لاہور. پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز کی گرفتاری کے لئے نیب کے اختیارات کے حوالے سے آئینی و قانونی ماہرین نے مختلف ردعمل کا اظہار کیاہے ،سابق سیکرٹری سپریم کورٹ بار اسد منظور بٹ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود نیب حمزہ شہباز کو گرفتاری سے 10 دن قبل بتانے کا پابند تھا، جب کسی فریق کے حق میں مخصوص حکم موجود ہو تو سپریم کورٹ کے روٹین کے فیصلے اس پر قابل اطلاق نہیں ہوتے۔
سپریم کورٹ کے عدالتی نظیر قرار نہ دیئے گئے فیصلے کی وجہ سے لاہور ہائیکورٹ کا حمزہ شہباز کے حق میں فیصلہ تاحال قابل اطلاق ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے میں بھی لکھا ہے کہ نیب قانون کے مطابق اپنا اختیار استعمال کرے گا،اس نکتے پر نیب آرڈینس کی دفعہ 24 ڈی کے تحت نیب کسی ملزم کیخلاف کارروائی کر سکتا ہے، نیب آرڈیننس کی دفعہ 24 ڈی کے تحت نیب کسی بھی ملزم کو گرفتاری سے پہلے گرفتاری کا جواز بتانے کا پابند ہے، زبیر خالد بٹ ایڈووکیٹ کا کہناہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا حمزہ شہباز شریف کی گرفتاری کے لئے اطلاق غلط ہے، نیب سپریم کورٹ کے جس فیصلے کو بنیاد بنا رہا ہے، وہ ایک مخصوص کیس کیلئے تھا، سپریم کورٹ کا نیب بنام سید جلیل فیصلہ عدالتی نظیر قرار نہیں دیا گیا، جو فیصلہ عدالتی نظیر قرار نہ دیا جائے، اس کا اطلاق ہر ملزم یا کیس پر نہیں ہو سکتا، سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو ججمنٹ ان ریم اور ججمنٹ ان پرسونا کے اصول پر دیکھا جائے گا،سپریم کورٹ کا نیب بنام سید جلیل فیصلہ صرف ایک شخص کی حد تک ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے سے لاہور ہائیکورٹ کا حمزہ شہباز کے حق میں فیصلہ غیرموثر نہیں ہوتا، ممبر پنجاب بار کونسل سید فرہاد علی شاہ نے کہا کہ نیب کو کسی بھی ملزم کو گرفتارکرنے کا حق حاصل ہے ، اس حوالے سے سپریم کورٹ کا حکم بڑا واضح ہے ،انہوں نے کہا کہ انہیں لگتاہے کہ نیب نے سپریم کورٹ کے اسی حکم کی روشنی میں ہی کارروائی کی ہے۔