اسلام آباد ۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان آئندہ کسی کے خلاف فوجی کارروائی نہیں کرے گا، اشرف غنی بھی ملاقات میں چاہتے تھے کہ ہم طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کریں ، ہم طالبان پر ہر طرح کا پریشر ڈالیں گے مگر اب پاکستان کسی کی جنگ نہیں لڑے گا، افغانستان کے مسئلے کا واحد حل طالبان کو حکومت سازی میں شامل کرنا ہے ۔
وزیر اعظم نے اسلام آباد میں پاک افغان یوتھ فورم کے وفد سے ملاقات کی اور سوالوں کے جواب دیے، افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کے بعد پاک افغان تعلقات میں کشیدگی سے متعلق سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ صدر اشرف غنی چاہتے تھے کہ ہم سرحد پار سے نقل و حرکت کو روکنے کی کوشش کریں ، ہم نے انہیں کہا کہ جہاں لوگ سرحد پار کرتے ہیں ہم وہاں کارروائی کریں گے ، اگر آدھے افغانستان پر طالبان کو کنٹرول حاصل ہے تو وہ پاکستان میں آکر کیا کریں گے ، وہ چاہتے تھے کہ ہم طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کریں ، ہم سب کچھ کریں گے لیکن مزید فوجی کارروائیاں نہیں کریں گے ،ہم ماضی میں کسی اور کی جنگ لڑ رہے تھے اور اس میں ہماری 70 ہزار لوگوں کی جانیں گئیں ، اب پاکستان میں اس بات پر اتفاق ہے کہ کوئی فوجی کارروائی نہیں ہوگی ، افغان حکومت جس طرح کا دباو¿ چاہتی ہے ہم طالبان پر ڈالیں گے کیوں کہ افغانستان میں امن ہمارے مفاد میں ہے مگر فوجی کارروائی نہیں کریں گے ۔
وزیر اعظم نے کہا کہ صدر اشرف غنی نے پاکستان میں طالبان کے خاندانوں کے بارے میں بات کی تو سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان ان کے خاندانوں کو جیل میں ڈال دے ، پاکستان ان خاندانوں کے ساتھ کیا کر سکتاہے؟، اگر کچھ طالبان رہنماو¿ں کے خاندان یہاں آباد ہیں توصرف ہم ان پر یہی اثر رسوخ استعمال کر سکتے ہیں کہ انہیں امریکیوں سے مذاکرات پر مجبور کر سکتے تھے ، اگر ہم ان کو پکڑ کر جیلوں میں ڈالتے یا ان کے خلاف کارروائی کرتے تو ہمارا یہ اثر و رسوخ بھی ختم ہو جاتا ۔سرحد سے آر پار آنے جانے کو کنٹرول کرنے کیلئے پاکستان نے سرحد پر باڑ لگائی جس پر بہت خرچہ آیا ہے ، تقریبا نوے فیصد سرحد پر باڑ لگ چکی ہے ، ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ سرحد پر نقل و حرکت کنٹرول کریں ، میری حکومت کا موقف ہے کہ افغانستان کو باہر سے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا ، افغان عوام جس کا بھی انتخاب کریں گے ، پاکستان اس کے ساتھ اچھے تعلقات رکھے گا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ طالبان جو کریں ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں، پاکستان میں 30 لاکھ افغان مہاجرین رہتے ہیں ، پاکستان کے مفاد میں افغانستان کا امن ہے ، روزانہ 25 سے 30ہزار افراد افغانستان سے پاکستان آتے جاتے ہیں ، پاکستان کیسے چیک کر سکتا ہے کہ کون افغانستان میں جنگ لڑنے کیلئے جا رہا ہے ، ہم مسلسل کہہ رہے ہیں کہ تمام افغان مہاجرین اپنے ملک واپس جائیں ، تیس لاکھ میں سے چند سو لوگ افغانستان میں جنگ کیلئے تھے ، اور پھر انکی لاشیں واپس پاکستان لائی گئیں تو پاکستان کو کیسے مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے ،پاکستان کیسے مہاجرین کیمپوں میں جا کر پتہ کر سکتا ہے کہ کون طالبان کے حامی ہیں اور کون نہیں ، ہم نہ تو نوے کی دہائی کی سٹریٹجک ڈیپتھ پالیسی پر گامزن ہیں اور نہ ہی ہمارا کوئی پسندیدہ ہے ۔20سال سے فوجی حل کے ذریعے افغانستان میں امن لانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ ناکام ہو گیا ، اب آپ پر منحصر ہے یا تو امریکی حمایت کے ساتھ فوجی حل کی تلاش جاری رکھیں یا طالبان کے ساتھ معاملات نمٹائیں ۔