پہیہ ایک انتہائی کارآمد ایجاد تھی اور اب تک اس سے اور بھی بہتر ایجادات ھوتی رہی ہیں اور ھوتی رہیں گی لیکن غریب آدمی سے لیکر اربوں پتی پہیہ کے بغیر صفر ہیں۔ اس سے پہلے انسان کبھی گھوڑا، کبھی اونٹ ،اور کبھی گدھے کو سواری کے لئے استعمال کرتا رہا ھے لیکن خوش قسمتی سے ان سواریوں میں اموات اس لئے کم ھوتی تھیں کیونکہ ان کی رفتار اور ان کو کنٹرول انسانی طاقت میں تھا اللہ کی مہربانی کے ساتھ ساتھ ۔لیکن جب پہیہ ایجاد ھوا تو اس سے بیل گاڑی، گھوڑا گاڑی، اونٹ گاڑی کے ساتھ ساتھ پہلے بائیسکل اور پھر انجن والی گاڑیوں کا رواج آیا ۔ اس سے ایجادات کا سیلاب آیا۔ موٹر سائیکل اور جیپ، کار اور پھر جہاز، راکٹ۔ جہاں ان ایجادات نے انسانی زندگی کو یکسر تبدیل کرکے آسان بنایا وہیں اس سے خطرات اور حادثات نے بھی جنم لیا ۔ جہاں سالوں کا سفر مہینوں اور گھنٹوں میں ھونے لگا وہاں سہولت بڑھنے کے ساتھ ساتھ خطرات بھی اسی بتدریج بڑھتے چلے گئے۔جب ایجادات ھوئی تو عام لوگ ان کے فوائد سے آگاہ تھے لیکن پھر ان کے حادثات سےبھی ان کو آگاہی دی جاتی رہی ۔ اب یہ انفرادی اور علاقائی مسئلہ ھے کہ کون کتنا ان ہدایات پر عمل کرتا ھے ۔جب کوئی گاڑی سو میل فی گھنٹہ یا کم وبیش اسی رفتار سے چل رہی ھو تو جہاں وہ خود مسافر کے لئے خطرناک ھوتی ہے وہیں سڑک پر چلنے والے انسان ، جانور بھی ان کی زد میں آ سکتے ہیں۔جب معاملہ انسانی جان کا ھو تو اس سے زیادہ کوئی چیز اھم نہیں ھے ۔ کوئی بھی گاڑی چلانے کے لئے چند چیزوں کی ضرورت ھے اور اس کے بغیر گاڑی چلانا نہ صرف چلانے والے کے لئے قاتل ھو سکتی ھے وہیں راہ گیر اور پیدل چلنے والوں کے لئے حد درجہ نقصان کا باعث بن سکتی ھے
مجھے یہ یقین ھے سب کو ان کا علم ھے لیکن اگر کچھ باتیں دھرا لی جائیں تو شاید ھمیں اس کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں آسانی ھو ۔ ایک گاڑی اور اس کے مسافروں کے لئے محفوظ سفر تب ھو سکتا ھے جب
1- گاڑی کی مکینیکل حالت درست ھو ۔ اور اس میں کچھ چیزیں بہت ہی ضروری ہیں جیسے گاڑی کا بریک سسٹم، اس کا سٹیرنگ سسٹم ، گئیر سسٹم، گاڑی کی ظاہری حالت اور باڈی کی مضبوطی اور خاص طور پر ٹائر کی صحیح حالت۔
2- اس میں پٹرول اور گاڑی کی بیٹری فل ھو ۔
3- ڈرائیور نے گاڑی چلانے کی باقاعدہ تربیت لی ھو
4- جس راستے پر جانا ھو اس کا علم ھو
5- جس سڑک پر گاڑی نے چلنا ھو وہ سڑک گڑھوں سے صاف ھو اور اس سڑک پر کوئی بھی غیر ضروری رکاوٹ
نہ کھڑی کی گئی ھو
6- اگر مسافر رات کو سفر کر رہے ہیں تو ڈرائیور کو صحیح نظر آتا ھو، گاڑی کی لائیٹس ٹھیک کام کرتی ھوں
7- جس روڈ پر سفر کرنا ھو اس پر بلاوجہ جانوروں کا داخلہ منع اور جہاں کہیں موڑ خطرناک ھو تو اس پر بورڈ لگا کر ریفلیکٹر ضرور واضع کیا گیا ھو
8- گاڑی چلانے والا ڈرائیور چاک و چوبند ھو اور نیند سے نہ بھرا ھو، نشے میں نہ ھو اور نہ ہی غصے کا شکار ھو
9- اور اگر اس کے ذہن میں کوئی کیڑا ھو کہ وہ نواب ھے ، اور یا تو وہ انسانوں کو انسان سمجھتا
ھو یا پھر وہ نواب نہیں کسی عام انسان کو چلانے دے
10- اگر مسلمان ھے تو سفر کی دعا بھی ضرور پڑھی ھو ۔ اگر کسی کو معلوم نہیں تو وہ ھے "سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُون
11- ڈرائیورز کو موبائل فون کے استعمال سے روکنا ھوگا کیونکہ ایک وقت میں ایک کام ھو سکتا ھے ۔ یا گاڑی یا موبائل۔ دونوں ایک ساتھ کرنے کی صورت میں حادثہ ھونا ہی ھے ۔ اور اس میں جہاں پولیس کا فرض ھے کہ وہ چیک کرے وہاں پبلک اس ڈرائیور کو روک سکتی ھے اور اگر مناسب رویے کے باوجود وہ نہ رکے تو آپ اس کو پولیس سے رپورٹ کریں
12- میوزک ایک ایسی چیز ھے جو ڈرائیونگ کم اور ڈسکو فلور زیادہ بنا سکتا ھے ۔ اس لئے ڈرائیورز کو روکنا ضروری ھے
اب پاکستان میں حادثات کیوں ھو رہے ہیں اور ان سے کیسے نمٹا جا سکتا بے
1- گاڑیاں روڈ پر چلنے کے قابل نہیں ھوتی جس کو انگلش میں road worthy کہتے ہیں
2- گاڑیوں کو سالانہ ، چھ ماہ میں یا کسی طے شدہ مخصوص اوقات میں چیک کرنے کا کوئی نظام نہیں بنایا گیا
3-ڈرائیورز کی عمر کا خاص خیال رکھنا اور ٹرینگ ضروری ھے ۔ اور بہت کثیر تعداد کم عمر ڈرائیورز کی ھوتی ھے وہ نہ صرف اپنی جان لیتے ہیں بلکہ اوروں کی بھی جان لیتے ہیں ۔ یہ بہت افسوس ناک ھوا لیکن بس اس ٹاپک کو واضح کرنے کے لیے مثال دے رہا ھوں ۔کہ جس طرح قمر الزماں کائرہ کا جواں سال بیٹا اپنے دوستوں کے ساتھ موت کے منہ میں چلا گیا اور اسی طرح tik tok سٹار دانیال خان موت کے منہ میں چلا گیا ۔
4- اب اس میں کچھ حکومتی ذمہ داریاں ہیں جو گورنمنٹ کا فرض ھے کہ وہ کرے ۔ بہت سے روڈز ہیں جن پر اتنے حادثات ھوئے ہیں کہ ان کے نام خونی روڈ پڑ گئے ہیں ۔ خاص طور پر پنجاب کے وسیب پر تو موت کا آسیب اس طرح سے طاری ھے کہ کئی روڈز پر آئے روز سینکڑوں اموات ھو چکی ہیں ۔ روڈ پر بلاوجہ کے گڑھے خود پر رکھ دینا جرم ھے ۔ اسی طرح پولیس کا کام ھے کہ وہ ایمانداری اور شہریوں کے احترام کو ملحوظ رکھ کر ان کو اس بات کا عادی بنائے کہ وہ گاڑی کا فٹنس رکھیں اور اس کے لئے تمام گاڑیوں کا فٹنس سرٹیفیکیٹ ھونا ضروری ھو اور اگر کوئی عمل نہ کرے تو اس کو جرمانہ کرنا چاہیے کیونکہ جیسے کہا کہ اگر گاڑی ٹھیک نہ ھو تو اپنے لئے بھی خطرہ اور پبلک کے لئے بھی خطرہ۔ تمام اھم چوراہوں پر آٹومیٹک اشارہ سسٹم فعال ھونا چاہیے اور اگر اس کی خلاف ورزی کرے تو اس کے خلاف کریمنل چارج لگانا ضروری ھے جیسے کچھ دن پہلے بلوچستان سے ایک سیاستدان نے چوک پر کھڑے سپاہی کو اپنی بدمعاشی کے زعم میں ہٹ کیا اور قتل کر دیا ۔ اور پھر قصاص و دیت اور سفارشی کلچر کی وجہ سے وکٹری کا نشان بناتا جیل سے باہر آ گیا ۔ اس کلچر کو بدلنا ضروری ھے ۔ جو اس طرح طاقت کے نشے میں چور ھو اس کی قصاص و دیت کو نہیں ماننا چاہیے ۔ عدالتی نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ھے اور یہ بھی حکومت ہی کر سکتی ھے ۔ اسی طرح پولیس کو چاہیے کہ وہ رینڈملی( اکا دکا) بسوں ،گاڑیوں، اور کاروں کو روک کر ان کا نشے کا ٹسٹ کرنا چاہیے اور کسی کو نشے کے عالم میں ڈرائیونگ کی اجازت نہیں دی جانا چاہیے ۔ لائسنس رشوت کی بنیاد پر نہیں بلکہ خالصتا ڈرائیونگ جاننے کی بنیاد پر دیا جانا چاہیے ۔ مغربی ممالک میں ڈرائیونگ ایک سائینس ہے ۔ اس کا ٹسٹ سسٹم اتنا ٹرانسپیرنٹ ھے کہ میں 20 سال پاکستان گاڑی چلا کر اور اپنے بابا جان کی سخت ٹسٹ کو کئی سال گزار کر جب انگلینڈ آیا تو 4 دفعہ اور کئی ہزار پاونڈ کے کر بے کے بعد پاس کر پایا ۔ جبکہ میری بچیاں اور بیوی نے چونکہ یہیں سیکھا تو ان کو پاس کرنے میں بہت کم پرابلم آیا
آج جب کہ پوری دنیا نے جانوروں کے لئے تنظیمیں بنا رکھی ہیں ۔پاکستان کی گورنمنٹ اور سیاستدان جو بیرونی دنیا کو فلسطین اور کشمیر کے مسئلہ پر آواز اٹھا رہے ہیں تو یہ بات بہت ضروری ھے کہ اپنے شہریوں کی زندگی بھی انتہائی اھم ھے ۔ انسانوں کی اھمیت صرف اس وجہ سے تو نہیں ھوتی کہ ان پر کوئی اور ظلم کرے ۔ اگر کسی وجہ سے انسان قتل ھو رہے ہیں تو ان وجوہات کا ختم نہ کرنا بھی قتل عمد کے ضمن میں آتا ھے ۔ اور ٹریفک کے حادثات کا ھونا ایک تواتر بن گیا ھے ۔ ابھی یہ مضمون ختم نہیں ھوا تھا کہ سکردو سے آنے والی بس پہاڑ سے جا ٹکرائی اور بچوں اور شہریوں کے علاوہ دس فوجی بھی مارے گئے ۔ ستائس افراد کا ایک لمحے میں قتل ھو جانا بہت پہ صدمے کا باعث ھے ۔ ہیلمٹ کی مہم شروع ھوئی تو عوام نے اس کا جو حشر کیا اس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی ۔ ایک قانون بنایا جاتا ھے تو عوامی مفاد میں ھوتا ھے اور اس کو خوشی سے اپنانا اور عمل کرنا چاہیے اپنے تھوڑے سے مفاد کی خاطر مذاق بنا کر اپنے بچوں کے مستقبل کی طرف مت دھکیلیں ۔ اس کو حل کریں ۔ سکولوں میں پولیس اور ٹریفک پولیس کے سیمینار کروا کر ان کو آگاہی دیں ۔ یہ وہ چند گزارشات ھے جن پر عمل کرکے کچھ حادثات سے بچا جا سکتا ھے ان کے ساتھ اگر آپ بھی ایڈ کرنا چاہیں تو ضرور کریں