اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس کے بعدمیڈیاکوبریفنگ دیتے ہوئے کونسل کے چیئرمین قبلہ ایازکاکہناتھا کہ کونسل نے طے کیا ہے حج اخراجات پر سبسڈی دے سکتی ہے ۔حکومت کوچاہیے کہ حج کے لیے بلاتفریق عمومی سہولیات فراہم کرے ،ان کاکہناتھا کہ زکوٰۃ کی رقم سے سبسڈی نہیں دی جاسکتی، حکومت کسی دوسری مدسے یہ سبسڈی دے،البتہ مراعات، مثلاًٹرانسپورٹ، رہائش گاہوں ودیگرسہولیات عازمین کودینے کے لیے سبسڈی دیناجائزہے اوریہ سبسڈی پرائیویٹ حاجیوں کوبھی دی جاسکتی ہے۔ لگتاہے موجودہ حکومت کواسلامی نظریاتی کی سفارشات سے شدیداختلاف ہے۔ اس لیے اس کونسل کی سفارشات کے عین خلاف حج پالیسی سال دوہزارانیس کااعلان کیاہے۔وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں سال دوہزارانیس کی حج پالیسی پیش کی گئی کابینہ کوبتایاگیا کہ حج درخواستیں بیس فروری سے وصول کی جائیں گی۔اطلاعات تھیں کہ حکومت فی حاجی ۴۵ ہزارروپے سبسڈی دے گی لیکن حکومت نے کسی قسم کی سبسڈی نہ دینے کافیصلہ کیا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ وہ حج پراسیس کوخودمانیٹرکریں گے اورحاجیوں کودی جانے والی سہولیات پرکسی قسم کاسمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ رواں برس ایک لاکھ چوراسی ہزاردوسودس پاکستانی فریضہ حج اداکریں گے۔ جس میں سرکاری کوٹہ ساٹھ فیصداورنجی ٹورآپریٹرکاکوٹہ چالیس فیصدرکھاگیا ہے۔ اس سال اسی سال یازائدعمرکے افراداورمسلسل تین سال سے ناکام رہنے والوں کوبغیرقرعہ اندازی حج پربھجوایاجائے گا ۔ بریفنگ کے دوران بتایاگیا کہ حج کے اخراجات دوزونزمیں تقسیم کردیے گئے ہیں ۔ڈیڑھ لاکھ اضافہ کے ساتھ شمالی زون کے حج اخراجات چارلاکھ چھتیس ہزار۹۷۵ روپے اورجنوبی زون کے اخراجات چارلاکھ ستائیس ہزار۹۷۵ ہوں گے۔وزیراعظم نے واضح کیا کہ حجاج کوکسی قسم کامسئلہ درپیش نہیں ہونا چاہیے ۔ ایک قومی اخبارمیں رواں سال کی حج پالیسی کے حوالے سے ایک رپورٹ یوں شائع ہوئی ہے کہ وفاقی حکومت نے گزشتہ برسوں کے مقابلے میں رواں سال سرکاری سکیم کے حج پیکج میں ۶۵ فیصداضافہ کرکے تنخواہ دار، سفیدپوش طبقے کے لیے فریضہ حج کی ادائیگی خواب بنادی۔سرکاری سکیم کے تحت ایک لاکھ چھپن ہزار روپے کے اضافہ کے بعدمہنگاترین حج پیکج دیاگیاجب کہ سال دوہزارتیرہ میں دولاکھ بیانوے ہزار،سال دوہزارچودہ میں دولاکھ ۷۲ ہزار، سال دوہزارپندرہ میں دولاکھ ۶۴ ہزار،سال دوہزارسولہ میں دوہزاردولاکھ ۷۸ ہزار، سال دوہزارسترہ اوراٹھارہ میں حج پیکج دولاکھ اسی ہزارروپے تھا اوراب چارلاکھ چھتیس ہزارروپے کردیاگیاجب کہ اس میں قربانی کی رقم شامل نہیں۔ہرحاجی کے لیے دوہزارریال ساتھ لے جانالازمی شامل کرکے پیکج پانچ لاکھ تیس ہزارروپے تک پہنچ جائے گا ۔ رواں سال سرکاری سکیم کے تحت حج کی سعادت ایک بارکرنے سے ختم کرکے پانچ سال کردی گئی۔کوئی بھی شخص جس نے گزشتہ پانچ برسوں میں سرکاری سکیم کے تحت حج کیاہووہ سال دوہزارانیس کے لیے سرکاری سکیم میں درخواست دینے کااہل نہیں ہوگا۔یہ پابندی نجی سکیم پربھی لاگوہوگی۔اس ضمن میں صرف خاتون کے محرم استثنیٰ حاصل ہوگا،حج پالیسی میں مکہ اورمدینہ کے درمیان سوفیصدوی آئی پی بسوں کی فراہمی، رہائش، دووقت کاکھانااورناشتہ، مرکزمیں اسی فیصدرہائش، حجاج کومکہ اورمدینہ کے درمیان سامان کی ترسیل کی سہولت، زمزم کی پیشگی پاکستان روانگی سمیت حجاج کرام کی ہرلمحہ راہنمائی کے لیے موبائل اپلی کیشن شامل کی گئی ہیں ۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنے پانچ برسوں کے دوران حج اخراجات میں اضافہ نہیں ہونے دیااورگزشتہ سال سرکاری سکیم کے تحت جانے والے حجاج کو۴۵ ہزارروپے سبسڈی بھی دی۔پالیسی کے مطابق گزشتہ برسوں کی طرح رواں سال بھی عرفات میں ایئرکولرکی فراہمی، تین وقت کاکھانا، وقت کی بچت کے لیے رہائشی عمارتوں میں مکاتب کاانتظام، تمام رہائش گاہوں میں وائی فائی کی سہولت مدینہ مرکزمیں سوفیصدرہائش، پاکستان سے مکہ، مدینہ، جدہ اورواپسی کے لیے سنگل ٹرپ حج، مریضوں کے لیے شٹل سروس ،ڈسپنسریوں میں لیڈی ڈاکٹروں کی موجودگی کویقینی بنایاجائے گا۔ای ویزاکی سہولت بھی دی جائے گی۔تمام بینک حج درخواستوں کی مدمیں جمع ہونے والی رقم کوشریعہ اکاؤنٹ میں رکھیں گے۔وفاقی وزیرمذہبی امورنورالحق قادری کہتے ہیں کہ اپوزیشن کاکام تنقیدبرائے تنقیدرہ گیاہے۔ریاست مدینہ میں مفت یاسبسڈائزحج وعمرے نہیں کرائے جائیں گے۔ ریاست مدینہ کامقصداسلامی حقیقی فلاحی ریاست بناناہے۔ حج غریبوں نہیں صاحب استطاعت پرفرض ہوتاہے۔ بیس کروڑ عوام کے پیسے سے ڈیڑھ لاکھ سے زائدکوسبسڈی دیناقرین انصاف نہیں۔ موجودہ معاشی صورت حال میں ہم کیسے سبسڈی افورڈکرسکتے ہیں۔ایک قومی اخبارکی خبرکے مطابق نورالحق قادری کہتے ہیں کہ ریاست مدینہ کایہ مطلب نہیں کہ مفت حج کرایاجائے۔ایوان بالامیں جماعت اسلامی کے سینیٹرمشتاق احمدنے حکومت کی جانب سے حج اخراجات میں اضافے کومستردکرتے ہوئے اس پرتوجہ دلاؤنوٹس پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے مدینہ کی ریاست بنانے کادعویٰ کیاتھا لیکن یہ لوگوں کومکہ اورمدینہ جانے سے روک رہی ہے۔ حکومتی حج پالیسی بہت مایوس کن ہے۔پورے ملک کے لوگ اس پالیسی سے پریشان ہوگئے ہیں۔حکومت کوحج اخراجات میں لوگوں کورعایت دینی چاہیے تھی۔ رضاربانی نے کہا کہ کیاوزیرمذہبی امورناراض ہیں ؟ حج پالیسی سے متعلق پریس کانفرنس میں بھی وہ نہیں آئے۔جب کہ آج ایوان میں بھی نوٹس کاجواب دینے نہیں آئے۔اس پرتحریک انصاف کے سینیٹرشبلی فرازنے کہا کہ حکومت ریاست مدینہ کی بات پرقائم ہے۔وزیرمملکت برائے پارلیمانی امورعلی محمدخان کاکہناہے کہ حکومت اب کوشش کررہی ہے کہ حاجیوں کوریلیف مل جائے ۔فوادچوہدری نے حج سبسڈی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت حج پرایک روپیہ بھی نہیں کمارہی۔حج اورزکوٰۃ دوعبادات ہیں جوصاحب استطاعت پر واجب ہیں۔ سبسڈی کامطلب یہ ہے کہ حکومت غریب لوگوں سے رقم لے کرحج کرائے۔یہ حج عبادت کی بنیادی فلاسفی سے ہی متصادم ہے۔علامہ مولاناراغب نعیمی کہتے ہیں کہ حکومت اگرعازمین حج کے کسی گروپ کورعایت دیناچاہتی ہے توشرعی طورپراس کی اجازت موجودہے۔ اگرحکومتی اخراجات میں اس کی گنجائش موجودنہیں ہے توہم حکومت پرجبرنہیں کرسکتے۔حج کاتعلق زادارہ سے اورآنے جانے کے اخراجات سے ہے۔ اگرحاجی حج کے اخرااجات برداشت کرسکتاہے اوراس کے پاس چارلاکھ سے زائدکی رقم موجودہے تواس پرحج فرض ہوگااگراس کے پاس اتنی رقم موجودنہیں ہے توحج فرض نہیں ہوگا۔سابق وزیرمذہبی امور سیّدحامدسعیدکاظمی کہتے ہیں کہ حج صاحب استطاعت پرفرض ہے سبسڈی دیناجائزنہیں۔
حج پرسبسڈی دیناجائز ہے یانہیں اس بارے مفتیان عظام اورعلماء کرام ہی بہتربتاسکتے ہیں البتہ وفاقی وزیرمذہبی امورنورالحق قادری کے مطابق ریاست مدینہ میں مفت اورسبسڈائزحج وعمرے نہیں کرائے جاسکتے توکیاریاست مدینہ میں سودی بینکاری نظام چلایاجاسکتا ہے، کیاریاست مدینہ میں مذہب کے نام پرشراب کے پرمٹ جاری کیے جاسکتے ہیں۔ کیاریاست مدینہ اسے کہتے ہیں کہ غیرمسلم رکن قومی اسمبلی تومذہب کے نام پرشراب کے پرمٹ جاری کرنے پر پابندی کامطالبہ کرے اورمسلمان ممبران قومی اسمبلی اس پابندی کی مخالفت کریں۔ کیاریاست مدینہ کامطلب یہی ہے کہ حج پرجانے والوں کے لیے حج مہنگا کر دیاجائے۔ یہ درست ہے کہ حج صاحب استطاعت پرفرض ہے حکومت نے تولوگوں سے حج کرنے کی استطاعت ہی چھین لی۔ نورالحق قادری کی اس بات کوبھی تسلیم کرلیاجائے کہ بیس کروڑ عوام کے پیسے سے ڈیڑھ لاکھ سے زائدکوحج سبسڈی دیناقرین انصاف نہیں توکیابیس کروڑ عوام کے پیسے سے اس ملک میں جوکچھ ہورہا ہے وہ قرین انصاف ہے؟ موجودہ معاشی صورت حال میں حکومت حج کے لیے سبسڈی افورڈ نہیں کرسکتی توکیاموجودہ معاشی صورت حال میں وزراء ، سیکرٹریز اورارکان اسمبلی کی تنخواہیں افورڈ کرسکتی ہے؟ ایک نوجوان نے فیس بک پرلکھا ہے کہ اب یہ سبسڈی بندکرنے کاسلسلہ شروع ہوگیا ہے توپارلیمنٹ ہاؤس کیفے ٹیریا، وزراء اورارکان پارلیمنٹ کی سفری سبسڈی، پٹرول، فون، بجلی کے بلوں میں سبسڈی ،رعایت ،مفت سفر، سب سے شروع کریں ۔یقین کریں حج پرسبسڈی ختم کرنے سے کہیں زیادہ بچت ہوگی۔لیہ کے سینئر صحافی ملک مقبول الٰہی اپنے فیس بک پیج پرلکھتے ہیں کہ کچھ لوگوں کی رائے الگ ہے کہ پاکستان معاشی بدحالی کاشکارملک ہے حکومت معاشی استحکام کے لیے مشکل فیصلے کرنے پرمجبورہے اوراقتصادی بحران سے نمٹنے کے لیے سب سے پہلے قوم کوتھوڑی سی قربانی دینے کی اپیل کی گئی ہے کہ حج پرجوسبسڈی دی گئی تھی اسے واپس لیاگیا ہے۔ اس فیصلے کے بعدبقول شخصے جسے محلے کی مسجدکامحل وقوع بھی معلوم نہیں ہے وہ بھی تنقیدکررہاہے میرے بھائیوہم بے عمل ہوسکتے ہیں۔مگرشعائراسلام کی اہمیت سے آگاہ اورمحبت وعقیدت واحترام سے سرشارہیں حج سبسڈی واپسی پراعتراض کرنے والے خاموش رہتے اگرحکومت سادگی کانمونہ خودبنتی۔وفاقی صوبائی کابینہ محدودہوتیں، ریلوے، پی آئی اے سمیت ہرجگہ اداروں سے وی آئی پی کلچر کا عملاً صوابدیدی اختیارات ،آؤٹ آف میرٹ کاخاتمہ ہوچکاہوتا، حکمرانوں کی اپنی تجاوزات مٹادی جاتیں، قومی خزانے پرڈالے گئے عیاشیوں کے بوجھ کم کر دیے جاتے توقوم بھی ہرقسمی قربانی دینے کے لیے تیارہوتی۔ اکثرپاکستانی خط غربت سے نیچے زندگی بسرکرتے ہیں ان کے لیے آسانیاں پیداکرنافلاحی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے اس ضمن میں ڈیمانڈکوبغاوت نہیں اپنی ریاست ماں سے اس کی اولادکی ننھی سی ضدسمجھاجائے۔بدقسمتی سے ہم ایسے کئی واقعات دیکھ چکے ہیں کہ جب صدرپاکستان کے منصب پرفائزاپنے بیٹے کوفارن میں تعلیمی ڈگری کے حصول کے لیے قومی خزانہ سے وزٹ کرتے ہیں ۔ملک مقبول الٰہی مزیدلکھتے ہیں کہ صاحب استطاعت پرحج کی فرضیت اس طرح یاددلائی جارہی ہے جیسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے دیگراحکامات سود، رشوت، اقرباپروری، غلط سفارش، اختیارات کاناجائزاستعمال، ملاوٹ، اوورچارجنگ، اووربلنگ، محمودوایازکوصف میں بٹھایاکھڑاکردیاگیاہے علاقہ کاعوامی نمائندہ ،ایس پی، ڈی سی یہ اطمینان کرکے سوتے ہیں کہ ان کے اردگردکوئی نہ بھوکاپیاسارہ رہاہے نہ کوئی دوائی کے بغیربسترپرآخری سانسیں گن رہاہے ارکان اسمبلی نے اپنی تنخواہیں بڑھانے کابل پھاڑدیاہے بلکہ جومراعات لے رہے تھے ان میں پچیس فیصدکمی پررضامندہوگئے ہیں اوربس زندگی کاایک مسئلہ حج پرسبسڈی کاخاتمہ قومی معیشت کے سدھارپاکستا ن کواپنے پاؤں پراٹھانارہتاتھاجوپایہ تکمیل تک پہنچ گیا ہے ۔سینئرصحافی مزیدلکھتے ہیں کہ مائی ڈیئر، بلاشبہ حج صاحب استطاعت پرفرض ہے کیاریاست کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ ایسے مواقع پیداکرے کہ عام فردکی زندگی میں آسانی پیداکرے اوران کی روزمرہ کی زندگی اوران کی عبادات حج وعمرے کے فرائض وسنت میں سہولت پیداکرے۔فوادچوہدری کہتے ہیں حکومت حج پرایک روپیہ نہیں کمارہی۔ قارئین اس تحریر میں گزشتہ پانچ سالوں کے حج اخراجات اوررواں سال کے حج اخراجات کی مختصرتفصیل پڑھ چکے ہیں۔ حج پرمکمل کتنے اخراجات آتے ہیں ۔ مفتی انعام اللہ اشرفی حج اخراجات کی تفصیل کچھ اس طرح لکھتے ہیں کہ ریٹرن ٹکٹ ۷۶ ہزار روپے، چالیس دن کی رہائش ساٹھ ہزاررروپے، کھاناچالیس ہزارروپے، جدہ سے مکہ تین ہزارپانچ سوروپے، مکہ سے مدینہ اورواپسی سات ہزارروپے، ہوٹل سے حرم بیس ہزارروپے، حج فیس پندرہ ہزارروپے پانچ فیصدٹیکس ۹ ہزارچارسوپچیس روپے، ٹوٹل دولاکھ تیس ہزارروپے دولاکھ اٹھاسی ہزارروپے کون سی سبسڈی تھی جسے بڑھاکراتنامنافع بڑھادیا،مفتی انعام اللہ اشرفی مزیدلکھتے ہیں کہ دوسری بات یہ ہے کہ ریاست مدینہ بلاتفریق لوگوں کے لیے آسانیاں پیداکرتی تھی اور یہاں تومسلمانوں کے لیے مشکلیں کفاروں کے لیے آسانیاں پیداکی جارہی ہیں۔ حج مہنگاکرکے مسلمانوں کے لیے مشکلیں کھڑی کردی گئیں یہ توعجیب ریاست مدینہ ہے؟ایک اورشخص نے سوشل میڈیاپرلکھاہے کہ ایک وزیرسینیٹ میں تقریرفرمارہے تھے حج پرسترفیصداخراجات سعودیہ میں آتے ہیں توجناب میری (اس شخص کی) معلومات کے مطابق سعودیہ کے اخراجات یہ ہیں رہائش فی حاجی یومیہ سترریال چالیس دن کے ہوئے اٹھائیس سوریال، کھانافی حاجی یومیہ تیس ریال چالیس دن بارہ سوریال، کرایہ بس مکہ سے مدینہ اورواپسی دوسوریال، کرایہ متفرق منیٰ ، عرفات، مزدلفہ تین سوریال ٹوٹل چارپانچ سوریال اس شخص نے چھتیس روپے ۶۵ پیسے فی ریال کے حساب سے سعودی عرب میں کل اخراجات ایک لاکھ ۶۴ ہزار۹ سوپچیس روپے بنائے ہیں۔ اس میں پاکستان سے سعودی عرب اورریٹرن ٹکٹ کے سترہزارروپے اورحکومت جوسروس فراہم کرتی ہے آنے جانے کے انتظامات کے حوالے سے اس کے پچاس ہزارمزیدجمع کرلیں توکل اخراجات دولاکھ چوراسی ہزار۹ سواٹھائیس روپے بنتے ہیں ۔ اس نے اعلیٰ عدلیہ کی زیرنگرانی آڈٹ کرانے کامطالبہ بھی کیا۔ اگرچہ لکھے گئے کل اخراجات میں معمولی فرق ہے ۔ حج کے دونوں اخراجات میں ایک بات متفقہ ہے اوروہ یہ ہے کہ دونوں تفصیلات میں اخراجات تین لاکھ روپے سے کم ہی ہیں۔ حکومت کوحج اخراجات میں نظرثانی کرنی چاہیے۔ حج پرسبسڈی نہیں دی جاسکتی ایساتوکیاجاسکتا ہے کہ صدراوروزیراعظم اورتمام گورنرز اورصوبائی وزرائے اعلیٰ چار، چار، وفاقی اورصوبائی وزراء تین ،تین، وفاقی اورصوبائی سیکرٹریز دو، دو اورتمام ارکان قومی وصوبائی اسمبلی ہرسال ایک ایک ایسے شخص کواپنے اخراجات پرحج پربھیجیں جوحج کے اخراجات توبرداشت نہیں کرسکتے مگرمدینہ منورہ جانے کی خواہش ضروررکھتے ہیں۔ اس میں تیس فیصدکوٹہ علماء کرام اورآئمۃ المساجدکاہوناچاہیے۔اس سکیم کے تحت الگ سے درخواستیں وصول کی جائیں صدر، وزیراعظم ،وفاقی وزراء کے کوٹے کے لیے ملک بھرسے ،گورنرز، وزرائے اعلیٰ اورصوبائی وزراء کے کوٹے کے لیے متعلقہ صوبے اورممبران قومی وصوبائی اسمبلی کے لیے ان کے حلقوں سے الگ الگ قرعہ اندازی کی جائے۔ مستحقین کی فہرست صحت کارڈ کی طرزپرمرتب کی جائے ۔ حکومت سبسڈی نہیں دے سکتی تواس طرح توریلیف دے سکتی ہے۔
siddiqueprihar@gmail.com