پشاور(مانیٹرنگ ڈیسک)آج سے ٹھیک 12سال قبل پاکستان کی تاریخ کا سب سے ہولناک زلزلہ آیا جو اپنے پیچھے ان مٹ نقوش چھوڑ کر چلا گیا،7.6درجے کے اس زلزلے نے پورے پاکستان کو ہلاکے رکھ دیا تھا۔
8۔ اکتوبر 2005کو صبح آٹھ بج کر 59 منٹ پر آنے والی قیامت صغری نے انسانیت کو جھٹکا دے کر دکھ اورغم کا ایسا طوفان برپا کیا جس کی کسک آج بھی محسوس کی جا رہی ہے۔ بالاکوٹ‘ باغ‘ راولاکوٹ‘ مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے متاثرین آج بھی غم زدہ ہیں۔ پرنم آنکھوں سے وہ آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں ،مولا کریم تو ہمارے ساتھ ہے مگر زمین پر اپنے نائبین کو بھی خیری اور خیرخواہی کی توفیق دے۔
قوم نے متاثرین زلزلہ کی دل جوئی اور اشک شوئی کے لئے جان نثاری کی وہ داستانیں رقم کیں جن پر دنیا عش عش کررہی ہے مگرحکومت پاکستان‘ حکومت آزادکشمیر اورحکومت خیبرپختونخوا ذمہ داری کا وہ مظاہرہ نہ کر سکیں جس کی توقع متاثرین کرتے رہے، حکومتیں بدلتی رہیں مگر متاثرین زلزلہ کے حالات میں تبدیلی نہ آئی۔
یہ درست ہے کہ پاکستان خطے میں ایسے مقام پر ہے جہاں ماضی میں بہت شدید زلزلے آتے رہے ہیں۔عالمی امدادی اداروں کے سروے کے مطابق 5 ارب 20 کروڑڈالر کے نقصانات ہوئے تھے زلزلہ سے 9 متاثرہ اضلاع میں 141 سڑکیں اور 92 پل تباہ ہو گئے تھے جن کی دوبارہ تعمیر کے لئے 29 ارب30 کروڑ روپے سے زائد کی رقم مختص کی گئی تھی‘ قیامت خیز زلزلہ میں چھ لاکھ گھر مکمل طور پر تباہ ہو گئے تھے متاثرہ علاقوں میں چھ ہزار تین سو تعلیمی ادارے‘ آٹھ سو مرکز صحت اور چھ ہزار چھوٹی بڑی سڑکوں کو زلزلہ سے نقصان پہنچا‘ سارے کام ہنگامی بنیادوں پر کام کئے گئے جب صورتحال ذرا سنبھلی تو پھر سب کچھ بھلا دیا گیا‘ اب دوبارہ اس بارے میں کوئی سوچنے کو تیار نہیں‘2005 کے بعد پاکستان کو سیلاب اور زلزلے جیسی آفات نے کئی مرتبہ اپنا ہدف بنایا‘ ہر سال آٹھ اکتوبر کے دن کو حکومتی سطح پر قدرتی آفات سے آگاہی کے قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے تاہم اگر گزرتے برسوں پر نظر دوڑائی جائے تو خود حکومتی اعداد و شمار کے مطابق زلزلے سے شدید متاثرہ علاقے بالاکوٹ اور مظفرآباد میں ترقیاتی کام ابھی باقی ہیں حکومت نے 8 اکتوبر 2005 کے زلزلے میں تہس نہس ہونے والے بالاکوٹ کے شہریوں سے 15 کلومیٹر کی دوری پر ایک نیا شہر بسانے کا وعدہ کیا تھا اس مقصد کے لئے جولائی 2007 میں 12 ارب روپے کی لاگت سے ”نیوبالاکوٹ“ نامی منصوبے کا آغاز کیا گیا اس منصوبے کے لئے حکومت سے ساڑھے گیارہ ہزار کنال زمین حاصل کی تھی تاہم ابھی تک یہ منصوبہ پوری طرح مکمل نہیں ہو سکا‘ آزادکشمیر میں بھی حالات مختلف نہیں‘ کشمیر میں 234 مختلف ترقیاتی منصوبے ترتیب دیئے گئے لیکن ان میں سے کچھ مکمل ہو سکے اب بھی کئی مقامات پر طلبہ کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں یہاں گرمیوں میں بہت زیادہ گرمی اور سردیوں میں بہت زیادہ سردی ہوتی ہے جس کی وجہ سے پڑھائی متاثر ہوتی ہے ۔
source…
http://dailypakistan.com.pk/national/08-Oct-2017/655416