میں صبح ماڈل ٹاون پارک سے تازی ہوا کھا کر واپس فلیٹ پر پہنچا آفس کی تیاری کے ساتھ ساتھ میں صبح خبریں لگا لیتا ہوں ہمارا میڈیا پہلی دفعہ اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہت اچھی رپورٹنگ کر رہا ہے جس میں ابھی تک جنگ کی بو نہیں آ رہی میں نے کہا چلو انڈینن نیوز چینل لگا کر بھی ان کا موقف دیکھا جائے پھر کیا تھا مجھے لگا کہ ان کی میڈیا تک پاگل ہوا پھر رہا ہے سب چیز کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالے ڈالے جار ہاہے ۔ پلوامہ حملہ ہوا کشمیر میں جس کی ذمہ داری قبول کی جیش محمد ﷺ نے قصور وار ٹھہرایا جا رہا ہے پاکستان کو ۔ہمارے وزیر اعظم عمران خان صاحب کی بات بڑی وزن والی ہے کہ پلوامہ میں ہونے والے اس دھماکہ سے پاکستان کو کیا فائدہ ہونا تھا جب کہ پاکستان میں اس وقت سعودی عرب سے پورا وفد پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے آیا ہوا تھا۔سب سے پہلے کسی واقع سے سب سے زیادہ جس کو فائدہ ہوتا ہے اس پر شک کیا جانا بنتا ہے تو اس حوالے سے سب سے زیادہ فائدہ مودی حکومت اُٹھانا چاہتی ہے وہ جنگ کا ماحول بنا کر زیادہ سے زیادہ پاکستان مخالفت میں ووٹ لینا چاہتی ہے ۔ بی جے پی اس وقت بہت سی سٹیٹ میں الیکشن ہار چکی ہے اور وہ اپنا آخری پتہ کھیلنا چاہتی ہے وہ بھی صرف کُرسی کی لالچ میں ۔اگر کشمیر اور کشمیر میں لڑنے والے مجاہدین کی بات کی جائے تو ایک سادہ سی مثال سے بات سب کی سمجھ میں آ سکتی ہے کہ آپ کے گھر میں کوئی گھس آئے زبردستی اور آپ سے لڑنے کی کوشش کرے تو ظاہر ہے دہشت گرد وہ ہے جو آپ کے گھر میں گھس کر آپ پر ظلم کر رہا ہے ۔ کشمیر ی مجاہدین 1947سے آج تک وہ آزادی کشمیر کی جنگ لڑ رہے ہیں وہ حق پر ہے یو این کے مطابق ان کا فیصلہ کروا دیا جائے تو یہ مسئلہ ہی حل ہو جائے ۔ انڈیا کشمیر کے لوگوں پر جو ظلم کررہاہے اس کی مثال نہیں ملتی نوجوان لڑکیوں سے انڈیا کی فوجیوں کا ان کی فیملی کے سامنے ریپ سے لے کر پیلٹ گن سے لوگوں کو اندھا بنانے اور قتل عام کرنے تک کے واقعات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں ۔ کشمیر کی آبادی سے 10گنا زیادہ فوج کشمیر میں اُتاری گئی ہے لیکن آزادی کی جنگ جاری و ساری ہے۔ آج کشمیری نوجوان اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ جہاں اس کو موت چھوٹی چیز معلوم ہوتی ہے ۔ مودی سرکار اپنے کیے ظلم کو نہیں دیکھتی وہ صرف پاکستان حکومت حکومت پر الزام تراشی کرنے پر لگی ہوئی ہے لیکن وہ بھول جاتی ہے کہ کلبھوشن ہو یا مکتی باہنی یا اب بلوچستان میں کچھ نوجوانوں کو اکسانے تک سارا کردار بھارت ادا کر رہا ہے ۔ اس سب کے باوجود ہے ہم نے دہشت گردی کو ختم کرنے میں اب تک 70ہزار نوجوان شہید کروائے ہیں ۔ اب پاکستان نئے دور میں داخل ہو چکا ہے پاکستان نے دہشت گردی پر قابو پایا ہے لیکن مودی سرکار ذہنی مریضوں کی طرح اپنی کرُسی کی خاطر سب کو ایک اندھے کنوئیں میں دھکیلنا چاہتی ہے۔ آپ کے میڈیا نے ہمیشہ وہ زہر اپنے لوگوں کے کانوں میں گھولا ہے جس سے اتنی نفرت بھر چکی ہے کہ وہ کم ہونے کا نام نہیں لیتا میں نے ایک فیس بک پول کروایا جس کا نتیجہ 86%لوگ جنگ نہیں چاہتے وہ چاہتے ہیں امن کو ایک موقع دیا جائے اور اُمید ہے اتنے ہی لوگ سرحد کے اس پار بھی امن سے محبت کرنے والے ہیں ۔جب 16دسمبر کو سانحہ اے پی ایس ہوا جس میں 114بچے شہید ہو گئے تو سرحد کے اس پار بیٹھی ماں بھی ویسے ہی روئی ہو گی جیسے اس پار بیٹھی ماں روئی ہے اس کی ذمہ داری قبول کرنے والوں کے پیچھے کون تھا یہ بھی سب کو پتہ ہے لیکن ہم نے کوئی جنگ نہیں کی ہم امن پسند لوگ ہیں ۔سرائیکی کی ایک مثال ہے اپنڑی گھوڑی چھاں تے بدھو (مطلب تھوڑا حوصلہ کریں ) جنگ کا لفظ سوچ کر بھی تو دیکھیں یا ایسے کریں کہ یوٹیوب پر پڑی مختلف جنگوں کی ویڈیوں ایک دفعہ دیکھ لیں انڈیا اور پاکستان کے وہ لوگ خصوصا دیکھیں جو جنگ چاہتے ہیں محسوس کر کے دیکھیں کہ آپ کے اپنوں کے بکھرے ٹکڑے خون سے بھری نعشیں ۔ہر طرف خون اور بارود کی بدبو ، آہو بکاہ اندھیرے ہی اندھیرے اور آخر میں دونوں ملکوں میں نعشیں اُٹھانے کے لیے بھی کوئی نہیں ملے گا۔ میں نے پاکستان میں موجود امن پسندوں سے بات کی تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو آج بھی چاہتے ہیں کہ دونوں ملک امن سے بات کریں اور وہ وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب کی بات سے متفق ہیں کہ دو ایٹمی قوت رکھنے والے ملک جنگ کا سوچیں تو وہ خودکشی سے کم نہیں ہے ۔ اگر جنگ کرنی ہے تو آؤ انڈین حکومت جنگ کرتے ہیں غربت کو ختم کرنے کے لیے۔ بے روزگاری کے خاتمے کے لیے پھر ہم ایک دوسرے کو شان سے بتائیں گے کہ دیکھا میں جیت گیا میں نے اتنی غربت ختم کر دی ہے۔دیکھا میں نے اتنے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار دے دیاہے۔ آو جنگ کرتے ہیں بھوک مٹانے کے لیے ہمارے دونوں ملکوں میں ہزاروں لاکھوں کو کھانا ہی میسر نہیں آتا جنگ کرتے ہیں ان کو کھانا کھلانے کے لیے۔ آو جنگ کرتے ہیں تعلیم عام کرنے کے لیے۔ آو جنگ کرتے ہیں لوگوں کو صحت کی سہولیات دینے کے لیے جن ملکوں میں ان کے لوگوں کو صحت کی صیح سہولیات میسر نہ ہوں وہ دونوں ممالگ ایٹمی جنگوں کی بات کرتے اچھے نہیں لگتے۔ آؤ جنگ کرتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت اپنے ایک ایک باسی تک صاف پینے کا پانی پہنچائے گا۔ آو جنگ کرتے ہیں اپنے اپنے ملک کو صاف ستھرا بنانے کے لیے، آو نہ جنگ کرتے ہیں کرکٹ، فٹ بال ہاکی کے میدانوں میں دیکھتے ہیں زور کتنا بازوقاتل میں ہے۔کون ہراتا ہے جو ہارے گا اس کے لیے لکھ دیا جائے گا کہ وہ فلاں مارکہ جیت گیا تھا آو نہ جنگ کرتے ہیں نئے انڈسٹریز لگانے میں نئے راستے بنانے میں آو نہ جنگ کرتے اپنی اقلیتوں کو حقوق دینے کے لیے۔ آو نہ جنگ کرتے ہیں اپنے ماحول کو بچانے کے لیے آو نہ جنگ کرتے ہیں اپنے اپنے ملکوں میں امن لانے کے لیے۔ اب 2019 میں دو ہمسائیوں کو جنگ کے طریقہ کار بھی بدلنے ہوں گے۔ جن ممالک میں لوگوں بھوک سے چوہے تک کھانے پر مجبور ہوں ان ملکوں کو ایٹم بم اور میزائیلوں کی باتیں سوٹ نہیں کرتیں۔ ہاں اگر پھر بھی بات نہیں بن رہی تو دونوں بارڈرز پر ایک میدان بنوا لیتے ہیں جس میں دونوں طرف سے شدت پسندوں کو چھوڑ دیا جائے گا اور دروازے بند کر دیے جایں گے پھر وہ خود ہی ایک دوسرے سے لڑتے پھریں گے۔ دونوں ایٹمی ملک ایٹم بم چلانے کی بات ایسے کرتے ہیں جیسے کہ شادی پر چلانے والے پٹاخوں کی باتیں بچے کرتے ہیں۔ اب بس کرو بھائی یہ ڈرامے دونوں ملکوں کی عوام کبھی نہیں چاہتی کہ ہم ایک دوسرے سے لڑتے پھریں لیکن اس امن کی خواہش کا مطلب یہ بھی نہیں ہے دونوں ممالک میں سے کوئی ایک دوسرے سے ڈرتا ہے۔ امن پسند دونوں ملکوں میں ہیں اب تک وہ چپ رہتے ہیں اور تھوڑے سے شدت پسند جزبات بھڑکانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اب کی بار امن پسندوں کو آگے آنا ہوگا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک امن کی بات کرے اور دوسرا جنگ کی دھمکیاں دے۔ اب اس سب کو بند ہونا ہوگا