ایسا بھلا کب ممکن ہے ، اماں تو پہلی اور آخری محبت ہوتی ہے ۔ لحاظ سب زبانوں کا احترام ایسے لازم ہے ، جیسے کہ ماءوں کا احترام ازحد ضروری ہے ۔ اس بار اپنے تھل بالخصوص لیہ کی زیارت کیلئے گاوں گیا تو ڈاکٹر جاوید کنجال کے کلینک پر جانکلا ، ڈاکٹر صاحب نہیں تھے لیکن ان کے مہمان خانہ میں داخل ہوتے ہی جس کتاب پر نظر پڑی ، اس نے اپنی طرف کھینچا لیا اور میں نے جھٹ سے اچک لی ، یہ کتاب ’’تاریخ جھنگ‘‘ کے نام سے تھی جوکہ زیبری صاحب نے لکھی ہے، زبیری صاحب نے جھنگ کا حق اداکردیاہے ، ادھر ڈاکٹر کنجال کمرے میں داخل ہوئے اور بولے خضربھائی یہ کتاب آپ کیلئے خاص طورپر منگوائی اور پھر میری خوشی کا اندازہ ان کو میرے چہرے سے ہوگیا ۔ آج کے جھنگ اور تاریخ میں قد کاٹھ کیساتھ کھڑے جھنگ میں زمین آسمان کا فرق ہے . یقین نہیں آتاکہ آج کا جھنگ اتنا پسماندہ اور حکمرانوں کی نظروں سے اوجھل کیوں ہے جوکہ خود دنیا کی تاریخ میں حکمران تھا . لوگ زندگی پر کھیل جاتے لیکن جھنگ کی پگ نہیں گرنے دیتے تھے ،گزشتہ ماہ فیصل آباد سے اپنے یونیورسٹی فیلو طارق خان نیازی سے ہوتا ہوا ، جیسے جھنگ دھرتی میں میں داخل ہوا ، ٹھٹک کر رہ گیا ، اجڑا ہوا جھنگ ، نہ ہیر سیال کا جھنگ تھا اور نہ ہی پدما رانی کا جھنگ تھا ، تاریخ جھنگ کے اوراق کی ورق گردانی سے پتہ چلا کہ پنجاب کی تاریخ میں ایک عورت بھی رہی ہے جوکہ چندر خاندان سے تھی حکمران رہی ہے ۔ وہ کیسے بنی ، اور اتنے بڑے اقتدار تک کتنا بڑا رسک لیا ، ایک کہانی ہے ۔ وہ ایسے حکمران ایسے بنی کہ جن دنوں میں سن قبیلہ حکمران اور اس کا ایک سردار توامان بھیرہ ، چینوٹ ، خوشاب تریموں اور شورکوٹ کا 513 عیسوی میں حاکم تھا ، اس کے ظلم وستم سے علاقہ کے لوگ خوفزدہ تھے ۔ توامان کو کسی نامعلوم شخص نے قتل کردیا اور اس کا لڑکا مہرگل حاکم بنا ۔ اس نے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لینے کیلئے علاقہ میں ایسے خوفناک مظالم کئے کہ مورخیں کے قلم وہ تفصیلات لکھنے سے قاصر رہے ۔ انہی دنوں چندرخاندان کی ایک عورت پدما جوکہ بھیرہ میں رہتی تھی ، مظالم دیکھ کر تڑ پ اٹھی اور اس نے مالوہ کے راجہ یشو دھرھن سے خفیہ طور فوجی امداد حاصل کی اور 528 عیسوی میں مہرگل پر حملہ کردیا ، یہ حلمہ اتنا اچانک تھاکہ مہر گل بدحواس ہوگیا ، پدما نے مہرگل کو قتل کرکے علاقہ کا نظم ونسق سنبھال لیا ، پدما کو راجہ مالوہ نے بھیرہ تا شورکوٹ تمام علاقہ عنایت کردیا ، پنجاب کی تاریخ میں یہ پہلی عورت ہے جس نے حکومت سنبھالی اور نہز کو شکت دی مگر دوسال حکومت کرنے کے بعد فوت ہوگئی ، پھر اس علاقہ پر اس کی اولاد قابض رہی تا آنکہ چندر خان کے راجہ چچ نے جو 631 عیسوی میں حکمران بنا تھا ، یہ علاقہ بھی اپنی عمل داری میں لے لیا ۔
ادھر جھنگ جب 1759ء ضلع تھا ، اسوقت اس میں جو علاقہ جات شامل تھے ، ان میں لیہ ، منیکرہ ، شورکوٹ ، ساہیوال ، خوشاب ، کبیروالہ ، شاہ پور، سرگودھا ، سانگلہ ، لائل پور ، چینوٹ ، کمالیہ ، پنڈی بھٹیاں ، گوجرہ ، سمندری ، ٹوبہ سنگھ اور جڑانوالہ شامل ہے ۔ جھنگ ضلع کی اسوقت جن اضلاع سے سرحدیں ملتی تھیں ، ان میں بھکراور میانوالی مغرب سے آکر ملتے تھے ، جنوب میں کوٹ ادو ، ضلع ملتان ، تلمبہ ملتے تھے ،مشرق کی طرف سے اوکاڑہ اور جھنگ کی سرحدیں ملتی تھیں ، ادھر شیخوپورہ جھنگ دھرتی کیساتھ جڑتا تھا ، شمال میں حافظ آباد اور بھلوال جھنگ کیساتھ سرحدیں جوڑتے تھے ۔ جھنگ کی تاریخ میں ایک اور بڑا جرات مند کردار کا نام بھی آج تک زندہ ہے ۔ جس نے انگریزی حکمرانوں کی اطاعت سے انکار کردیا تھا ، وہ جلال عرف جلا بھروانہ تھا ، یہ شور کوٹ میں درمیانہ درجہ کا زمیندار تھا ، اس نے عین شباب کے وقت کھڑک سنگھ اور رنجیت سنگھ کے خلاف بھی تلوار اٹھائی اور نواب احمد خان کی تائید وحمایت میں جمعیت فراہم کرکے سکھوں کا مقابلہ کیا ، کھڑک سنگھ نے اس کی جائیداد ضبط کرلی اور جلال بھروانہ یہ تمام عرصہ وطن سے دور بہاولپور کے علاقہ میں روپوش رہا ، جیس مل کی بغاوت کے زمانہ میں یہ اپنے وطن آیا مگر اس وقت تک انگریز پوری طرح قابض ہوچکے تھے ۔ جلال عرف جلا بھروانہ نے انگریز ڈپٹی کمشنر کے بلاوے کو ٹھکرا دیا اور ٹیکس کی ادائیگی سے انکار کردیا، چنانچہ انگریز ڈپٹی کمشنر مسٹر ہاز نے اسے گرفتارکرلیا اور جلال بھروانہ فیروز پور کے قلعہ یں قید کے دوران زندگی کی بازی ہارگیا ۔ لیکن اپنے اصولوں پر ڈٹا رہا ۔ ادھرجب ہم ماضی کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہ میں سیتان ، ٹھٹھہ ، ملتان ، بھکر ، شورکوٹ ،دیپالپور ،بھیرہ ، چینوٹ اور خوشاب شہر کے نام ملتے ہیں ، مگر اس دور کی تاریخ میں لاہور کا کہیں ذکر نہیں ملتا ، کراچی ، اسلام آباد اور راولپنڈی کا بھی نام نظر نہیں آتا ہے ، کیوں کہ یہ شہر بعد میں بنے ، لاہور کا ذکر قدیم مورخ نہیں کیا ، اس شہر کو اہمیت محمود غزنوی کے دور کے بعد ملی کیوں کہ حضرت داتا گنج بخش نے اپنی تصنیف کشف المجواب میں لکھا ہے کہ لاہور نام کا ایک چھوٹا سا قبصہ ملتان کے مضافات میں ہے ، جہاں ہندووں کی آبادی ہے اور لوگ خدا کی توحید کی منکر ہے ۔ داتا صاحب نے یہ کتاب چوتھی صدی ہجری میں تصیف فرمائی تھی ، اس وقت لاہور کی کوئی اہمیت نہیں تھی ، بلکہ لاہور کی یہی پہنچان تھی کہ ملتان کے مضافات میں ہندووں ی کی بستی تھی ۔ ایک زمانہ تاریخ مین ایسا گزرا ہے ،جب شورکوٹ کا شہر سندھ سے کشمیر تک کی راجدھانی تھا ، اسی طرح تاریخ نے وہ دور بھی دیکھا جب چینوٹ بجائے خود ایک متمدن اور ترقی یافتہ صوبہ کا درجہ رکھتا تھا ،
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جھنگ کی سرزمین متعدد تہذیبوں کا مرکز اور امین رہی ، کسی زمانہ میں یہ ایک وسیع ریاست تھی ، اسکی زرخیزی وشادابی کا شہرہ تھا ، جب ہم اس خط کے محل وقوع اور جغرافیائی اہمیت کو دیکھتے ہیں تو ہ میں محسوس ہوتاہے پانچ دریاءوں کے دیس میں جھنگ قلب کی حیثیت رکھتا ہے ، اس کے ڈانڈے ایک طرف درہ بولان کے راستہ ایران سے ملتے ہیں ، دوسری طرف خبیر کے راستہ افغانستان سے جھنگ واحد آبی گزر گاہ تھی جو سندھ اور کشمیر کے درمیان رابط کا کام دیتی تھی ، سندھ اور بلوچستان کی طرف آنے والے حملہ آوروں کو عموما تریموں گھاٹ پر ہی پڑاءو ڈالنا پڑتا تھا کیوں کہ یہاں سے ملتان جانے کیلئے دریائے چناب میں کشتیاں ڈالتے تھے ،اور کشمیر جانے کیلئے دریائے جہلم میں سفر کرتے تھے ، گویا شمالا جنوبا یہی آبی گزرگاہ فوجوں کا مرکز بنتی تھی ، زمانہ قبل ازوقت تاریخ کے بارے میں جو کچھ مورخین نے لکھا ہے ، اس سے یہ بات پایہ ثبوت ہے سادی کوٹ اور لدہ کوٹ قدیم ترین شہر تھے، اور ان کی شہرت ان کے مضبوب قلعوں اور چناب ، جہلم و راوی کے رابطے کی وجہ سے تھی ۔ شورکوٹ چناب کے کنارے آباد رہے اور راوی یہاں سے صرف پندرہ میل دور ، لہذا جس بھی ہندوستان پر شب خون مارا ، اس کا پڑاو یہی شہر بنا ، اسی طرح تریموں گھاٹ اہم گزرگاہ رہی ، ہر حملہ آور کا لشکر یہاں قیام کرتا تھا ، یہی وجہ ہے کہ تریموں سے سانگلہ کی پہاڑیوں تک وسیع میدان اب سے تین سو برس قبل موجود تھے ، وہ علاقہ جسے ساندل بار کہا جاتا تھا ، وسیع فوجی قیام گاہ تھی ، جس کا سلسلہ کرانہ بار تک پھیلا ہوا تھا ۔ فی الحال تاریخ میں پورے قد کاٹھ کیساتھ کھڑے جھنگ سے اتنا ہی لیکن یاد رہے کہ جھنگ کی پارٹی ابھی تو شروع ہوئی ہے ;
خضرکلاسرا