کسی نے بڑا غضب کیا۔ سنہ سینتالیس کی خوں ریزیوں کے زخم ہرے کر دئیے۔ وہ کس قیامت کی گھڑی تھی جب انسان درندہ بن گیا۔ جب اس نے مظلوم اور آفت زدہ تارکین وطن کو صرف قتل ہی نہیں کیا بلکہ ان پر ظلم و ستم کے ایسے ایسے پہاڑ توڑے کہ حافظہ اپنے آپ پر روتا ہے۔ اس قیامت کی گھڑی کا ذکر وہ لوگ چھیڑتے تو کوئی بات بھی تھی جن پر یہ قہر نازل ہوا مگر یہ ذکر ان پر زیب نہیں دیتا جو اُس وقت اس دنیا میں وارد بھی نہیں ہوئے تھے مگر جو آج ان عذاب کے لمحوں کو عجیب و غریب معنی پہنانے چلے ہیں۔
میرا لڑکپن تھا اور میں ان جلوسوں میں شامل ہوتا تھا جن میں ’لے کے رہیں گے پاکستان‘ اور ’بن کے رہے گا پاکستان‘ کے نعرے لگا کرتے تھے۔ مجھے خوب یاد ہے کہ اُس وقت عام طور پر کہا جاتا تھا کہ تمہارے علاقے میں پاکستان نہیں بنے گا، تمہارا پاکستان یہاں سے دور قائم ہوگا۔ ہم سنتے تھے اور کبھی یوں سوچتے بھی نہیں تھے کہ ہم نعرے یہاں لگا رہے ہیں اور پاکستان کہیں اور بنے گا۔ کسے پتا تھا کہ پاکستان جہاں بنے گا، لوگوں کو اٹھ کر وہیں جانا پڑے گا، کون جانتا تھا کہ جب قافلے اٹھ کر پاکستان کی طرف چلیں گے تو کوئی راستے میں گھات لگائے بیٹھا ہوگا، پھر نہ کسی کی جان سلامت ہوگی، نہ مال، نہ عزت اور نہ آبرو۔ تفصیل میں نہیں جاؤں گا کہ وہ دکھ اب ذرا محو ہوئے ہیں، انہیں تھپکی ہی دی جائے تو اچھا ہوا۔ مگر غضب ہوا کہ کچھ عاقبت نااندیشوں نے اُسی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا اور کلیجہ ایک بار پھر چھلنی ہوا۔
جس وقت یہ تباہی مچی ہوئی تھی، مجھے ایک محفوظ مقام پر بھیج دیا گیا تھا جہاں میں اس بربریت کے مشاہدے سے محفوظ رہا۔ وہ منظر اوجھل ہوئے مگر وہ مقام اور وہ ٹھکانے تو موجود ہیں جن کے در و دیوار آج بھی ان لمحوں کی گواہی دے رہے ہیں۔ یہ سنہ پچاسی کی بات ہے، مجھے اپنے ایک ریڈیو پروگرام کی تیاری کے لئے انبالہ جانے کا اتفاق ہوا۔ میرے میزبانوں نے کہا کہ انبالہ آئے ہیں تو کوشش کرکے سائیں توکّل شاہ کی مسجد ضرور دیکھئے گا۔ انہوں نے اس اصرار کا کوئی سبب نہیں بتایا۔ مجھے یقین تھا کہ مسجد شاندار ہوگی۔ گیا تو واقعی دیکھنے کی جا تھی۔ چار جانب حجرے ہی حجرے، محرابیں ہی محرابیں، کتنے ہی در، کتنے ہی دریچے۔ بڑے سے صحن کے درمیان بابا سائیں کی درگاہ اور مغرب کی سمت مسجد اور مسجد بھی وہ جس نے ایسے ایسے منظر دیکھے ہوں گے کہ دیکھنے والے کی چھاتی پھٹ جائے۔ ہماری ملاقات قاری محمد اسحاق صاحب سے ہوئی جو سنہ باسٹھ میں یہاں خطیب اور امام ہوکر آئے تھے۔ وہ اس مسجد کا قصہ سنا رہے تھے۔ کہنے لگے کہ یہ بڑی تاریخی حیثیت کی مسجد ہے۔ آپ کو پورے ہریانہ اور پنجاب میں ایسی ایک بھی مسجد نہیں ملے گی۔ اس کی تاریخی حیثیت یہ ہے کہ تقسیمِ ہند کے بعد جب پنجاب اور ہریانہ کی ہزاروں مسجدیں ویران ہو گئیں اور اُن کو لوگوں نے رہائش گاہ بنا دیا یا ان کا استعمال بدل دیا، یہ واحد مسجد ہے کہ آزادی کے بعد ایک دن بھی اس کا غلط استعمال نہیں ہوا۔ اب اس کا قصہ بھی سنئے۔ جب یہاں مسلمان باقی نہ رہے تو قدرتِ خداوندی سے ایسا ہوا کہ اس جگہ کو حکومت کی طرف سے اُن لڑکیوں کا کیمپ بنا دیا گیا جنہیں فسادات کے دوران لوگ اٹھا کر لے گئے تھے، جو اغوا کی گئی تھیں۔ وہ تباہ حال لڑکیاں اس کیمپ میں رکھی جاتی تھیں۔ آپ تصور کیجئے کہ اُس وقت اس مسجد میں ایک ایک وقت میں پانچ پانچ سو لڑکیاں رہی ہیں۔ قاری صاحب بتا رہے تھے کہ مجھے ایسی لڑکیوں سے ملنے کا اتفاق ہوا جو اُس زمانے میں کیمپ کی انچارج بن کر یہاں رہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ جب علاقے کی کسی اور مسجد میں نہ اذان ہوتی تھی اور نہ نماز، اس سنّاٹے کے عالم میں اس مسجد میں کئی کئی سو لڑکیاں قرآن پاک پڑھتی تھیں اور پوری فضا میں ان کی سوز میں ڈوبی صدائیں گونجا کرتی تھیں۔ قاری صاحب یہ کہہ کر چپ ہوگئے تب یہ ہوا کہ کہیں سے ایک آنسو آنکھوں میں تیرا جسے میں نے اپنی ہتھیلی میں جذب کر لیا۔
ایسے میں جو دکھوں کے مارے لوگ خاک وخون کے دھول اڑاتے رستوں پر مرتے کھپتے، پا پیادہ چل کر پاکستان پہنچے کیا وہ دھتکارے ہوئے لوگ تھے؟ کیا وہ گھر سے بے گھر کئے جانے والے لوگ تھے؟ کیا وہ جو اپنے سجے دھجے ٹھکانوں کو جوں کا توں چھوڑ کر نئے وطن کی سمت چل کھڑے ہوئے کیا وہ ناکارہ اور نامراد لوگ تھے؟ کیا وہ آسرے کی تلاش میں سرحد پار کر رہے تھے، کیا وہ قابل اور اہل نہ تھے، کیا وہ اپنے ساتھ سلیقہ اور قرینہ لے کر نہیں آئے تھے، کیا وہ اپنے ساتھ تہذیب او ر تمدن کی وہ اعلیٰ قدریں لے کر نہیں آئے تھے جو بازاروں میں نہیں بکتیں، جو صرف بزرگوں سے ورثہ میں ملتی ہیں۔ کہنے کو وہ لٹے پٹے تھے مگر ان کی دولت سے ان کے سینے چمکتے تھے اور ان کی ذہانت سے ان کی پیشانیاں روشن تھیں، کسی نے سچ کہا، وہ خالی ہاتھ نہیں آئے، وہ اپنا پاکستان اپنے ساتھ لے کر آئے تھے۔ کسی اور کا نہیں، اپنا۔
بشکریہ ۔ جنگ