سنا ہے بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے مگر یہاں تو کام الٹا ہے گزشتہ روز پاکستان کے سب سے بڑے اور مقدس ایوان کے اہم اجلاس کے دوران تہذیب اور پارلیمانی اخلاقیات کا جس طرح جنازہ نکالا گیا اس سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ بد ہضمی تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے
بجٹ جیسے سنجیدہ اور اہم اجلاس میں جس طرح ہمارے منتخب نمائندوں نے ہلژبازی اور گالم گلوچ سے پارلیمنٹ کا ماحول اور تقدس پامال کیااس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی پوری قوم نے دیکھا کہ کس طرح پارلیمانی روایات معاملہ فہمی اور راستی کو بھلا کر آپس کے جھگڑوں کو اس کی حدوں سے بڑھایا گیا ہمارے تبدیلی کے خواب اور ہماری خواہشات کو اقتدار کے سموں تلے روندا گیا ہماری چھوٹی چھوٹی خوشیاں بھی حب جاہ کی چکی میں باریک پیسی گئیں ہمارے ایوانوں میں فہم وفراست ترک اور دانائی پسپا ہو ئی ہماری خواہش تھی اور ہم نے تبدیلی سرکار کو ووٹ اس لیے دیے تھے کہ ہمارے منتخب نمائندے حاکمیت کے چوک پر کھڑے ہوں تو ان کے ہاتھوں میں انسان پرستی اور خرد دوستی کا نصاب اور آنکھوں میں عدل وانصاف کے خواب ہوں مگر ایسا نہیں ہوا اور معلوم نہیں کہ ایسا کیوں ؟ نہیں ہوا مگر واۓ ہو ان پر جنھوں نے قوم کو اور قوم کے نوجوانوں کو تبدیلی کے خواب دکھاۓ اور پھر ان کی خواہشات اور خوشیوں کو ببول کے کانٹوں پر سجایا اور خوابوں کو خزاں کے سپرد کیا میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ ہماری قوم کا مسئلہ اقتصادیات نہیں بلکہ اخلاقیات ہےجو قوم معاشرہ اور سماج بداخلاقی بد تہذیبی اور جہالت کے دردناک عذاب میں مبتلا ہو وہ زندگی کا کوئی صیحت مند خواب نہیں دیکھ سکتا اور نہ شاید اس کا حق رکھتا ہے ہم بار بار ملک کی تعمیر وترقی کی بات کرتے ہیں مگر سوچتے نہیں کہ تعمیر وترقی کی باتیں اس قوم کو زیب دیتی ہیں جو اخلاقی تہذیبی اور تعلیمی ترقی کے ایک خاص نقطے اور مقام پر پہنچ چکی ہوں
اس سے پہلے تعمیر وترقی کے خواب دیکھنا یا امکانات پر غور کرنا دماغی عیاشی کے سوا اور کچھ نہیں لیکن ہم بحیثیت قوم بد تہذیبی بد اخلاقی اور جہالت کے جس ماؤنٹ ایورسٹ پر براجمان ہیں وہاں سے تعمیر وترقی اور تبدیلی اور خوشحالی کے خواب اور منزل اتنی دور ہے اتنی دور ہے کہ اس کے بارے سوچنا بھی اپنے آپ کو ہمت شکنی اور زبوں ہمتی کے آزار میں مبتلا کرنے کے مترادف ہے بحیثیت قوم ہم اپنی اس پسماندگی اور در ماندگی کے سلسلے میں قابل ملامت بھی ہیں اور قابل رحم بھی کیونکہ ہماری موجودہ زندگی کے پس منظر میں صرف غلامی کی ایک صدی نہیں بلکہ سماجی اخلاقی معاشی اور تعلیمی انحطاط کی بھی کئی صدیاں شامل ہیں اور ہمیں ماضی کے اس زبردست نقصان کی تلافی کیلۓ جو مہلت ملی ہے وہ یقیناً بہت مختصر ہے اور اسی مختصر مہلت میں ہم نے صدیوں اور نسلوں کے قرض چکانا ہیں مگر اس معقول عذر اور جواز کے باوجود ہم اپنی غیر ذمے داریوں کا کوئی جواز پیش نہیں کرسکتے یہ عذر اور جواز اس صورت قابل قبول تھا جب ہم نے اپنے فرائض کو پوری طرح ادا کیا ہوتا
اصلاح حال کیلۓ ہر وہ کوشش کی ہوتی جو ممکن تھی لیکن ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہوا اور ہم اپنے ماضی کی غلطیاں متواتر دہراتے آرہے ہیں اتنا ہی نہیں بلکہ قوم کے بعض طبقات نے اس نازک دور میں وہ طرز عمل اختیار کیا اور اختیار کیے ہوۓ ہیں جس کو برداشت کر لینا یا سہہ لینا ایک نو آزاد ، پریشان حال اور پسماندہ و در ماندہ قوم کیلۓ کسی طرح بھی ممکن نہیں اس موقع پر کس کس کا مواخذہ کیا جاۓ کس کس کا نام لیا جاۓ یہ سیاہ نامہ ہے .بہت طویل الزیل ہے مگر کچھ خاص طبقات کا ذکر کیے بغیر چارہ بھی نہیں
میرا اشارہ قوم کے مقتدر طبقے اور ان کے پیچھے بیٹھے ڈوریاں ہلانے والوں اور سول بیوروکریسی تھیوکریسی اور چند دولت مند خاندانوں کی طرف ہے ہمارے اس رعایت یافتہ مراعات یافتہ اور برگزیدہ طبقے نے جس مجنونانہ اور مجرمانہ ذہنیت اور اخلاقی انحطاط کا مظاہرہ کیا ہےاس کی مثال ترقی پزیر یا ترقی یافتہ اقوام میں کہیں نہیں ملتی آپ نے دیکھا کس طرح گزشتہ دنوں پےدرپے اخلاقی انحطاط کے واقعات وقوع پذیر ہوۓ ہیں پہلے فردوس عاشق اعوان پھر مجید نیازی اور اس کے بعد بجٹ جیسے اہم اور سنجیدہ اجلاس میں ہنگامہ آرائی اور گالم گلوچ کی سیاست کو فروغ دیا گیا اور دیا جا رہا ہےایسی صورت حال میں کوئی ملک، قوم اور کوئی سماج اعلی تصور حیات یا معاشرتی نصب العین یامعاشی ترقی کی منازل کیسے طے کرسکتے ہیں مگر افسوس صد افسوس کہ اس بات کا احساس ہمارے مقتدر طبقے اور پارلیمنٹرین کو نہیں ہو رہا
انہیں اتنا بھی احساس نہیں ہو رہا کہ سیاست جیسے مقدس عمل کو ایک طاقتور طبقہ اپنے مذموم مقاصد کی خاطر جان بوجھ کر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پراگندہ کر رہا ہے وہ نا دیدہ قوتیں چاہتی ہیں کہ سیاست اور سیاستدانوں کو اتنا گندہ کر دیا جاۓ اور لوگوں کے دل و دماغ میں ان کے خلاف اتنا زہر گھول دیا جاۓ کہ لوگ سیاست کو فحش گالی سمجھیں اور ان کی خواہشات کو پائیہ تکمیل اور بام عروج تک پہنچانے کیلۓ ہمارے بیشتر سیاستدان اپنے اپنے کندھے پیش کرتے آۓ ہیں او ر کر رہے ہیں لیکن اب اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ ملک وقوم ترقی کی منازل طے کرے تو ہمیں اور ہمارے سیاستدانوں کو آپس کے تمام تر اختلافات پس پشت ڈال کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا ہوگا اور اخلاقی انحطاط افلاس اور جہالت جیسے رزائل کے خلاف ایک ہمہ گیر اور طاقتور مہم شروع کرنی ہوگی کیونکہ ہم اس وقت اخلاقی و معاشی پستی سماجی زبوں حالی اور تعلیمی پسماندگی کی جس منزل میں ہیں وہاں اعلی تصور حیات اور کوئی بلند نصب العین ہمارے درد کادرماں نہیں بن سکتا
ہمارا بنیادی مسئلہ جس پر ہمیں اور ہمارے ارباب اقتدار کو سوچنا اور عمل کرنا ہے وہ یہ ہے کہ اب آپس کی لڑائیوں گالم گلوچ اور ذاتی مفاد کی سیاست کو خیرباد کہہ دینا چاہیے کیونکہ اب قوم اس کی متحمل ہے اور نہ ہی یہ قومی مفاد میں بہتر ہے عام اور متوسط آدمی کو بھی اس سے کوئی غرض نہیں ملک کے عام آدمی اور غریب عوام شاندار محل بنگلے قیمتی کوٹھیوں اور لگزری گاڑیوں کی تمنا بھی نہیں رکھتے بلکہ انھیں تو صرف اور صرف سکولوں ، کالجوں ، یونیورسٹیوں ، ریسرچ سنٹروں تربیت گاہوں شفاخانوں ، لہلہاتے کھیتوں اور کارخانوں کی ضروت ہے اب ہمیں اور ہمارے ارباب بست کشاد کو اس انداز میں متفق ہو کر سوچنا ہے سوچنا نہیں بلکہ عمل کرنا ہےکہ ان مسائل کے سامنے باقی تمام تر مسائل ٹانوی حیثیت رکھتے ہیں