وزیراعلی پنجاب شہبازشریف کا حالیہ دورہ لیہ یوں جگ ہنسائی کا سبب بنا کہ نوازلیگی رکن قومی اسمبلی سید ثقلین بخاری سمیت رکن پنجاب اسمبلی قیصر مگسی اور چوہدری اشفاق غائب تھے۔یوں لیگی لیڈر کیلئے پیچھے وہی تھے جن کے ہاتھ پاؤں سمیت سر کڑاہی میں ہے مطلب سب گول ہے ۔ نوازلیگی صدر کا لیہ جیسے ضلع میں پھس پھس استقبال سمجھداروں کے خیال میں اور بھی مشکل صورتحال کی نشاہدہی کررہاہے ؟ ایک طرف نواز لیگی قیادت کو بڑے پیمانے پر جنوبی پنجاب صوبہ محاذ میں جاتے اپنے ارکان اسمبلی نے پریشان کررکھاہے تو دوسری طرف شہبازشریف کی لیہ آمد پر اس انداز میں لیگی ارکان اسمبلی کا رویہ جلتی پر تیل کا کام کررہاہے۔ اب اطلاعات ہیں کہ لیگی رکن قومی اسمبلی ثقلین بخاری کو ڈھونڈلیا گیاہے اور شہبازشریف نے ان کا دیدار بھی کرلیاہے لیکن اس بات کی وضاحت نہیں ہوئی ہے کہ آخر بخاری کو شہبازشریف کی آمد پر غائب ہونے جیسے مشکل فیصلہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی تھی ؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ سارے "معاملات” بمعہ کمیشن لاہور میں طے ہونے کی وجہ سے لیہ کے ارکان اسمبلی کی اکثریت شہبازشریف سے اس حدتک منحرف ہوگئے ہیں کہ لیہ آمد پر ان کا استقبال تو درکنا ربات کرنے سے بھی کنی کتر اگئے ہیں ۔ آجکل لیہ کے ضلعی ہسپتال کے نام پر بڑی رقم گول کرنے کی کہانیاں چل رہی ہیں ۔ویسے تو لیہ کے ضلع بننے کے بعد سے آج تک ضلعی ہسپتال لیہ تحصیل ہیڈ کوارٹر کی عمارت میں کام کررہاہے ، ضلعی ہسپتال کیلئے رکھی گئی زمین اور اس کیلئے دیگر سہولتیں کہاں پر ہیں ؟ اس بار ے میں گدی نشین اور جاگیر دار ارکان اسمبلی عرصہ چالیس سے خاموش چلے آرہے ہیں ۔اب صورتحال یہ ہے کہ تحصیل ہیڈکوارٹر میں قائم ضلعی ہسپتال پر 37کروڑ روپے خرچ کرنے کا ڈرامہ ہورہاہے ،دال میں کچھ کالا ہی نہیں بلکہ دیگ ہی کالی ہوچکی ہے ؟ جس سمجھدار سے رابط کیا وہی کمال کاروائی سے تعبیر کرتاہے ۔ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ لیہ ضلعی ہسپتال کو اسی جگہ پر بنایاجاتاجہاں پر ضلع بناتے وقت اس کیلئے زمین رکھی گئی تھی لیکن ایسا نہ ہونا تھا اور نہ ہواہے ۔ ادھر پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کو بھی لیہ کی یاد آہی گئی ہے ،بلاول بھٹو زرداری 10 مئی کو لیہ آرہے ہیں ۔پیپلزپارٹی اور لیہ بھٹو صاحب اور بے نظیر بھٹو تک تو ایکدوسرے کیساتھ چلتے رہے لیکن بعد کی صورتحال یکسر مختلف ہے ۔یوں 2008 اور 2013 کے انتخابات میں تو پارٹی امیدواروں کو بری طرح شکت کا سامنا کرناپڑاہے ۔ 1970کے الیکشن میں جب لیہ مظفرگڑھ کی تحصیل تھا تو مظفرگڑھ (1) این ڈبلیو(90) پر پیپلزپارٹی کے امیدوار مہر منظور حسین سمر انے (ایم جے یوپی)امیدوار پیر باروکو شکت دی تھی جوکہ پیپلزپارٹی کیلئے پنجاب میں بڑی جیت تھی ۔اسی طرح 1977کے الیکشن میں مظفرگڑھ (4) حلقہ این اے 130 پر پیپلزپارٹی کے امیدوار ملک قادر بخش جھکڑ نے پی این اے کے امیدوار ایم بشیر کو شکت دی تھی جبکہ مظفرگڑھ) (5 حلقہ این اے 131 پر بہرام خان سہیڑنے پی این اے کے امیدوار رحمت علی علوی کو ہرا کر کامیابی اپنے نام کی تھی ۔1985کے انتخابات غیر جماعتی تھے اور پیپلزپارٹی نے حصہ نہیں لیاتھالیکن جکھڑ او رسہیڑ فیملی نے الیکشن میں حصہ لیاتھاجوکہ پیپلزپارٹی کے الیکشن لینے کی صورت میں امیدوار ہونے تھے ۔85 کے الیکشن کے وقت لیہ ضلع بن گیاتھا ۔یوں لیہ (1) این اے 139 پر فرید میرانی نے نیاز جھکڑ کو شکت دی جبکہ دوسری طرف جہانگیر خان سہیڑ جیت گئے تھے،یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کو ضیائی الیکشن میں بھی لیہ میں ایک نشت پر عوام کی بھرپور حمایت ملی،دوسرا امیدوار تھوڑے مارجن سے ہارتھا ۔1988کے الیکشن میں لیہ (1) حلقہ این اے 139 سے پیپلزپارٹی کے امیدوارنیاز جھکڑ خورشید شاہ سے جیت گئے تھے جبکہ لیہ 2) ( این اے 140 پر پیپلزپارٹی کے امیدوار بہرام خان سہیڑ، فیض الحسن سے ہارگئے تھے۔1990 کے الیکشن میں حلقہ این اے 139 لیہ (1) آئی جی آئی کے امیدوار سید خورشید احمد شاہ نے معرکہ مارلیاجبکہ پی ڈی اے کے امیدوار نیاز جھکڑ ہارگئے تھے۔اسی طرح این اے 140 لیہ (2) سے آئی جی آئی کے امیدوار فیض الحسن جیت گئے جبکہ پی ڈاے کے امیدوار جہانگیر خان سہیڑ ہارگئے تھے۔یوں یہ پہلی بار ہورہاتھاکہ لیہ کی دونوں سیٹوں پر پیپلزپارٹی ہارگئی تھی ۔1993 کے الیکشن میں پیپلزپارٹی کے امیدوار نیازجھکڑ نے نواز لیگی امیدوار حید رتھند کولیہ(1) این اے 139سے شکت دی تھی ۔ادھر لیہ (2)این اے 140کی نشت پرپیپلزپارٹی کے امیدوار جہانگیر خان سہیڑ نے نواز لیگی امیدوار فیض الحسن کو شکت دی تھی ۔یوں پیپلزپارٹی نے 90 کے الیکشن کا حساب برابر کردیا۔1997کے الیکشن میں لیہ (1)این اے 139 کی سیٹ پر پیپلزپارٹی کے امیدوار نیاز جھکڑ کو لیگی امیدوار غلام حیدر رتھند کے ہاتھوں شکت ہوئی جبکہ لیہ (2)این اے 140 پر لیگی امیدوار فیض الحسن کے مقابلے میں پیپلزپارٹی کے امیدوار جہانگیر خان ہارگئے تھے۔2002 کے الیکشن سے قبل پیپلزپارٹی کا ساتھ سہیڑ فیملی نے ق لیگ جوائن کرکے چھوڑدیاجبکہ نیاز جھکڑ نے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر لیہ (1)این اے 139پر الیکشن میں حصہ لیا اور جیت گئے۔ادھرلیہ 2) (حلقہ این اے 140سے سردار بہادر خان سہیڑ جوکہ پی ایم ایل (ق) کے ٹکٹ پرامیدوار تھے انہوں نے سیٹ اپنے نام کرلی جبکہ نواز لیگی امیدوار فیض الحسن دوسرے نمبر پر تھے جبکہ اس حلقہ میں پیپلزپارٹی کے سید موسی نقوی تیسرے نمبر تھے۔لیکن پیپلزپارٹی کو لیہ کی سیاست میں اسوقت تنہائی کا شکار ہونا پڑا جب انکی ٹکٹ پر کامیاب ہونیوالے نیاز جھکڑ پیپلزپارٹی کو چھوڑ کر پیپلزپارٹی پیڑیاٹ میں چلے گئے ،یوں اس دن سے لیکر آج تک دوالیکشن کی مدت دس سال پوری ہونے کو ہے لیکن پیپلزپارٹی لیہ میں اپنے امیدوار کامیاب کروانے میں ناکام رہی ہے ۔اس مشکل وقت میں پیپلزپارٹی کی حکمت عملی 2008 کے الیکشن میں اس حدتک کامیاب رہی کہ لیہ (1) این اے 139 پر نیاز جھکڑ کے مقابلے میں ڈاکٹر فقیر حسین شاہ کو ٹکٹ دے کر پیپلزپارٹی کا ووٹ بنک کو جھکڑ کی طرف جانے سے روک لیا ،یوں نیاز جھکڑ ،نواز لیگی امیدوار ثقلین بخاری سے الیکشن ہارگئے اور پیپلزپارٹی نے جھکڑ کو پارٹی کو برے وقت میں چھوڑنے کا حساب برابر کردیا۔ادھرلیہ 2) (این اے 140پر پیپلزپارٹی کی یہ پالیسی مسلم لیگ (ق) امیدوار بہادر خان سہیڑ امیدوار کھڑا کرنے کے باوجود میاب نہیں رہی ۔لیکن دلچسپ صورتحال اسوقت پیدا ہوئی جب پیپلزپارٹی کی قیادت نے پیپلزپارٹی پیڑیاٹ ،اورق لیگی قیادت میں جاکر پارٹی کو مشکل سے دوچار کرنیوالے نیاز جھکڑ اور سردار بہادر خان سہیڑ کو 2013 کے الیکشن میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ سے نوازا دیا تو نتیجہ قابل غور تھاکہ پیپلزپارٹی کے دونوں امیدوار جھکڑ اور سہیڑ ہارگئے ۔یوں لگتاہے کہ لیڈرشپ نے تو انہیں اپنے وسیع تر مفاد میں قبول کرلیاتھا لیکن عوام نے ان کی آنی جانیوں کو پسند نہیں کیاتھا۔پھر یوں ہواکہ سردار بہادر خان اور نیاز جھکڑ پیپلزپارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو پیارے ہوچکے ہیں اور ایک بارپھر پیپلزپارٹی 2018 کے الیکشن میں ان کیخلاف اپنے امیدوار کھڑے کرے گی ۔اب بلاول بھٹو زرداری لیہ میںآرہے ہیں یقیناًبحیثت پارٹی چیرمین وہ بہتر فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہونگے لیکن ہمارے خیال میں بلاول بھٹو کو پارٹی کے حقیقی ورکروں کو قریب کرنا ہوگا اور ان حضرات کے کندھے پر ہاتھ نہیں رکھنا ہوگا جن سے ملتانی خلیفہ پارٹی بمطابق لیہ کی پیپلزپارٹی قیادت ہندا سٹی سے کم کی فرمائش ہی نہیں کرتی ہے ۔رہا سوال کہ لیہ کیساتھ پیپلزپار ٹی اقتدار میں کیاکرتی رہی ہے ؟ اس بارے میں بلاول بھٹو سید یوسف رضاگیلانی جوکہ ساڑھے چار سال وزیراعظم ہاوس میں رہے ہیں ،ان سے انکی زبانی لیہ میں خطاب کے دوران سن لیں تو ان کو تسلی ہوجائیگی ۔ہماری تو پہلے ہوچکی ہے کہ سب مایا ہے ۔