اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈی جی میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ پارلیمان سپریم ہے، ملک میں جمہوریت چلتی رہنی چاہیئے،پاک فوج کا حلقہ بندیوں اور الیکشن میں کوئی کردار نہیں ہے،کسی بھی ترمیم کو لانا اس پر نظر ثانی کرنا یہ پارلیمان کی صوابدید ہے ،18ویں ترمیم اور صوبوں کو اختیارات دینے ہیں ،اس سے اچھی کوئی بات نہیں ،اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کے اختیار میں بہتری کے لئے کیپسٹی بلڈنگ ہونی چاہئے تو بالکل ہونی چاہئے ،باجوہ ڈکٹرائن سے متعلق کوئی دستاویز تحریری شکل میں جاری نہیں کی ۔
نجی ٹی وی چینل ’’آج نیوز ‘‘ کے پروگرام ’’ سپاٹ لائٹ ‘‘ میں خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ بطور پاکستانی چاہتا ہوں کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں ، ہم نے آج تک اٹھارویں ترمیم کے حوالے سے کوئی تحریری دستاویزات جاری نہیں کی ، صرف ایک ٹی وی انٹرویو میں بات کی تھی ،اگر پارلیمنٹ اٹھارویں ترمیم کے حوالے سے کوئی ترمیم لانا چاہتی ہے تو یہ اس کا کام ہے ،صوبوں کے حوالے سے بہتری لانے کے لئے کام تو پارلیمان کو ہی کرنا ہے ،18ویں ترمیم اور صوبوں کو اختیارات دینے ہیں تواس سے اچھی کوئی بات نہیں ،اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کے اختیار میں بہتری کے لئے کیپسٹی بلڈنگ پر کام کرنا ہو گا ،ملک میں ڈیمو کریسی چلنی چاہئے یہ ہر پاکستانی کی خواہش ہے ۔انہوں نے کہا کہ اگر کورٹ نے کسی بھی شخص کی گرفتاری کا حکم دیا ہے تو پولیس اور حکومت کا فرض بنتا ہے تو جس نے بھی لا ان آرڈر ہاتھ میں لیا ہے اسے گرفتار کرے ۔انہوں نے کہا کہپاکستان میں داعش کاکوئی وجودنہیں ہے اورنہ ہی داعش کاکوئی مربوط انفراسٹرکچرقائم ہونے دیں گے، جو بھی لو پول ہیں اس پر کام ہو رہا ہے ،ٹی ٹی پی کے حوالے سے ہم نے اتنا کام کیا ہے کہ وہ اب ختم ہو چکی ہے اور ملک میں اس کا کوئی سلیپر سیل نہیں ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر نہیں لا سکتا،طالبان سے افغان حکومت اور امریکا نے بات کرنی ہے۔انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں کو کچھ ہو رہا ہے اسے دہشت گردی کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہئے ،ایسا کہنا درست نہیں ہے کہ پاکستان کی طرف سے کچھ نہیں کیا گیا ،کشمیر کی عوام کو اپنا حق خود ارادیت ملنا چاہئے اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ دوہزار آٹھ میں سوات میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی تھیں،سوات میں سانس لینا مشکل تھا ،ایک وقت تھا کہ سوات میں گلے کٹ رہے تھے ،سوات میں کٹے ہوئے سروں کے ساتھ فٹ بال کھیلا جاتا تھا ،سول حکومت آرمی کو آرٹیکل 245کے تحت بلاتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ حراستی مراکز میں رکھنے والوں کو جیل مینول کے مطابق تمام سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ایسا نہیں کہ ہر وہ بندہ جو نہیں مل رہا وہ فورسز کی حراست میں ہے،عوامی مطالبے پر سوات میں انٹرنمنٹ سینٹر بنا،اگر کسی کی موت ہو جائے تو لواحقین کے کہنے پر پوسٹ مارٹم ہونا چاہئے ،انٹرنمنٹ سینٹر میں قوانین کے مطابق تمام سہولیات ملتی ہیں ،آرمی مشکوک افراد کو پکڑتی ہے تو 24سے 72گھنٹوں میں تفتیش مکمل کر لیتی ہے ،بے گناہوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے ،ہم سوات میں دیرپا امن کی طرف جانا چاہتے ہیں ،2016میں سوات میں 55چیک پوسٹیں تھیں آج 6رہ چکی ہیں ،عدالتیں ثبوتوں کے اوپر کام کرتی ہیں ۔